قوم پرستی بلوچستان اور سامراج …
بیرونی طاقتیں ممکن ہے کہ مختلف طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنا کر سیکیورٹی فورسز کا کردار مزید نفرت انگیز بنا رہی ہوں
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وفاق کی قوت بلوچستان سے بہرحال زیادہ طاقتور ہے، یہی وجہ ہے بلوچستان کو الگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قوم پرست وفاق سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ وفاق سامراجی قوتوں کے زیر اثر ہے مگر خود سامراج کے ساتھ مل کر قوم پرست نہ صرف وفاق، بلکہ صوبے میں بدنظمی اور انتشار کا باعث بن رہے ہیں، بلکہ نیٹو فورسز کے 2014 میں افغانستان سے ممکنہ انخلاء پر بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے چلے جانے سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا، یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند ایک طرف تو ان کی مدد حاصل کر رہے ہیں، دوسری طرف ان کی دوغلی حکمت عملی بھی سامنے آتی ہے کہ سامراجی افواج کے زیر اثر رہنا تو ان کو منظور ہے مگر وفاق کے سیکیورٹی اداروں کی موجودگی جو مخصوص حالات ہی کا نتیجہ ہے ان کو ریاستی جبر محسوس ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں کے عوام کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، لوگ مارے جارہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان کو کون مار رہا ہے؟
قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز ایسا کر رہی ہیں جب کہ دوسری طرف قوم پرست بھی ایسے لوگوں کو مار رہے ہیں جنھیں وہ سمجھتے ہیں کہ وفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، ایسے میں ان عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو واقعی صوبے اور وفاق میں خلیج کو زیادہ وسیع کر دینا چاہتے ہیں۔ بیرونی طاقتیں ممکن ہے کہ مختلف طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنا کر سیکیورٹی فورسز کا کردار مزید نفرت انگیز بنا رہی ہوں کیونکہ بیرونی طاقتوں کے راستے کی رکاوٹ وفاق ہے، ہماری سیکیورٹی فورسز نہیں۔ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ مارکس نے آئرلینڈ کے نیشنل رائٹ کی تائید کی تھی مگر امریکا یا مغرب کے کسی ملک کو آئرلینڈ میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریک کی اتنی فکر نہیں جتنی کہ بلوچستان کی ہورہی ہے۔
آئرلینڈ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے جاچکے ہیں اور اب بھی یہ جدوجہد جاری ہے مگر اس کی ریزولیشن امریکا نے پاس نہیں کی، یا انسانی حقوق کی بین الاقوامی کمیٹی کو آئرلینڈ کا حق خود ارادیت یاد نہیں آیا، نہ ہی فلسطینیوں پر ہونے والا اسرائیلیوں کا ظلم نظر آرہا ہے۔ امریکا اسرائیل کو تو باقاعدہ عطیات سے نوازتا ہے جو وہ انسانیت سوز کارروائیوں پر صرف کرسکے۔ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی مغرب سمیت امریکا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بھارت بلوچستان میں در اندازی کر رہا ہے۔ اس حوالے سے بھی ان باکس میں ہونے والی بحث میں بھارت مشرا کی درجہ ذیل رائے موجود ہے:
Bharat Mishra
It's all about a perverted form of religious and cultural oppression by Pakistan. A virulent form of Wahabism is being spread in with financial and political support from Saudi Arab. Al Queda, Al Shabab, Boko Haram, LeT, JuD etc are killing innocents throughout the world from Phillipines, China, Burma, Bangladesh, India, Afghanistan, Middle East, Europe and US. A reign of terror is unleashed to introduce a 7th century Shariat so that Saudi Arab becomes the master of the world. They want to colonies all Muslims countries and secular countries like India in the name Islam. This is nothing but Saudi imperialism through its foster child Pakistan. The Shias, Ahmediyas , Hindus and Sikhs and other minorities are being systematically eliminated. Pakistan has become a threat to world peace. We all support you morally. But take advantage of Technology. Write to UN human rights commission, UN Secretary General, world powers like US, china and India. Also to Iran, UK and other countries whom do you think fit. But one request: Protest peacefully through civil disobedience and non-cooperation with Pakistan Govt. Don't pay taxes to its exchequer. These are Gandhian ways. Nothing works better than this. Try it for your legitimate rights. India stands by you.
میں نہیں سمجھتی کہ یہ سب مذہب کی وجہ سے ہورہا ہے، اس کی اصل وجہ معیشت اور سیاست ہے۔ مذہب اور مذہبی فرقوں کو تو استعمال کیا جا رہا ہے، میں مشرا کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ پاکستان میں غیر ملکی امپیریلزم درانداز ہے مگر امریکی اور مغربی امپیریلزم کے بارے میں کیا خیال ہے، جس نے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رکھا ہے۔ امریکا کے پالتو اسرائیل کے بارے میں کیا کہا جائے، جس نے فلسطین کے لوگوں پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔
پاکستان دنیا کے امن کے لیے خطرہ نہیں بلکہ وہ سامراجی طاقتیں ہیں جن کی نظریں بلوچستان کے قدرتی ذخائر اور وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔ دراصل یہ مسائل معیشت کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ان حالات کے ایشیا میں پیدا ہونے کی پیش گوئی لینن نے ایک صدی پیشتر کردی تھی۔ رہی ہیومن رائٹس کی بات تو اس نے آج تک ان قراردادوں کا کیا کیا جو کشمیر کے حوالے سے پاس ہوئی تھیں؟ ہیومن رائٹس کمیشن کو فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جو اسرائیل کر رہا ہے وہ تو نظر نہیں آتیں، اور تاریخ کے اس موڑ پر انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں امریکا کر رہا ہے، مگر ہیومن رائٹس کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے میں کئی عناصر ہیں جن کے تحت بلوچستان میں حالات کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے تحت ایسے حالات کو پیدا بھی کیا جا رہا ہے۔
مگر اصل مسئلہ معیشت ہی ہے، کیونکہ نیشنل ازم کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ان تحریکوں کے بنیادی محرکات میں سب سے کلیدی عنصر معیشت ہی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کو سب سے زیادہ متنازع بنایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے اس کے قدرتی ذخائر جن پر بین الاقوامی سامراج کی نظر ہے اور ہمارے مقامی سامراج اور بلوچ سردار اس سے اپنا حصہ وصولنے کی بھر پور کوششوں میں ہیں۔ ان میں کسی کو بھی عوامی بھلائی درکار نہیں، نہ ہی قوم کا سوال ان کے لیے اہم ہے۔ قوم کے سوال کے خیال کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے صرف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان سب پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی خود مختاری کی تو تائید کی جاسکتی ہے مگر علیحدگی پسندی کے جو عناصر ہیں ان کی مذمت اس لیے کرنی چاہیے کہ یہ مصنوعی طور پر پیدا کرکے ایسے حالات بنائے جارہے ہیں جن کے تحت وہاں کے عوام خصوصاً نوجوان نسل کے اندر وفاق کے حوالے سے نفرت کے جذبات ابھارے جارہے ہیں۔
امریکا کا بہت پرانا سیاسی ہتھیار پروپیگنڈا ہے جس کے تحت وہ میڈیا کی مدد سے پہلے نفسیاتی طور پر لوگوں کے اذہان کو وہ سوچ دیتا ہے جو ان کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا کا ایک ہی عظیم سامراج ہے اور وہ امریکا ہے اور بلوچ سردار اس کی گود میں بیٹھ کر قومی سوال کے نام پر قوم پرستی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بظاہر ان کو بھی یہی لگتا ہے کہ یہ ان کا اپنا سوال ہے، اپنی سوچ ہے، مگر درحقیقت علیحدگی کا مطالبہ ان کی دماغ شوئی کا نتیجہ ہے اور بلوچ عوام کے ساتھ جوڑ توڑ کیا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے جس کو قوم کے سوال کے تحت حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور قوم پرستی کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔