پولیس اور نوجوان
ہر دور میں لوگ زیادتی کو دل میں برا کہتے ہیں اور پھر اظہار کرتے ہیں۔۔۔
جس طرح بالر اور بیٹسمین میں کشمکش ہوتی ہے اسی طرح پولیس اور نوجوانوں میں بھی ایک کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر اکثر عجیب و غریب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس نے اسکوٹر سوار نوجوان کو روکا ہوتاہے ''مک مکا'' کا لفظ بیس پچیس سال قبل سامنے آیا تھا۔ خواہ مخواہ میں نوجوانوں سے کچھ رقم نکلوانے کے لیے انھیں روکنا بڑا خطرناک رجحان ہے۔کالج کے زمانے میں ہم چھ دوست اور تین موٹر سائیکلیں ہواکرتی تھیں۔ اس دور میں پولیس والے اتنے چالاکی سے نہیں پکڑا کرتے تھے جیسے آج کل پکڑتے ہیں۔ بیس پچیس سال قبل ان کے پاس تیز رفتار گاڑیوں کی سہولت بھی نہیں ہوتی تھی۔ وہ ایسی سڑک پر کھڑے ہوتے تھے جہاں سے نوجوان آسانی سے فرار ہوجاتے تھے۔ آج بھی جا بجا ایسے نوجوان دکھائی دیتے ہیں جو باوردی اہلکاروں کو چکمہ دے کر نکل جاتے ہیں۔ پولیس والوں کا یہ انداز کس لیے ہوتاہے؟ وہ کیوں نئی نسل کے درپے ہیں؟ مقصد سکے (Sikkay) ہوتاہے یا ضابطے، قانون پر عمل در آمد کروانے کے لیے کیا پولیس والے نوجوانوں کو پکڑتے ہیں؟ ان کا مقصد معاشرے کو بہتر بنانا ہے؟ ان سوالات پر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ہوگی۔ اچھائی نہیں بلکہ ان کا مقصد نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر ان کی جیب سے کچھ رقم نکلوانا ہوتاہے۔ پولیس والے تو سوزوکیوں، مال بردار گاڑیوں اور زیادہ بھری ہوئی بسوں کے ڈرائیوروں سے بھی رقم نکلواتے ہیں جسے بھتے کا نام دیا جاتاہے۔ ہم آج نوجوانوں ہی کی کیوں بات کررہے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔
وہ نوجوان جو اسکوٹر پر اپنے تعلیمی ادارے یا روزگار پر جارہا ہوتاہے وہ خالصتاً اس سواری سے کماتا نہیں ہے وہ اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے استعمال کرتاہے۔ دوسرے لوگ جن میں عموماً پولیس والے پکڑتے ہیں وہ اپنی سواری کو روزگار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بار برداری کرنے والے اس سے کچھ کماتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پولیس اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے بغیر کسی جائز وجہ کے کسی کو تنگ کرے اور پیسے نکلوائے، آج ہمارا موضوع پولیس کی زیادتیاں ہیں جو وہ نوجوان اسکوٹر سواروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم پولیس کے دوسروں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو موضوع بحث نہیں بنا رہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ نوجوان اتنے خوشحال نہیں ہوتے کہ پولیس والوں پر بے جا رقم لٹا سکیں۔ اگر وہ مجبور ہوکر پولیس کو بھتے کی شکل میں جرمانہ ادا کرتے ہیں تو پھر انھیں اپنی بہت ساری ضروریات کو قربان کرنا پڑتا ہوگا۔ وہ اسے اپنے کاروباری اخراجات میں ایک خرچہ سمجھ کر دل کو نہیں بہلاسکتے۔
دو پہیوں کی سواری عموماً غریب کی سواری ہوتی ہے۔ جان کا خطرہ مول لینے کے باوجود اب یہ صرف شہروں کی نہیں بلکہ دیہاتوں کی بھی ضرورت بن گئی ہے۔ بڑے شہر اور طویل فاصلوں نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے، اب غریب نوجوانوں سے وردی کا رعب جماکر یا قانون کی دھونس دکھاکر پیسہ نکلوانا ایک بڑے خطرے کو دعوت دے رہا ہے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی باتیں بزرگوں سے سنتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں قانون کی عمل داری بھی تھی اور رشوت خوری بھی، کوئی سائیکل سوار بغیر بتی جلائے سائیکل نہیں چلاسکتا۔ اس دور میں بھی پولیس والے کو چونی (Chawanni) یعنی پچیس پیسے دے کر ہمارے چچا و ماموںجان چھڑایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پولیس والوں کی تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ ہماری حکومتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ بڑے عرصے تک سرکاری ملازمین کو کم تنخواہیں دے کر انھیں رشوت کے رستے پر ڈال دیا جاتا۔ اب چونکہ پولیس والوں کی تنخواہیں مناسب ہوچکی ہیں لہٰذا ان کا کسی غریب نوجوان اسکوٹر سوار کو پکڑکر پیسے نکلوانا زیادہ برا محسوس ہوتاہے اگر کوئی موٹر بائیک سوار گھومنے پھرنے یا تفریح کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے جا رہا ہو اور اس سے زیادتی کی جائے تو یہ تلخی زہر بن جاتی ہے، لاوا آہستہ آہستہ پک رہا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس والے بڑی اور شاندار گاڑی والوں اور گدھا گاڑی والوں کو بہت کم روکتے ہیں۔ ایک کو امیر اور دوسرے کو غریب سمجھ کر خطا کار ہونے کے باوجود درگزر کرتے ہیں۔ دوسری طرف نوجوان اسکوٹر سواروں کو بغیر کسی جواز و سبب کے روکنے کا تماشا دیکھنا شہریوں کا روز کا معمول ہے۔ چند روز قبل کراچی میں ہائی کورٹ جارہا تھا تو پولیس والوں نے ایک نوجوان کو روکا ہواتھا۔ وہ کالے لباس والے اور جرائم کے سدباب کے لیے مقرر کیے گئے سپاہی تھے۔ آگے سگنل پر رکے تو ٹریفک پولیس نے اسی نوجوان کو رکنے کا اشارہ کیا۔ پولیس والوں سے کہاکہ ابھی دو منٹ پہلے بھی اس نوجوان کو تمہارے دوسرے ساتھی روکے ہوئے تھے۔ جواب تھا کہ اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا۔ یقیناً یہ نوجوان کی خطا تھی لیکن سوال ہے کہ کیا پولیس والوں کو نوجوان کی جان کی فکر تھی یا اس سے کچھ رقم نکلوانے کی فکر؟ اس سوال کا جواب کسی آئی جی اور ڈی آئی جی سے بھی پوچھا جائے تو وہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا عملہ عوام کی جان کی حفاظت کے لیے یہ سب کچھ کررہاہے۔
میڈیا سے پولیس والے بڑے خوفزدہ رہتے تھے۔ معاشرے کے دوسرے طبقوں کی طرح ٹریفک سارجنٹ بھی اپنے آپ کو فرشتہ ظاہر کرتے ہیں جب کیمرہ سامنے ہو۔ طاقتور طبقات سے رعایت اور غریب موٹر سائیکل سواروں سے زیادتی سر عام دکھائی دے رہی ہے۔ اسی لیے نوجوانوں نے پولیس والوں کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی تلخی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔ اب نسبتاً بہتر تنخواہ پانے والے پولیس کانسٹیبلز اور انسپکٹرز کا نوجوانوں سے زیادتی کا مسلسل اظہار ایک خطرے کو جنم دے رہا ہے۔ یہ رویہ نئی نسل میں مایوسی پیدا کررہاہے۔ فرانس کا انقلاب صدیوں پرانا جب کہ تیونس میں بے روزگار نوجوانوں کا ٹھیلا ہٹانے پر آگ لگانے کا واقعہ تازہ ہے۔
ہر دور میں لوگ زیادتی کو دل میں برا کہتے ہیں اور پھر اظہار کرتے ہیں۔ یہ تلخی اگر زہر بن گئی تو نوجوان بپھر کر قانون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ اگر منتشر نوجوان ایک ریلے کی شکل میں سامنے آگئے تو زیادتی کرنے والوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ یہ بات ٹریفک پولیس کے دو ساتھیوں کو بتا دی جب کہ ایک نوجوان کو دوسرے منٹ میں دوسری مرتبہ دوسری قسم کے پولیس والوں کے ہتھے چڑھتے دیکھا یہ بات اب دوسری مرتبہ کالم کے ذریعے بھی بیان کردی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ زبانی اور دوسری مرتبہ تحریری۔ اب یہ ہمارے سیاست دانوں، حکمرانوں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی ذمے داری ہے کہ وہ قانون کے غلط استعمال کو روکیں وہ بہتر تعلقات کی سبیل نکالیں کہ کوئی تلخی زہر نہ بنے ۔ فساد کا ذریعہ نہ بنے اور نہ ہی بگڑیں۔ معاشرتی تعلقات۔ سب عدل کریں اور رہیں اپنے اپنے مقام پر۔ میں آپ اور ہم سب بشمول پولیس اور نوجوان۔