انگریز چلے گئے
اکثر امریکن اردو کا کوئی لفظ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انھیں یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ کوشش بھی مت کرو۔۔۔
انگریزچلے گئے اور اولاد چھوڑگئے۔۔۔۔ یہ محاورہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے باوجود ان کے کلچر کی قید میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
انگریزی بولنا، انگریزی کلچر کے پہناوے، موسیقی، فلموں، ٹی وی اورکتابوں میں اپنی شخصیت ڈھونڈنے والے پاکستانی اپنی خودکی سوسائٹی کو اپنے سے بچھڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ وہ ''پاکستانی انگریز'' جو پاکستان کی زبان سے لے کر انداز تک کسی بھی چیز کو برا بھلا کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
ان پاکستانی انگریزوں کی گنتی کم تھی یہ یا تو آپ کو کلبس میں نظر آتے یا پھر لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کسی مہنگے سے بڑے گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنا چھوٹا سا ویسٹرن کلچر بنائے جہاں ہر کوئی اس طرح ایکٹ کرتا جیسے ان کا پاکستان سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
پچھلے تقریباً بیس سال سے پاکستان میں ایک نئی بیماری شروع ہوئی ہے وہ ہے خود کو ماڈرن دکھانے کی ضرورت محسوس کرنا۔ اسکول، کالج، جاب جہاں پہلے آپ کی کامیابی کے لیے صرف ذہانت ہونا ضروری تھی وہیں آج اگر آپ ماڈرن نظر آتے ہیں تو آپ کامیابی کی کئی سیڑھیاں اس بل پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں چاہے آپ کے پاس فیملی، تعلیم، بیک گراؤنڈ جیسا بھی ہو اگر آپ انگریزی نہیں بولتے امریکن برانڈ فلموں اور گانوں کا حوالہ بات بات پر نہیں دیتے تو ہماری سوسائٹی آپ کو ماڈرن نہیں مانتی آپ سے متاثر نہیں ہوتی۔
سیٹلائٹ نے دنیا بھر کے لیے کئی سہولتیں پیدا کیں لیکن وہی سیٹلائٹ پاکستان کے کلچر کے لیے پھانسی کا پھندہ ثابت ہوئی۔
زی ٹی وی اور مووی میجک جیسے چینلز پاکستان میں نوے کی دہائی میں نشر ہونا شروع ہوئے اور ہمارے کلچر اور سوسائٹی میں آہستہ آہستہ انگریزی کا بخار بڑھنے لگا جہاں چین کے سربراہ انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ بول کر دنیا بھر کی صنعت کو قابو میں رکھ سکتے ہیں وہیں ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں تک کو انگریزی کی کلاسیں دی گئیں کیونکہ کرکٹ بورڈ کو محسوس ہوا کہ کھلاڑیوں کو ان کلاسوں کی ضرورت ہے۔
اچھا کام کرنے والا بری انگریزی بولنے پر بیس ہزار روپے کماتا اور اسی نوکری کے دوسرے شخص کو پچاس ہزار اس لیے ملتے کہ وہ انگریزی بول پاتا جب کہ کام اتنا اچھا اور معیاری نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو صرف مہنگے علاقوں کے ڈرائنگ روم میں بند تھے جنھیں اسٹیج ڈراموں اور شوز میں ''برگر'' کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا اب وہی برگر بننے کی ضرورت پوری قوم کو محسوس ہونے لگی۔
کرتے شلوار میں ینگ ترنگ شو اچھی اردو میں بہتر شکلوں کی لڑکیوں کو بری شکلوں برے کپڑے والیوں نے تبدیل کردیا۔ وہ لڑکیاں جو انگریزی بولنے کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں رکھتی تھیں، ہزار بہترین اردو صحافیوں سے خود کو وہ بیس صحافی بہتر سمجھنے لگے جو کچھ خاص نہیں لکھتے لیکن انگریزی میں لکھتے ہیں۔
اردو ایک مشکل زبان ہے اکثر امریکن جنھیں ہم قریب سے جانتے ہیں اردو کا کوئی لفظ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انھیں یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ کوشش بھی مت کرو۔ انگریزی جیسی آسان نہیں ہے اردو۔ لیکن افسوس ہم پاکستان میں رہ کر بھی اردو کی قدر نہیں سمجھتے۔کچھ دن پہلے ایک گورا پاکستان آئینہ لے کر آیا۔ آئینہ جو ہماری انگریزی ثقافت کے پیچھے دوڑنے والی قوم کو یہ بتاتا ہے کہ تم پاکستانی ہو۔ کچھ بھی کرلو پاکستان ہی تمہاری شناخت رہے گی۔
فلپ لیفارجی نامی ایک فرانسیسی شخص نے اسلام آباد میں لامیسو نامی ایک ریسٹورنٹ کھولا ہے، یہ پاکستان میں کھلنے والا پہلا فائن ڈائننگ ریسٹورنٹ ہے بہترین ریسٹورنٹ جو آپ کو بہترین سروس مہیا کرتا ہے بس شرط یہ ہے کہ آپ پاکستانی نہ ہوں۔
ہندوستان میں تقسیم ہم صرف ایک مسئلے کی وجہ سے چاہتے تھے اور وہ تھا امتیازی سلوک، جب گوروں نے اپنے ریسٹورنٹس پر لکھنا شروع کیا "Indians and dogs are not allowed" تو ہندو اور مسلمان دونوں ہی اپنے ساتھ اس امتیازی رویے کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
شدید جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہمیں اپنا پاکستان ملا جس کے ملنے کے بعد ہم پھر جدوجہد میں لگ گئے اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی شناخت مٹانے کو۔
''لامیسو ریسٹورنٹ'' میں اگر آپ پاکستانی ہیں تو داخلے کی اجازت نہیں، مالک کے مطابق ریسٹورنٹ میں شراب پیش کی جاتی ہے اور اس کے لائسنس کے مطابق شراب مسلمانوں کو نہیں سرو کی جاسکتی اس لیے انھوں نے اس کا یہ نتیجہ نکالا کہ پاکستانیوں کو سرے سے ریسٹورنٹ میں گھسنے ہی نہ دیا جائے جب کہ پاکستان کا کوئی قانون یہ نہیں کہتا کہ جہاں شراب پی جا رہی ہو وہاں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے۔ فلپ کے حساب سے یہ امتیازی سلوک نہیں بلکہ ثقافتی ایشو ہے۔ وہ پاکستانی جنھوں نے اس ریسٹورنٹ میں جانے کی کوشش کی ان سے پاسپورٹ مانگا گیا اور پاسپورٹ نہ ہونے کی صورت میں انھیں اندر جانے سے روک دیا گیا جن میں کچھ انگریزی اخبارات کے صحافی بھی شامل تھے، میڈیا اور انٹرنیٹ پر کئی لوگ اس مسئلے پر بات کر رہے ہیں پاکستان میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں شراب ملتی ہے لیکن مسلمان جاکر وہاں آرام سے کھانا آرڈر کرسکتے ہیں صرف شراب نہیں خرید سکتے لیکن فلپ کے ریسٹورنٹ میں سیدھا سیدھا پاکستانی کو آنے کی اجازت ہی نہیں۔
جب ورکرز یا لیبر کی بات آتی ہے تو فلپ کو پاکستانیوں کو رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں، باورچی، خانساماں یہاں تک کہ بارٹینڈر تک پاکستانی ہے، جب بار بار پاکستانیوں کو وہاں جانے سے روکا گیا تو لوگوں نے شکایات درج کروائیں پولیس نے خود فون کرکے ریزرویشن کروانے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ پاکستانیوں کا داخلہ منع ہے۔
ہوسکتا ہے فلپ کی بات غلط ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو پسند ہی نہیں کرتے اور یہ سب شراب والا بہانہ ہے تاکہ انھیں پاکستانیوں کو سرو ہی نہ کرنا پڑے لیکن اس چیز سے ہم کو کیوں فرق پڑتا ہے؟ ہم تو خود انگریزی کلچر کے پیچھے اس پاکستانی سے امتیاز برت رہے ہیں جو ہماری پہچان ہے اگر کسی اور نے بھی ایسا کردیا تو ہمیں اس میں اتنا برا ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ برا اس لیے لگا کہ ہمارے اندر کہیں اب بھی سچا پاکستانی سانس لے رہا ہے۔ فلپ کے ریسٹورنٹ کو ایک سبق سمجھیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کریں، یہی ہماری پہچان ہے جو کسی انگریزی کلچر کے پیچھے چھپنی نہیں چاہیے۔
انگریزی بولنا، انگریزی کلچر کے پہناوے، موسیقی، فلموں، ٹی وی اورکتابوں میں اپنی شخصیت ڈھونڈنے والے پاکستانی اپنی خودکی سوسائٹی کو اپنے سے بچھڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ وہ ''پاکستانی انگریز'' جو پاکستان کی زبان سے لے کر انداز تک کسی بھی چیز کو برا بھلا کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
ان پاکستانی انگریزوں کی گنتی کم تھی یہ یا تو آپ کو کلبس میں نظر آتے یا پھر لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کسی مہنگے سے بڑے گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنا چھوٹا سا ویسٹرن کلچر بنائے جہاں ہر کوئی اس طرح ایکٹ کرتا جیسے ان کا پاکستان سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
پچھلے تقریباً بیس سال سے پاکستان میں ایک نئی بیماری شروع ہوئی ہے وہ ہے خود کو ماڈرن دکھانے کی ضرورت محسوس کرنا۔ اسکول، کالج، جاب جہاں پہلے آپ کی کامیابی کے لیے صرف ذہانت ہونا ضروری تھی وہیں آج اگر آپ ماڈرن نظر آتے ہیں تو آپ کامیابی کی کئی سیڑھیاں اس بل پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں چاہے آپ کے پاس فیملی، تعلیم، بیک گراؤنڈ جیسا بھی ہو اگر آپ انگریزی نہیں بولتے امریکن برانڈ فلموں اور گانوں کا حوالہ بات بات پر نہیں دیتے تو ہماری سوسائٹی آپ کو ماڈرن نہیں مانتی آپ سے متاثر نہیں ہوتی۔
سیٹلائٹ نے دنیا بھر کے لیے کئی سہولتیں پیدا کیں لیکن وہی سیٹلائٹ پاکستان کے کلچر کے لیے پھانسی کا پھندہ ثابت ہوئی۔
زی ٹی وی اور مووی میجک جیسے چینلز پاکستان میں نوے کی دہائی میں نشر ہونا شروع ہوئے اور ہمارے کلچر اور سوسائٹی میں آہستہ آہستہ انگریزی کا بخار بڑھنے لگا جہاں چین کے سربراہ انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ بول کر دنیا بھر کی صنعت کو قابو میں رکھ سکتے ہیں وہیں ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں تک کو انگریزی کی کلاسیں دی گئیں کیونکہ کرکٹ بورڈ کو محسوس ہوا کہ کھلاڑیوں کو ان کلاسوں کی ضرورت ہے۔
اچھا کام کرنے والا بری انگریزی بولنے پر بیس ہزار روپے کماتا اور اسی نوکری کے دوسرے شخص کو پچاس ہزار اس لیے ملتے کہ وہ انگریزی بول پاتا جب کہ کام اتنا اچھا اور معیاری نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو صرف مہنگے علاقوں کے ڈرائنگ روم میں بند تھے جنھیں اسٹیج ڈراموں اور شوز میں ''برگر'' کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا اب وہی برگر بننے کی ضرورت پوری قوم کو محسوس ہونے لگی۔
کرتے شلوار میں ینگ ترنگ شو اچھی اردو میں بہتر شکلوں کی لڑکیوں کو بری شکلوں برے کپڑے والیوں نے تبدیل کردیا۔ وہ لڑکیاں جو انگریزی بولنے کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں رکھتی تھیں، ہزار بہترین اردو صحافیوں سے خود کو وہ بیس صحافی بہتر سمجھنے لگے جو کچھ خاص نہیں لکھتے لیکن انگریزی میں لکھتے ہیں۔
اردو ایک مشکل زبان ہے اکثر امریکن جنھیں ہم قریب سے جانتے ہیں اردو کا کوئی لفظ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انھیں یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ کوشش بھی مت کرو۔ انگریزی جیسی آسان نہیں ہے اردو۔ لیکن افسوس ہم پاکستان میں رہ کر بھی اردو کی قدر نہیں سمجھتے۔کچھ دن پہلے ایک گورا پاکستان آئینہ لے کر آیا۔ آئینہ جو ہماری انگریزی ثقافت کے پیچھے دوڑنے والی قوم کو یہ بتاتا ہے کہ تم پاکستانی ہو۔ کچھ بھی کرلو پاکستان ہی تمہاری شناخت رہے گی۔
فلپ لیفارجی نامی ایک فرانسیسی شخص نے اسلام آباد میں لامیسو نامی ایک ریسٹورنٹ کھولا ہے، یہ پاکستان میں کھلنے والا پہلا فائن ڈائننگ ریسٹورنٹ ہے بہترین ریسٹورنٹ جو آپ کو بہترین سروس مہیا کرتا ہے بس شرط یہ ہے کہ آپ پاکستانی نہ ہوں۔
ہندوستان میں تقسیم ہم صرف ایک مسئلے کی وجہ سے چاہتے تھے اور وہ تھا امتیازی سلوک، جب گوروں نے اپنے ریسٹورنٹس پر لکھنا شروع کیا "Indians and dogs are not allowed" تو ہندو اور مسلمان دونوں ہی اپنے ساتھ اس امتیازی رویے کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
شدید جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہمیں اپنا پاکستان ملا جس کے ملنے کے بعد ہم پھر جدوجہد میں لگ گئے اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی شناخت مٹانے کو۔
''لامیسو ریسٹورنٹ'' میں اگر آپ پاکستانی ہیں تو داخلے کی اجازت نہیں، مالک کے مطابق ریسٹورنٹ میں شراب پیش کی جاتی ہے اور اس کے لائسنس کے مطابق شراب مسلمانوں کو نہیں سرو کی جاسکتی اس لیے انھوں نے اس کا یہ نتیجہ نکالا کہ پاکستانیوں کو سرے سے ریسٹورنٹ میں گھسنے ہی نہ دیا جائے جب کہ پاکستان کا کوئی قانون یہ نہیں کہتا کہ جہاں شراب پی جا رہی ہو وہاں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے۔ فلپ کے حساب سے یہ امتیازی سلوک نہیں بلکہ ثقافتی ایشو ہے۔ وہ پاکستانی جنھوں نے اس ریسٹورنٹ میں جانے کی کوشش کی ان سے پاسپورٹ مانگا گیا اور پاسپورٹ نہ ہونے کی صورت میں انھیں اندر جانے سے روک دیا گیا جن میں کچھ انگریزی اخبارات کے صحافی بھی شامل تھے، میڈیا اور انٹرنیٹ پر کئی لوگ اس مسئلے پر بات کر رہے ہیں پاکستان میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں شراب ملتی ہے لیکن مسلمان جاکر وہاں آرام سے کھانا آرڈر کرسکتے ہیں صرف شراب نہیں خرید سکتے لیکن فلپ کے ریسٹورنٹ میں سیدھا سیدھا پاکستانی کو آنے کی اجازت ہی نہیں۔
جب ورکرز یا لیبر کی بات آتی ہے تو فلپ کو پاکستانیوں کو رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں، باورچی، خانساماں یہاں تک کہ بارٹینڈر تک پاکستانی ہے، جب بار بار پاکستانیوں کو وہاں جانے سے روکا گیا تو لوگوں نے شکایات درج کروائیں پولیس نے خود فون کرکے ریزرویشن کروانے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ پاکستانیوں کا داخلہ منع ہے۔
ہوسکتا ہے فلپ کی بات غلط ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو پسند ہی نہیں کرتے اور یہ سب شراب والا بہانہ ہے تاکہ انھیں پاکستانیوں کو سرو ہی نہ کرنا پڑے لیکن اس چیز سے ہم کو کیوں فرق پڑتا ہے؟ ہم تو خود انگریزی کلچر کے پیچھے اس پاکستانی سے امتیاز برت رہے ہیں جو ہماری پہچان ہے اگر کسی اور نے بھی ایسا کردیا تو ہمیں اس میں اتنا برا ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ برا اس لیے لگا کہ ہمارے اندر کہیں اب بھی سچا پاکستانی سانس لے رہا ہے۔ فلپ کے ریسٹورنٹ کو ایک سبق سمجھیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کریں، یہی ہماری پہچان ہے جو کسی انگریزی کلچر کے پیچھے چھپنی نہیں چاہیے۔