تو ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔ ممتاز جالب
آخروہ بھی چلی گئی اورجاتے جاتے ایک نہ بھولنے والی کہانی لوگوں کیلئے چھوڑ گئی، وہ ایک باضمیر، باکردار شاعر کی بیوی تھی
آخر وہ بھی چلی گئی اور جاتے جاتے ایک نہ بھولنے والی کہانی لوگوں کے لیے چھوڑ گئی۔ وہ ایک باضمیر، باکردار شاعر کی بیوی تھی۔ شاعر سچ لکھنے کی پاداش میں جیل خانوں، تھانوں، حوالاتوں میں جاتا رہا اور شاعرکی بیوی بھی اپنے شوہر کو حوصلہ دینے، عہد وفا نبھانے، جیلوں، تھانوں، حوالاتوں میں جاتی رہی۔ ملک بھر کی جیلیں، اس کی دیکھی ہوئی تھیں، لاہور کی کوٹ لکھپت جیل، کیمپ جیل، تھانہ پرانی انارکلی، تھانہ کرشن نگر، تھانہ سول لائنز اور مختلف عقوبت خانے، لاہور سے دور حیدر آباد جیل، میانوالی جیل، جہاں جہاں شاعر جاتا رہا شاعر کی ہم نوا، ہم دم وہاں وہاں جاتی رہی۔
تقریباً 20 سال پہلے شاعر دنیا سے رخصت ہونے لگا تو بیوی کو پاس بلایا اور اس نے عہد لیا کہ میرے مرنے کے بعد کسی حکومت سے کسی بھی قسم کی مراعات نہ لینا۔ شاعر کے ساتھ عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزارنے والی نے چند ساعتوں کے مہمان اپنے شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے کہا کہ میں وعدہ کرتی ہوں کسی حکومت سے کچھ نہ لوں گی، شاعر دنیا چھوڑ آگے بڑھ گیا۔ شاعر کے جانے کے بعد حاکم وقت وزیر اعظم تعزیت کے لیے گھر آیا، حاکم اپنے ساتھ 25 لاکھ روپے بھی لایا تھا، حاکم (وزیر اعظم) نے شاعر کی سوگوار بیوی سے تعزیت کرتے ہوئے کہا (اخبارات میں چھپی ہوئی خبر کے عین مطابق وزیر اعظم اور شاعر کی بیوی کی گفتگو نقل کر رہا ہوں) میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ تو حبیب جالب کی بیوہ نے کہا کہ آپ میرے بیٹے ہیں لیکن حبیب جالب ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ حکومت سے کوئی امداد نہیں لینا، میں اپنے مرحوم شوہر کے کہنے کے مطابق ثابت قدم رہتے ہوئے عزت سے مرنا چاہتی ہوں۔ بیٹا! آپ ایک درویش کے گھر آئے ہو اور یہاں آکر آپ کے وقار اور عزت میں اضافہ ہوا ہے اور میں آپ کے آنے پر شکریہ ادا کرتی ہوں۔''
بیگم ممتاز حبیب جالب اپنے شوہر سے کیے گئے عہد کے مطابق اپنے شوہر ہی کی طرح ساتھ ایمان کے شوہر کے پہلو میں بنی لحد میں اتر گئیں، وہ کبھی کسی حکمران، وزیر، سفیر، مشیر سے نہیں ملیں، جو بھی حکومتی اہلکار آیا ان سے ملنے گھر آیا۔
شاعر عوام حبیب جالب کا انتقال 13 مارچ 1993 کو ہوا تھا۔ شوہر کے بعد تقریباً 21 سال زندگی گزار کے ممتاز جالب بھی اپنے عظیم شوہر سے جا ملیں۔ انتقال سے پہلے چند سال انھوں نے مختلف بیماریوں سے مقابلے میں گزارے اور بالآخر 6 جنوری 2014 کی صبح تقریباً 9 بجے ان کی ملاقات اپنے شوہر سے ہوگئی۔ زندگی بھر پولیس والے جیلوں، تھانوں، حوالاتوں میں بیگم جالب کی اپنے شوہر سے ملاقاتیں کرواتے رہے مگر 6 جنوری 2014 کی ملاقات میں کوئی پولیس والا حائل نہیں تھا۔
حبیب جالب صاحب نے جیل کی ایک ملاقات کو نظم بند کیا ہے۔ میں اس موقعے پر وہی ملاقات بہ زبان حبیب جالب قلم بند کرتا ہوں (حوالہ: جالب بیتی، صفحہ نمبر 161) ''ضیا الحق کے کارندوں نے سب سیاسی لوگوں کو پکڑ لیا تھا۔ عوامی جمہوری اتحاد والوں کو بھی اور پی پی پی والوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ ایم آر ڈی بن چکی تھی، میاں محمود علی قصوری ، ان کے لڑکے، فلمی اداکار محمد علی، فیض صاحب کے داماد شعیب ہاشمی، سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم، ان سب کو کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس میری گرفتاری کے آرڈر لے کر گھر آئی تو میں گھر پر نہیں تھا۔ وہ میرے لڑکے (ناصر جالب) کو لے جانے لگے تو میری بیوی نے مزاحمت کی اور اسے نہیں جانے دیا۔ پولیس والے کہہ گئے ''جالب صاحب آئیں تو انھیں تھانے بھیج دینا'' میں صبح گھر آگیا تو مجھے پتہ چلا، میں نے سوچا اب یہی بہتر ہے کہ خود ہی تھانے چلا جاؤں۔ میں تھانے خود ہی پہنچ گیا۔ تھانے والوں نے مجھے بٹھا لیا اور کہا ''جالب صاحب! بات یہ ہے کہ آپ تو فوج کو مطلوب ہیں، ہماری طرف سے تو آپ جاسکتے ہیں'' میں نے سوچا، میں کیوں جاؤں؟
مجھے نہیں جانا چاہیے۔ چلا گیا تو کوئی اور کیس ڈال دیں گے۔ میں وہیں رہا۔ رات ہوگئی، انھوں نے بستر بچھادیا، میں لیٹ گیا۔ تقریباً ڈیڑھ بجے رات وہ مجھے کوٹ لکھپت جیل لے گئے وہاں تقریباً سبھی لوگ موجود تھے۔ باقی آہستہ آہستہ آتے گئے۔ نوابزادہ نصراللہ خان بہاولپور میں نظر بند تھے۔ پنجاب کے دوست مختلف جیلوں میں بند تھے۔ یہاں بھی ملاقات کے وقت سی آئی ڈی والے موجود ہوتے تھے، ایسے ہی ہم کسی کا نام نہیںلیتے تھے۔ بس اشاروں کنایوں میں گفتگو کرتے تھے ''بھئی! فلاں سے قرض لے لو'' کسی کا نام لینے سے وہ بھی پھنس سکتا تھا، بے حد مشکل زندگی تھی، بچے بے آسرا تھے اور میں جیل میں تھا، میری بیوی ان حالات میں مجھ سے ملاقات کے لیے آئی تھی۔ سی آئی ڈی والے ساتھ بیٹھے ان کی موجودگی میں میری بیوی گھر کے حالات بیان نہیں کرسکتی تھی، میں بھی ہوں، ہاں کر رہا تھا تو میں نے کوٹ لکھپت جیل میں یہ غزل لکھی تھی۔
ملاقات
جو ہو نہ سکی بات' وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم' ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا' پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا' کچھ اپنی زبان تھی
صیاد نے یوں ہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں' مری ہمدم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ مرے اشعار میں' یہ بات کہاں تھی
ملاقات کے عنوان سے یہ غزل بھابی صاحبہ (جنھیں گھر میں آپا تاج کے نام سے پکارا جاتا تھا) کے زندگی بھر کے کردار کا مکمل اظہار ہے۔ یہ منظوم اظہاریہ ایک سچے شاعر کا بیان ہے۔ حبیب جالب کا ساتھ نبھانا اپنی جگہ ایک بہت بڑا اور اہم واقعہ ہے۔ جسے آپا تاج خوب نبھاکر اپنے عظیم شوہر سے جاملیں۔ حبیب جالب کا اپنی بیوی کے لیے زندگی میں خراج تحسین تھا اور بعداز مرگ خراج عقیدت ہے۔
میں آپا تاج کی زندگی میں ان کی موجودگی میں ایک بڑے جلسے میں اور اپنی تحریروں میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ میں نے پانچویں جماعت سے دسویں جماعت آپا تاج کے ساتھ رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ لاہور کے اپنے زمانے کے اہم اور مشہور اسکول، مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میں نے 1964 میں میٹرک پاس کیا تھا، آپا تاج نے حقیقتاً بڑی بہن کا کردار ادا کیا۔ بطور بہو بھی وہ بہت اچھی تھیں۔ آپا تاج نے ہمارے گھر میں بہت اچھا وقت گزارا اور بزرگوں کی دعائیں لیں وہ بہت محبت کرنے والی انسان تھیں، دوسروں کے دکھ اور تکلیف انھیں بے چین کردیتے تھے۔ وہ سب کے کام آتی تھیں۔ ہمارے عزیز و اقارب میں ان کے ایثار سے سبھی واقف ہیں۔ ان کا یہ وصف تھا کہ وہ کسی کے کام آکر اسے جتلاتی نہیں تھیں۔ اپنی عمر کے آخری چند سال انھوں نے بستر علالت پر گزارے اور علالت کی اذیت کے عوض خدا کے حضور اعلیٰ درجات حاصل کرتی رہیں۔ ان کا جانا مجھے کبھی نہ بھولے گا۔ 1956 میں کراچی کینٹ اسٹیشن پر 9 سالہ سعید نے اپنی بھابی آپا تاج کا ہاتھ پکڑا تھا اور پھر زندگی بھر پکڑے رکھا۔ اور پکڑا رہے گا۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے (آمین)
تقریباً 20 سال پہلے شاعر دنیا سے رخصت ہونے لگا تو بیوی کو پاس بلایا اور اس نے عہد لیا کہ میرے مرنے کے بعد کسی حکومت سے کسی بھی قسم کی مراعات نہ لینا۔ شاعر کے ساتھ عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزارنے والی نے چند ساعتوں کے مہمان اپنے شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے کہا کہ میں وعدہ کرتی ہوں کسی حکومت سے کچھ نہ لوں گی، شاعر دنیا چھوڑ آگے بڑھ گیا۔ شاعر کے جانے کے بعد حاکم وقت وزیر اعظم تعزیت کے لیے گھر آیا، حاکم اپنے ساتھ 25 لاکھ روپے بھی لایا تھا، حاکم (وزیر اعظم) نے شاعر کی سوگوار بیوی سے تعزیت کرتے ہوئے کہا (اخبارات میں چھپی ہوئی خبر کے عین مطابق وزیر اعظم اور شاعر کی بیوی کی گفتگو نقل کر رہا ہوں) میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ تو حبیب جالب کی بیوہ نے کہا کہ آپ میرے بیٹے ہیں لیکن حبیب جالب ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ حکومت سے کوئی امداد نہیں لینا، میں اپنے مرحوم شوہر کے کہنے کے مطابق ثابت قدم رہتے ہوئے عزت سے مرنا چاہتی ہوں۔ بیٹا! آپ ایک درویش کے گھر آئے ہو اور یہاں آکر آپ کے وقار اور عزت میں اضافہ ہوا ہے اور میں آپ کے آنے پر شکریہ ادا کرتی ہوں۔''
بیگم ممتاز حبیب جالب اپنے شوہر سے کیے گئے عہد کے مطابق اپنے شوہر ہی کی طرح ساتھ ایمان کے شوہر کے پہلو میں بنی لحد میں اتر گئیں، وہ کبھی کسی حکمران، وزیر، سفیر، مشیر سے نہیں ملیں، جو بھی حکومتی اہلکار آیا ان سے ملنے گھر آیا۔
شاعر عوام حبیب جالب کا انتقال 13 مارچ 1993 کو ہوا تھا۔ شوہر کے بعد تقریباً 21 سال زندگی گزار کے ممتاز جالب بھی اپنے عظیم شوہر سے جا ملیں۔ انتقال سے پہلے چند سال انھوں نے مختلف بیماریوں سے مقابلے میں گزارے اور بالآخر 6 جنوری 2014 کی صبح تقریباً 9 بجے ان کی ملاقات اپنے شوہر سے ہوگئی۔ زندگی بھر پولیس والے جیلوں، تھانوں، حوالاتوں میں بیگم جالب کی اپنے شوہر سے ملاقاتیں کرواتے رہے مگر 6 جنوری 2014 کی ملاقات میں کوئی پولیس والا حائل نہیں تھا۔
حبیب جالب صاحب نے جیل کی ایک ملاقات کو نظم بند کیا ہے۔ میں اس موقعے پر وہی ملاقات بہ زبان حبیب جالب قلم بند کرتا ہوں (حوالہ: جالب بیتی، صفحہ نمبر 161) ''ضیا الحق کے کارندوں نے سب سیاسی لوگوں کو پکڑ لیا تھا۔ عوامی جمہوری اتحاد والوں کو بھی اور پی پی پی والوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ ایم آر ڈی بن چکی تھی، میاں محمود علی قصوری ، ان کے لڑکے، فلمی اداکار محمد علی، فیض صاحب کے داماد شعیب ہاشمی، سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم، ان سب کو کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس میری گرفتاری کے آرڈر لے کر گھر آئی تو میں گھر پر نہیں تھا۔ وہ میرے لڑکے (ناصر جالب) کو لے جانے لگے تو میری بیوی نے مزاحمت کی اور اسے نہیں جانے دیا۔ پولیس والے کہہ گئے ''جالب صاحب آئیں تو انھیں تھانے بھیج دینا'' میں صبح گھر آگیا تو مجھے پتہ چلا، میں نے سوچا اب یہی بہتر ہے کہ خود ہی تھانے چلا جاؤں۔ میں تھانے خود ہی پہنچ گیا۔ تھانے والوں نے مجھے بٹھا لیا اور کہا ''جالب صاحب! بات یہ ہے کہ آپ تو فوج کو مطلوب ہیں، ہماری طرف سے تو آپ جاسکتے ہیں'' میں نے سوچا، میں کیوں جاؤں؟
مجھے نہیں جانا چاہیے۔ چلا گیا تو کوئی اور کیس ڈال دیں گے۔ میں وہیں رہا۔ رات ہوگئی، انھوں نے بستر بچھادیا، میں لیٹ گیا۔ تقریباً ڈیڑھ بجے رات وہ مجھے کوٹ لکھپت جیل لے گئے وہاں تقریباً سبھی لوگ موجود تھے۔ باقی آہستہ آہستہ آتے گئے۔ نوابزادہ نصراللہ خان بہاولپور میں نظر بند تھے۔ پنجاب کے دوست مختلف جیلوں میں بند تھے۔ یہاں بھی ملاقات کے وقت سی آئی ڈی والے موجود ہوتے تھے، ایسے ہی ہم کسی کا نام نہیںلیتے تھے۔ بس اشاروں کنایوں میں گفتگو کرتے تھے ''بھئی! فلاں سے قرض لے لو'' کسی کا نام لینے سے وہ بھی پھنس سکتا تھا، بے حد مشکل زندگی تھی، بچے بے آسرا تھے اور میں جیل میں تھا، میری بیوی ان حالات میں مجھ سے ملاقات کے لیے آئی تھی۔ سی آئی ڈی والے ساتھ بیٹھے ان کی موجودگی میں میری بیوی گھر کے حالات بیان نہیں کرسکتی تھی، میں بھی ہوں، ہاں کر رہا تھا تو میں نے کوٹ لکھپت جیل میں یہ غزل لکھی تھی۔
ملاقات
جو ہو نہ سکی بات' وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم' ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا' پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا' کچھ اپنی زبان تھی
صیاد نے یوں ہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں' مری ہمدم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ مرے اشعار میں' یہ بات کہاں تھی
ملاقات کے عنوان سے یہ غزل بھابی صاحبہ (جنھیں گھر میں آپا تاج کے نام سے پکارا جاتا تھا) کے زندگی بھر کے کردار کا مکمل اظہار ہے۔ یہ منظوم اظہاریہ ایک سچے شاعر کا بیان ہے۔ حبیب جالب کا ساتھ نبھانا اپنی جگہ ایک بہت بڑا اور اہم واقعہ ہے۔ جسے آپا تاج خوب نبھاکر اپنے عظیم شوہر سے جاملیں۔ حبیب جالب کا اپنی بیوی کے لیے زندگی میں خراج تحسین تھا اور بعداز مرگ خراج عقیدت ہے۔
میں آپا تاج کی زندگی میں ان کی موجودگی میں ایک بڑے جلسے میں اور اپنی تحریروں میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ میں نے پانچویں جماعت سے دسویں جماعت آپا تاج کے ساتھ رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ لاہور کے اپنے زمانے کے اہم اور مشہور اسکول، مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میں نے 1964 میں میٹرک پاس کیا تھا، آپا تاج نے حقیقتاً بڑی بہن کا کردار ادا کیا۔ بطور بہو بھی وہ بہت اچھی تھیں۔ آپا تاج نے ہمارے گھر میں بہت اچھا وقت گزارا اور بزرگوں کی دعائیں لیں وہ بہت محبت کرنے والی انسان تھیں، دوسروں کے دکھ اور تکلیف انھیں بے چین کردیتے تھے۔ وہ سب کے کام آتی تھیں۔ ہمارے عزیز و اقارب میں ان کے ایثار سے سبھی واقف ہیں۔ ان کا یہ وصف تھا کہ وہ کسی کے کام آکر اسے جتلاتی نہیں تھیں۔ اپنی عمر کے آخری چند سال انھوں نے بستر علالت پر گزارے اور علالت کی اذیت کے عوض خدا کے حضور اعلیٰ درجات حاصل کرتی رہیں۔ ان کا جانا مجھے کبھی نہ بھولے گا۔ 1956 میں کراچی کینٹ اسٹیشن پر 9 سالہ سعید نے اپنی بھابی آپا تاج کا ہاتھ پکڑا تھا اور پھر زندگی بھر پکڑے رکھا۔ اور پکڑا رہے گا۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے (آمین)