کسان کپاس کیوں نہیں لگانا چاہتے
کپاس کی پیداواری لاگت میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ فی ایکڑ پیداواری استعداد بھی کم ہوگئی ہے
ایک وقت تھا کہ کپاس پنجاب کے کسان کا عشق سمجھی جاتی تھی۔ گندم کی کٹائی کے بعد تمام کسان جوش و خروش سے کپاس لگاتے تھے۔ تب بھی کسان کے پاس وسائل کم تھے اور مسائل زیادہ تھے۔ لیکن کسان کی محنت اور خدا کی قدرت سے کپاس دیہی علاقوں کو خوشحال کردیتی تھی۔ کپاس کی فصل بیچ کر بچوں کی شادیاں کی جاتی تھیں۔ اس سیزن میں دکانوں پر خریداروں کا رش بڑھ جاتا تھا اور ہر شخص مطمئن نظر آتا تھا۔ حالات نے پلٹا کھایا، اور اب صورتحال یہ ہے کہ کسان کپاس کاشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ماضی میں پاکستان کپاس کی پیداوار میں خود کفیل تھا اور سالانہ ڈھائی ملین گانٹھیں بیرون ممالک بھیج کر اربوں روپے کمائے جاتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹریز کی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے 7 ملین گانٹھیں باہر سے منگوائی جارہی ہیں، جس پر تین ارب ڈالرز کا خرچہ ہوگا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ گزشتہ دس سال میں ملکی معیشت کو 36 ارب ڈالرز کے خسارے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
کسان کے پاس کپاس کاشت نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ پنجاب کا ماحول ہمیشہ کپاس کی کاشت کےلیے سازگار سمجھا جاتا تھا لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں نے کپاس کی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہر سال درجہ حرارت اور بارشوں کی شدت میں اضافہ کپاس پر نت نئی بیماریوں کے حملے کا باعث بنتا ہے۔ دو دہائی قبل فروری میں کاشت کی جانے والی کپاس 2 بوری یوریا، 5 پانی اور 5 اسپرے سے بہترین پیداوار دیتی تھی۔ آج کل ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کپاس کی کاشت اپریل، مئی میں کی جارہی ہے، جو 5 بوری یوریا، 10 پانی اور 15 اسپرے کے بعد بھی اچھی پیداوار دینے سے قاصر ہے۔
کسانوں کا اعتراض ہے کہ ہمارے ریسرچ ادارے ایسی ورائٹیز بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرکے اچھی پیداوار دے سکیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ان اداروں میں بیج فراہم کرنے کےلیے اقربا پروری عام ہے، جس کی وجہ سے منظور شدہ ورائٹیز عام کسان کی پہنچ سے دور ہیں۔ دوسری طرف ریسرچ اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے فنڈز نہیں دیے جارہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں زرعی ریسرچ پر جی ڈی پی کا صرف 0.18 فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جبکہ بھارت میں زرعی ریسرچ پر ہم سے تین گنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔
آج سے تین دہائیاں قبل پاکستان میں کپاس کی پیداوار 1 کروڑ 28 لاکھ گانٹھیں جبکہ بھارت میں 1 کروڑ 10 لاکھ گانٹھیں تھی۔ زراعت میں ریسرچ کی بدولت آج بھارت میں کپاس کی پیداوار تین گنا بڑھ کر 4 کروڑ گانٹھیں ہوچکی ہے اور ہمارے ہاں یہ آدھی سے بھی کم ہوکر 55 لاکھ گانٹھوں تک محدود ہوچکی ہے۔
کسی بھی فصل کی طرح کپاس کےلیے بھی اِن پٹ یعنی بیج، کھاد، پانی اور کیڑے مار ادویہ بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ کپاس کے زوال کی بڑی وجہ اِن پٹ کی عدم دستیابی، قیمت اور کوالٹی کا موزوں نہ ہونا ہے۔ گزشتہ سال کسان کو کپاس کاشت کےلیے بیج دستیاب نہیں تھا جس کی وجہ سے بیج کی کوالٹی پر سمجھوتہ کیا گیا۔ کسان اس صورتحال کا ذمے دار فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کو ٹھہراتے ہیں، جو ہر سال سیڈ مافیا کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔
ڈھائی سال قبل ڈی اے پی کی جو بوری کسانوں کو 2500 روپے میں مل رہی تھی وہ اب 5500 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ جو 5 روپے 35 پیسہ میں پڑتا تھا وہ اب 13روپے فی یونٹ پڑ رہا ہے۔ اسی طرح مزدوروں اور فیول کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کپاس کی پیداواری لاگت میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ دوسری طرف پیداوار کی یہ صورتحال ہے کہ 30 من فی ایکڑ لینے والے کسان گزشتہ سال 7 من فی ایکڑ پر بے بس نظر آرہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال کسان کپاس کے بجائے مکئی، چاول، کماد اور دیگر منافع بخش فصلوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
کپاس کی تباہی کی بڑی وجہ کاٹن زون میں شوگر ملز کا قیام ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر شوگر ملز سیاسی شخصیات کی ملکیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکومتوں میں گنے کی کاشت کو غیر ضروری اہمیت دی گئی اور اس کے فروغ کےلیے پالیسیاں بھی بنائی گئیں۔ حکومتی سطح پر کپاس کی حوصلہ شکنی کی گئی، جبکہ گنے کی کاشت پر کسانوں کو سپورٹ پرائس کا لالچ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کپاس کا رقبہ دن بدن کم ہوتا گیا اور کاٹن زون میں بھی کسان کماد کاشت کرنے لگے۔ سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ جہاں کماد کاشت کیا جاتا ہے وہاں آب و ہوا گرم مرطوب ہوجاتی ہے جو رس چوسنے والے کیڑوں کےلیے سازگار ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے کپاس میں سفید مکھی کا حملہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ رہی سہی کسر مہنگی اور غیر معیاری کیڑے مار ادویہ نے پوری کردی ہے۔ کسانوں کا اعتراض یہ بھی ہے کہ حکومتی اہلکار پیسٹی سائیڈز کمپنیوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں جس کے بدلہ میں انہیں لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
پاکستان میں بی ٹی کاٹن 15 سال قبل غیر قانونی طور پر متعارف کرائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتی طور پر تو پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن اس کے بعد بیماریوں اور کیڑوں کا حملہ بڑھ گیا۔ دنیا بھر میں بی ٹی کاٹن نے انقلاب برپا کردیا۔ دنیا بی ٹی کاٹن کی تھرڈ جنریشن تک پہنچ چکی ہے لیکن ہمارے ہاں کمپنیاں انویسٹ کرنے سے گھبراتی ہیں کیوں کہ یہاں انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس نہیں ہیں۔ کمپنیوں اور بریڈرز کو خطرہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ نئی ورائٹی متعارف کرائیں گے اس کی جعلی ورائٹی تیار کرکے مارکیٹ میں پہنچا دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کسان روایتی اور غیر منظور شدہ ورائٹیاں استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
کسی بھی شعبے کی کامیابی یا بربادی میں حکومتی پالیسیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام میں کسانوں کی توقعات کے برعکس کپاس کےلیے کوئی خاص پیکیج یا سپورٹ پرائس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ کورونا کے دنوں میں دیگر شعبوں کو 1200 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جبکہ زراعت کو صرف 63 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جو ابھی تک واجب الادا ہے۔ یہی نہیں گزشتہ حکومت نے سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کپاس کی ریسرچ کےلیے تین ارب روپے کا انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کی منظوری دی، جسے تاحال جاری نہیں کیا گیا۔
سنا ہے کہ حکومت درآمدی کاٹن پر ڈیوٹی بھی ختم کرنے جارہی ہے۔ اس کا اثر یہ پڑے گا کہ مقامی کاشتکار کو بھی کپاس کم قیمت پر فروخت کرنی پڑے گی۔ اس فیصلے سے ٹیکسٹائل مالکان تو فائدہ میں رہ جائیں گے لیکن کسان ایک دفعہ پھر برباد ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ماضی میں پاکستان کپاس کی پیداوار میں خود کفیل تھا اور سالانہ ڈھائی ملین گانٹھیں بیرون ممالک بھیج کر اربوں روپے کمائے جاتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹریز کی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے 7 ملین گانٹھیں باہر سے منگوائی جارہی ہیں، جس پر تین ارب ڈالرز کا خرچہ ہوگا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ گزشتہ دس سال میں ملکی معیشت کو 36 ارب ڈالرز کے خسارے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
کسان کے پاس کپاس کاشت نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ پنجاب کا ماحول ہمیشہ کپاس کی کاشت کےلیے سازگار سمجھا جاتا تھا لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں نے کپاس کی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہر سال درجہ حرارت اور بارشوں کی شدت میں اضافہ کپاس پر نت نئی بیماریوں کے حملے کا باعث بنتا ہے۔ دو دہائی قبل فروری میں کاشت کی جانے والی کپاس 2 بوری یوریا، 5 پانی اور 5 اسپرے سے بہترین پیداوار دیتی تھی۔ آج کل ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کپاس کی کاشت اپریل، مئی میں کی جارہی ہے، جو 5 بوری یوریا، 10 پانی اور 15 اسپرے کے بعد بھی اچھی پیداوار دینے سے قاصر ہے۔
کسانوں کا اعتراض ہے کہ ہمارے ریسرچ ادارے ایسی ورائٹیز بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرکے اچھی پیداوار دے سکیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ان اداروں میں بیج فراہم کرنے کےلیے اقربا پروری عام ہے، جس کی وجہ سے منظور شدہ ورائٹیز عام کسان کی پہنچ سے دور ہیں۔ دوسری طرف ریسرچ اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے فنڈز نہیں دیے جارہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں زرعی ریسرچ پر جی ڈی پی کا صرف 0.18 فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جبکہ بھارت میں زرعی ریسرچ پر ہم سے تین گنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔
آج سے تین دہائیاں قبل پاکستان میں کپاس کی پیداوار 1 کروڑ 28 لاکھ گانٹھیں جبکہ بھارت میں 1 کروڑ 10 لاکھ گانٹھیں تھی۔ زراعت میں ریسرچ کی بدولت آج بھارت میں کپاس کی پیداوار تین گنا بڑھ کر 4 کروڑ گانٹھیں ہوچکی ہے اور ہمارے ہاں یہ آدھی سے بھی کم ہوکر 55 لاکھ گانٹھوں تک محدود ہوچکی ہے۔
کسی بھی فصل کی طرح کپاس کےلیے بھی اِن پٹ یعنی بیج، کھاد، پانی اور کیڑے مار ادویہ بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ کپاس کے زوال کی بڑی وجہ اِن پٹ کی عدم دستیابی، قیمت اور کوالٹی کا موزوں نہ ہونا ہے۔ گزشتہ سال کسان کو کپاس کاشت کےلیے بیج دستیاب نہیں تھا جس کی وجہ سے بیج کی کوالٹی پر سمجھوتہ کیا گیا۔ کسان اس صورتحال کا ذمے دار فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کو ٹھہراتے ہیں، جو ہر سال سیڈ مافیا کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔
ڈھائی سال قبل ڈی اے پی کی جو بوری کسانوں کو 2500 روپے میں مل رہی تھی وہ اب 5500 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ جو 5 روپے 35 پیسہ میں پڑتا تھا وہ اب 13روپے فی یونٹ پڑ رہا ہے۔ اسی طرح مزدوروں اور فیول کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کپاس کی پیداواری لاگت میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ دوسری طرف پیداوار کی یہ صورتحال ہے کہ 30 من فی ایکڑ لینے والے کسان گزشتہ سال 7 من فی ایکڑ پر بے بس نظر آرہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال کسان کپاس کے بجائے مکئی، چاول، کماد اور دیگر منافع بخش فصلوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
کپاس کی تباہی کی بڑی وجہ کاٹن زون میں شوگر ملز کا قیام ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر شوگر ملز سیاسی شخصیات کی ملکیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکومتوں میں گنے کی کاشت کو غیر ضروری اہمیت دی گئی اور اس کے فروغ کےلیے پالیسیاں بھی بنائی گئیں۔ حکومتی سطح پر کپاس کی حوصلہ شکنی کی گئی، جبکہ گنے کی کاشت پر کسانوں کو سپورٹ پرائس کا لالچ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کپاس کا رقبہ دن بدن کم ہوتا گیا اور کاٹن زون میں بھی کسان کماد کاشت کرنے لگے۔ سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ جہاں کماد کاشت کیا جاتا ہے وہاں آب و ہوا گرم مرطوب ہوجاتی ہے جو رس چوسنے والے کیڑوں کےلیے سازگار ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے کپاس میں سفید مکھی کا حملہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ رہی سہی کسر مہنگی اور غیر معیاری کیڑے مار ادویہ نے پوری کردی ہے۔ کسانوں کا اعتراض یہ بھی ہے کہ حکومتی اہلکار پیسٹی سائیڈز کمپنیوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں جس کے بدلہ میں انہیں لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
پاکستان میں بی ٹی کاٹن 15 سال قبل غیر قانونی طور پر متعارف کرائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتی طور پر تو پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن اس کے بعد بیماریوں اور کیڑوں کا حملہ بڑھ گیا۔ دنیا بھر میں بی ٹی کاٹن نے انقلاب برپا کردیا۔ دنیا بی ٹی کاٹن کی تھرڈ جنریشن تک پہنچ چکی ہے لیکن ہمارے ہاں کمپنیاں انویسٹ کرنے سے گھبراتی ہیں کیوں کہ یہاں انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس نہیں ہیں۔ کمپنیوں اور بریڈرز کو خطرہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ نئی ورائٹی متعارف کرائیں گے اس کی جعلی ورائٹی تیار کرکے مارکیٹ میں پہنچا دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کسان روایتی اور غیر منظور شدہ ورائٹیاں استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
کسی بھی شعبے کی کامیابی یا بربادی میں حکومتی پالیسیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام میں کسانوں کی توقعات کے برعکس کپاس کےلیے کوئی خاص پیکیج یا سپورٹ پرائس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ کورونا کے دنوں میں دیگر شعبوں کو 1200 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جبکہ زراعت کو صرف 63 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جو ابھی تک واجب الادا ہے۔ یہی نہیں گزشتہ حکومت نے سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کپاس کی ریسرچ کےلیے تین ارب روپے کا انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کی منظوری دی، جسے تاحال جاری نہیں کیا گیا۔
سنا ہے کہ حکومت درآمدی کاٹن پر ڈیوٹی بھی ختم کرنے جارہی ہے۔ اس کا اثر یہ پڑے گا کہ مقامی کاشتکار کو بھی کپاس کم قیمت پر فروخت کرنی پڑے گی۔ اس فیصلے سے ٹیکسٹائل مالکان تو فائدہ میں رہ جائیں گے لیکن کسان ایک دفعہ پھر برباد ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔