ادب ادیب اور معیار

لوگ کچھ مختلف پڑھنے کو تیار نہیں اور ادیب بھی کچھ نیا لکھنے کا رسک نہیں لے رہا

بہتر اور معیاری ادب تخلیق کرنا ہے تو نئے موضوعات کا انتخاب کرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

آج کل کے ادیبوں کا تو مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ کچھ نیا، کچھ اچھوتا لکھ ہی نہیں سکتے۔ بس وہی گھسی پٹی محبت کی کہانیاں، گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کے قصے، شادی کے بعد ہنسی خوشی رہنے کی باتیں اور حکومت کی برائیاں۔

یہ سب باتیں موجودہ دور کے لکھاریوں کو سننے کو ملتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ تبدیلی کا نعرہ لگا دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کےلیے ایک سازگار فضا کا قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ لوگ یہ تو بہت کہتے ہیں کہ راتوں رات ہی ادب کا ٹرینڈ تبدیل ہوجائے لیکن اس ادب کو قبولیت کا درجہ دلانے کےلیے کوئی اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔

معروف مصنفہ حسینہ معین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے خواتین کےلیے جو ڈرامے لکھے اس میں بیک وقت خواتین کو نڈر دکھانے کے ساتھ ساتھ مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ لیکن موجودہ دور میں لکھنے والوں نے خواتین کی مظلومیت پر فسانے لکھنا شروع کردیے۔ ہر ڈرامے کا ایک جیسا اسکرپٹ، رونا دھونا، طلاقیں اور تھپٹر۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کل ایسی تحریروں کو پسند کیا جارہا ہے جو بغاوت پر اکسائیں، اب خواہ یہ مذہبی منافرت پر مبنی تحاریر ہوں یا عورت کارڈ کا استعمال۔ بس 'جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے' والی پالیسی نظر آتی ہے۔ اسے ادب ہرگز نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ ایسی تحریریں رہنمائی کی جگہ گمراہی کو پروان چڑھا رہی ہیں۔

زیادہ تر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ گندا لٹریچر پڑھیں کیونکہ اچھے لوگ اور اچھی کتابیں کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں، اس لیے لوگ عامیانہ کتب خریدنے کےلیے بھی ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔


معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے والی مکالمے کی فضا اب معدوم ہوچکی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لوگوں کی سوچ ایسی ہوچکی ہے کہ وہ روایتی چیزوں کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں۔ گویا ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتے۔ قارئین جہاں کوئی اچھوتا موضوع دیکھتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اس کے شائع ہونے کے بعد تنقید کا انبار لگا دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا اس کی نمایاں مثال ہے کہ وہاں پر ادیب کی ذاتی زندگی کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ طرح طرح کے بے ہودہ اور گھٹیا کمنٹس کرکے ایسی تنقید کی جاتی ہے کہ اس لکھاری کی دل شکنی ہوتی ہے اور وہ لکھنا ہی ترک کر دیتا ہے۔

آج کے ادیب کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور قاری کا دماغ بھی بند ہے۔ کیونکہ لوگ کچھ مختلف پڑھنے کو تیار نہیں تو ادیب کچھ نیا لکھنے کا رسک بھی نہیں لے رہا۔ آج ایک اچھی، سچی اور نئی سوچ کا گلا گھونٹ دیا جارہا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ایسی منفی سوچ صرف فرد واحد تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ جنونیت اور شدت پسندی کی ایک اجتماعی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

آج کل کے قاری اور ادیب دونوں یہ نہیں سوچتے کہ ہر کسی کی اپنی رائے ہوسکتی ہے، وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ جیسی میری سوچ ہے ویسی سب کی کیوں نہیں۔ وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی الگ سوچتا ہے تو کیوں سوچتا ہے۔ ادیب اور قارئین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مجبور لیکن برابر کے قصوروار ہیں۔ یہ دونوں ایک ایسی قیدی کی طرح ہیں جس کو اپنی زنجیر سے محبت ہے۔ یہ کبھی خودپسندی، بھیڑ چال اور یکسانیت سے چھٹکارا نہیں پانا چاہتے۔

اگر آج ہمیں بہتر اور معیاری ادب تخلیق کرنا ہے تو نئے موضوعات کا انتخاب بھی کرنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ادب کے لیجنڈز کی تحریروں کا امتزاج اور مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story