اُبلتا کراچی…
کراچی شہر کا چپہ چپہ، گلی کوچے، محلے اور یہاں تک کہ اہم شاہراہوں پر سیوریج کا پانی ابلتا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔
کراچی کی موجودہ آبادی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہاں پاکستان کے ہر چپے ، ہر نسل، ہر زبان بولنے والے علاقے کا فرد نہ صرف رہائش پذیر ہے بلکہ اس کی روزی بھی اسی شہر سے وابستہ ہے۔ایک وقت تھا جب کراچی ایک کاسمو پولیٹن شہر تھا جہاں شہر کی صفائی ستھرائی، سیوریج اور دیگر نظاموں کی باقاعدہ چیکنگ رکھی جاتی تھی اور مینٹی نینس کا پورا پورا شعور موجود تھا۔ شہری بھی ایسے نہ تھے جن کے عمل سے انتظامی سہولیات متاثر ہوتیں تھیں یا انھیں نقصان پہنچتا تھا۔ غالباََ یہ وقت پچاس سے ساٹھ کی دہائیوں تک تھا۔ کراچی آج بھی کاسمو پولیٹن سٹی ہے تاہم آج کا شہر قائد بد نظمی کی مثال اور صفائی و ستھرائی کے شعور سے محرومی کا مرقع ہے۔اس کے ذمے دار بلا شبہ حکومت یا صوبائی انتظامیہ اور شہری دونوں ہی ہیں۔ آج کا کراچی ایک ابلتا کراچی ہے۔ عوامی رائے کے مطابق تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے دو اہم شہر ہی اب ایسے باقی بچے ہیں جہاں صوبائی حکومت کا خاصہ بہتر کنٹرول ہے اورانتظامی سہولیات پر اپنی بساط کیمطابق بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔یہ شہر لاہور ، راولپنڈی اور اسلام آباد ہیں۔کراچی کے مقابلے میں صوبے پنجاب کے قابل ذکر شہروں کی صورتحال خاصی بہتر ہے ۔
اس کے برعکس کراچی شہر کا چپہ چپہ، گلی کوچے، محلے اور یہاں تک کہ اہم شاہراہوں پر سیوریج کا پانی ابلتا دکھائی دے رہا ہے۔کراچی کی کوئی بھی آبادی ہو، اس وقت گلیوں میں سیوریج کی نالیاں بند یا خراب ہوجانے کے باعث جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہے۔وسطی کراچی، غربی، شرقی سمیت شمالی و جنوبی ، غرض ہر علاقے کا سروے اگر کیا جائے تو لگتا ہے کہ میونسپلٹی کا ادارہ اس شہر میں ہے ہی نہیں۔ بلدیہ عظمیٰ جیسا غافل اور نا اہل ادارہ جتنا موجودہ دور میں ہے ، شاید ماضی میں اتنا نہ رہا ہو۔بلدیہ عظمیٰ کی زبوں حالی کے حوالے سے آئے روز کچھ نہ کچھ خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔کھبی یہاں فنڈز نہیں ہوتے تو کبھی ملازمین اپنی کئی ماہ کی تنخواہوں کو رو رہے ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ شہر کی صفائی اور مینٹی نینس کی مد میں ملنے والی گاڑیاں،کچرہ ٹھکانے والے ٹرک سوک سینٹر کے احاطے میں کھڑے ناکارہ ہو رہے ہیں تاہم ان کی مینٹی نینس اور فیول کی مد میں حکومت کے خزانے سے معمول کے مطابق پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔ کے ایم سی کی ویب سائیٹ جو فوری معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، اس کا یہ حال ہے کہ یہاں موجود معلومات، افسران کے نام اور ان کے عہدے سن دو ہزار آٹھ کے مطابق ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ چھ برسوں سے یہ ویب سائیٹ اپ ڈیٹ نہیں ہوئی۔
ستم بالائے ستم کے ایم سی کے آئی ٹی اور ویب ڈویلپرز صرف تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔میونسپلٹی سروسز کے چیئرمین کا کام مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویو دینا، مارننگ شوز میں اپنی کارکردگی بتانا اور نیوز چینلز کو شہر میں انتظامی حوالوں سے خصوصی لائیو کالز دینا رہ گیا ہے۔ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ یہاں کی آبادی میں تیزی سے ہوتا ہوا اضافہ ہے۔محض ایک بلدیہ عظمیٰ اور اس کے چند ایک ہزار ملازمین کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کروڑوں ٹڈی دل کے جھنڈ کو قابومیں کرنے کے لیے ہاتھی کے بچے کو استعمال کرے۔شہری بلدیات میں نئی ہونے والی تعمیرات پر تو جیسے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔یہ عوام کی ناسمجھی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے لیے مشکلات اور مصائب کا بندوبست کررہے ہیں۔ بڑھتی آبادی کے باعث کراچی میں تیزی سے نئے فلیٹس،ہائوس پورشنزاور نئے مکانات کی تعمیرات جاری ہیں۔نئی تعمیرات ممکن ہے اچھی بات ہو مگر عین دانش مندی یہ ہے کہ جو علاقے پہلے ہی آباد ہیں، وہاں سے گریز کرتے ہوئے نئی جگہیں آباد کی جائیں۔ یہ قول رسول ﷺ بھی ہے کہ ''جب ایک مقام پر آبادی ہوجائے تو پھر نئے مقام پر آبادی بنائو۔''
اس دانائی اور حکمت کو عوام اور حکومت دونوں ہی نظر انداز کر رہے ہیں اور پہلے سے آباد جگہوں پر ہی بلند عمارتیں کھڑی کر کے اس کے ہر پورشن کو فی خاندان فروخت کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں یہ رجحان آبادی میں اضافے، اور گنجان آبادی کے مد نظر رہائش کے اصول کے باعث فروغ پا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں چند قابل ذکر علاقے ایسے بھی ہیں جو بہت تیزی سے تشکیل ہوئے۔صرف ایک علاقے لیاقت آباد کی مثال لیں جس کا نام ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام پر رکھا گیا تھا اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے اس علاقے کو تیزی سے آباد کرنا شروع کیا تھا۔ لیاقت آباد کی آبادی اس کی رہائشی گنجائش سے تقریباََ دو تین عشروں قبل پوری ہو چکی ہے مگر حیرت اور ستم یہ ہے کہ لوگ اب بھی یہاں آباد ہو رہے ہیں۔ پرانے لوگوں کی نسلیں یہاں سے دیگر علاقوں کو منتقل نہیں ہوتیں ۔ یہاں کے لوگ تین ، چار، اور پانچ منزلہ عمارتیں بنا کر اس کے پورشن کو فروخت کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ہی محلے میں بہت سے نئے خاندان مسلسل آباد ہورہے ہیں۔ہر محلے کی ایک گنجائش ہوتی ہے، اسی طرح وہاں پینے کے پانی کی لائنیں اور سیوریج کی لائنوں کی بھی اپنی مدت ہوتی ہے جس کا دارومدار ان کے استعمال اور معیار پر ہوتا ہے۔
جب ایک محلے میں گنجائش سے زیادہ خاندان آباد ہوتے ہیں تو سیوریج لائنوں اور پانی کی لائنوں کا استعمال بھی چوبیس گھنٹے اور بڑی شدو مد کے ساتھ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر روز گندے پانی کی نالیوں اور صاف پینے کے پانی کی لائنوں کے مسائل دیکھنے میں آرہے ہیںجب کہ بلدیاتی نظاموں کو قائم و دائم رکھنے والے واٹر بورڈ سمیت بلدیہ عظمیٰ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔کم و بیش یہی کچھ صورتحال کراچی کے دیگر علاقوں کی ہے۔اگر آپ نے کبھی مشہور قدیم آبادی والے علاقے لیاری میں قدم رکھا ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں لیاری تو جیسے کراچی کا حصہ ہی نہیں ہے۔ابلتے گٹر اور سر سے بلند کچرے کے ڈھیر سے ایسا لگتا ہے کہ یہاں ابھی کچھ روز قبل ہی جنگ عظیم دوم کا اختتام ہوا ہو۔پشتون آبادی بنارس اور منگھوپیر ٹائون کے مسائل میں غیر قانونی ہائیڈرینٹس کا کاروبار سرفہرست ہے۔ ہائیڈرنٹس مافیا اتنی طاقتور ہے کہ سابق وزیر بلدیات سید اویس مظفر ٹپی کو اسی معاملے پر وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلانے والی مافیا ایک ناسور بن چکی ہے جس کا کاروبار علاقے کی پسماندگی پر چلتا ہے۔
جہاں یہ کاروبار موجود ہے وہاں کی سڑکیں، گلیاں جگہ جگہ کھڑے پانی سے خراب رہتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بنارس اور منگھوپیر کسی کھنڈر زدہ شہر کا منظر پیش کرتے ہیں۔ رواں سال شہر میں آوارہ کتوں کی بہتات بھی قابل ذکر رہی اور اب پوش ہوں یا پسماندہ علاقے ہر جگہ یہ آوارہ کتے انسانوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ رواںسال کتے سمیت دیگر جانوروں کے کاٹے کے کئی کیسز سامنے آئے ۔ ایک سخت جاں بحق بھی ہوا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ غائب اور نجی چھوٹی بڑی گاڑیوں نے شہر کی سڑکوں کا حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ رہی سہی کسر چنگ چی رکشوں نے پوری کردی ہے۔ ٹریفک جام اب روز کا معمول ہے ، اس لیے اس پر عادی ہو جانے کے سوا کوئی چارہ گر نہیں ہے۔ یہ اسلامی بینکنگ ہو یا روایتی بینکنگ۔۔۔ سب کے سب آسان شرائط پر نئی سے نئی گاڑیاں اپنے کسٹمرز کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
کوئی مناسب پالیسی نہ تو بینک اور آٹو مینوفیکچرنگ اداروں میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی شعبہ ٹریفک کنٹرول کے پاس۔اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی کوئی بھی شاہراہ ہو یا عام سڑک، ہر جگہ ٹریفک ابل ابل کر نکل رہا ہے۔روز کے ٹریفک جام کے باعث شہری ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ چڑچڑا پن اب ہر عمر کے انسان میں عام ہو رہا ہے۔ مسائل اور زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں، جب کہ انتظامی شعبوں کا طریقہ کار اور کارکردگی ماضی کی طرح بدترین ہے۔مردم شماری سے قبل یا اس کے فوراََ بعد اگر بلدیہ عظمیٰ کی اوور ہالنگ نہ کرائی گئی اور اس کا انتظام درست نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ شہر کی صورتحال کسی کچرا کنڈی سے کم نہیں ہوگی، اور ہر گھر میںکم از کم ایک نہ ایک نفسیاتی فرد ضرور موجود ہوگا۔ بلدیاتی الیکشن اس ضمن میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔سیاسی چیرا دستیوں اور دست برد سے اگر یہ مرحلہ محفوظ رہا تو امید ہے کہ جلد کوئی بہتر انتظامی شکل کراچی کی شہریوں کو میسر آئے گی، اور ان مسائل کا حل ممکن ہو سکے گا۔