بھارت کی حقائق سے چشم پوشی
آج بھی بھارت کو ذہنی تشنج، کج بحثی سے نجات نہ مل سکی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کبھی مذاکرات سے نہیں بھاگا، بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست کے اقدامات پر نظر ثانی کرتا ہے تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، کشمیرکے معاملے پر ہم صرف نظر نہیں کرسکتے۔
تاہم انھوں کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی باضابطہ بیک چینل رابطہ نہیں ہے، بیک چینل کی ضرورت کیا ہے،کشمیر، سرکریک اور پانی کے مسئلے پر آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں ، وہ اتوار کو پاکستانی قونصل خانہ دبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بھارت کو آمنے سامنے بات چیت کرنے اور مسائل و تنازعات کو حل کرنے کی پیشکش پر بھارت کا خبث باطن ایک بار پھر سامنے آگیا جب کہ سفارتی حوالے سے یہ رابطہ معمول کے مطابق ہے۔
دبئی میں وزیر خارجہ کی ہمہ جہت ملاقاتیں، یو اے ای حکام سے ان کے رابطوں کا تناظر پاک متحدہ عرب امارات اور خطے کی خصوصی صورتحال اور سیاسی و تجارتی تعلقات ہی ہوسکتا ہے لیکن بھارتی میڈیا نے جو واقعتاً شدید ذہنی جھنجھلاہٹ ، سیاسی دیوالیہ پن اور نفسیاتی گرداب کا شکار ہے مگر پاکستان سمجھتا ہے اس کی طرف سے دیرینہ مسائل اور جموں وکشمیر تنازع کے بات چیت کے ذریعے تصفیہ کی صائب پیش کش پر اس کی گھبراہٹ خارج از علت نہیں ہے، اس سیاسی بے سمتی اور سفارتی بند گلی سے اسے نکلنے کی ضرورت ہے مگر بھارتی سیاست کا المیہ اسے عالمی سیاست سے الگ کررہا ہے۔
اسے عصری حقائق کروڑوں غربت زدہ بھارتی عوام کی زندگی سے جوڑے رکھنے کے بجائے معروضی صورتحال سے لاتعلق رکھنے پر مجبور ہے، یہ بھارتی جمہوریت کی شکست ہے، مودی کا ایجنڈا جمہوریت اور سیکولر ازم کی حقیقی اقدار کی اس دیرینہ روش سے کوسوں دور ہے جس پر اس کے آئین سازوں نے استوار کیا تھا،بھارتی سیکولرازم نے انسانیت کو دکھی کیا ہے، بھارت طاقت، جبر اور بربریت کے نشے میں جمہوری راستہ پر چلنے سے گریزاں ہے، فسطائیت اور ہندو توا کے ایجنڈا کے تحت اس نے کشمیر کو ایک کنسنٹریشن کیمپ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا قید خانہ بنا دیا ہے، کشمیری محصور ہیں، بھارت کے اس رویے کا عکس مودی کی پالیسیوں میں جھلکتا ہے۔
اس کی دنیا شدید مذمت اور برہمی، نفرت اور اضطراب کا اظہار کرتی ہے لیکن عالمی فورم اور دو طرفہ بات چیت کی بھارتی سیاست میں دو عملی معمول کی سیاسی چمتکاری سمجھی جاتی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روبروگفتگو کی خبر جیسے ہی میڈیا سے مشتہر ہوئی، بھارتی میڈیا کی بوکھلاہٹ شروع ہوگئی۔
الیکٹرنک میڈیا میں بے معنی سی بحث کے لیے تیار ماہرین صف بندی کرنے لگے، کسی نے سوال کیا کہ اس وقت پاکستان بھارت سے کیوں بات کرنا چاہتا ہے، ان کے اینکرز فرضی باتوں اور مخصوص سوالوں کا بنڈل لے کر بیٹھ گئے، اور وہ معاملات اور مسائل جو بھارت گزشتہ کئی سالوں سے تہہ در تہہ سطحوں پر ہونے والے مذاکرات میں کہتا آیا ہے پھر سے سنا ڈالیں جب کہ کہہ مکرنیوں کے اس افسوس ناک سیاسی ریکارڈ سے بھارت خود کو کبھی الگ نہیں کرسکتا۔
پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت ہمیشہ بات چیت کے ذریعے مسائل کے پائیدار حل سے دامن بچاتا رہا ہے، اس کی دو عملی آج بھی بدستور قائم ہے، آج بھی بھارت کو ذہنی تشنج ، کج بحثی سے نجات نہ مل سکی ، پاکستانی وزیر خارجہ نے جس سفارتی نفاست کے ساتھ ایک رائے دی اس پر بھارتی میڈیا کا جنونی اور جذباتی رد عمل مناسب نہیں،کتنا مدلل انداز فکر ہے کہ بیک ڈور رابطہ کی کیا ضرورت ہے جب کہ پاکستان اور بھارت شفاف طریقے سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔
بھارت نیک نیتی سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے تیار ہے تو دیر کس بات کی مگر یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خطے کی صورتحال کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے جن بھارتی جمہوری سیاستدانوں کی وقت کو ضرورت ہے وہ سیاسی نسل شاید دنیا میں اب نہیں رہی، لگتا ہے اکیسویں صدی کی سیاست کے تہذیبی بہاؤ سے بھارت کا اب کوئی تعلق نہیں، گفتگو اور مکالمہ کا باب شاید مودی سیاسی کلچر میں بند ہوچکا ہے۔ بقول شخصے '' لو اپنے دام میں صیاد آگیا ہے'' حقیقت یہ ہے کہ بھارت اگر ایسا ہے تو اسے ایک درد انگیز سیاسی انحطاط ہی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سے کوئی ملاقات طے نہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی بات چیت ہو گی اس کے لیے ہمیں دو طرفہ سوچنا ہوگا، اللہ کا کرم ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہوئیں، انھوں نے بتایا کہ ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کوشش کر رہے ہیں کہ سفارتی برادرانہ تعلقات کے50 سال مکمل ہونے پر مختلف پروگرام ترتیب دیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں۔
دوسری جماعتوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں، افغان وزیر خارجہ کا مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا، امریکی فوجی انخلا کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر افغان وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی، افغان امن عمل اہم مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے، بہت سے ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ترکی نے بھی ایک کانفرنس رکھی ہے، ہماری خواہش ہو گی کہ طالبان اس کانفرنس میں شرکت کریں، ایران کے وزیر خارجہ چار مرتبہ پاکستان آ چکے ہیں، ایران ہمارا اہم برادر ملک ہے۔
ان کی افغان امن عمل میں دلچسپی بھی ہے، یہ بلاشبہ صائب سیاسی ڈیولپمنٹ ہے، بھارت کو یہ سب کچھ کھلے دل سے دیکھنا چاہیے، سیاسی معاملات تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں، پاکستان ان حقائق اور حکومتی رابطوں اور خطے کی اقتصادی اور سماجی قربتوں سے الگ نہیں، ان ہی دوست اور برادر ملکوں سے تبادلہ خیال ایک تعمیری پیش رفت ہے، انھوں نے کہا کہ گزشتہ برس دسمبر میں اپنے دورے کے دوران اماراتی وزیر خارجہ کے ساتھ پاکستانیوں کو درپیش ویزا مشکلات کو اٹھایا جس کے بعد فیملی ویزا کے حصول میں بہتری آئی، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری سے وسط ایشیائی ممالک کے لیے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اماراتی سفیر نے پاک بھارت تعلقات میں فعالیت پر جو بیان دیا تھا۔
پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی اس پیش رفت کو سراہا ، پاکستان کا سیاسی موقف افغانستان کے حوالے سے بھی امن کی پیش قدمی سے منسلک ہے، وزیر خارجہ پاکستان کے اس موقف کا بار بار اعادہ کرچکے ہیں کہ امن کے لیے پاکستان اپنا کردار خطے کے عظیم مفاد میں ادا کرتا رہے گا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ افغان امن اشتراک کاروں کے مفاد میں ہے اور جنگ مسائل کا حل نہیں، افغان امن اسی تناظر میں پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر نے دبئی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، دونوں وزرائے خارجہ نے استنبول میں ملاقات پر اتفاق کیا۔ وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب کو استنبول پراسس اجلاس کے بعد اسلام آباد مدعو کر لیا۔
خطے کی ابھرتی ہوئی نئی ڈائنامکس سے بھارت کو آگاہ ہونا چاہیے، یہ دنیا گلوبلائزیشن کے محور پر گھوم رہی ہے، ان تبدیلیوں میں نئے انقلابی پیغامات کی ایک گونج سنائی دیتی ہے، وقت نے عہد حاضرکو نئی ٹیکنالوجی دی ہے۔ یہ انسان کی زبردست تخلیقی جیت ہے، لیکن ابھی ٹیکنالوجی اور انسانی امن کو خوشحالی اور جنگ سے نجات کی ایک اور جنگ جیتنی ہے۔ انسان کل بھی مجبور و مظلوم تھا، آج بھی اسے سکون، روزگار، غربت سے آزاد لمحوں کا انتظار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کروڑوں غربت زدہ اور کشمیر کے مظلوم عوام و سیاسی رہنما بہت کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
یہ دور اقتصادی ترقی، محنت کشوں کے ایک ہونے اور پیداواری قوتوں کے پھیلاؤ کا زمانہ ہے، اگر غربت، بے روزگاری، غلامی، بیماری اور استحصال کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ایک ایسی فورس سامنے آئیگی جو ایک انقلابی طاقت بن سکتی ہے۔
ایک بار عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے شکوہ کیا کہ کورونا کے خلاف جدوجہد میں عالمی سیاسی قیادت توقعات پر پورا نہیں اتر سکی جب کہ تعصبات اور باہمی شکوک و قوم پرستانہ جذبات کا شکار ہوئی، یہ بات غالباً انھوں نے ویکسین کی تقسیم کے موقعے پر کہی۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا میں انتشار اور خلفشار ہے، خطے میں لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں، پرانے باکس اور اتحاد ٹوٹ رہے ہیں، ممالک اقتصادی روابط بڑھا رہے ہیں، دفاعی تیاریوں اور اسلحہ کے ڈھیر لگانے سے امن کی منزل قریب نہیں آئیگی۔
بلکہ دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے، دہشت گردی کے انسداد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اخوت و محبت کے آفاقی پیغام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نئے اقتصادی راستے کھولنے پر بین المملکتی روابط میں تیزی آرہی ہے، جنوبی ایشیا، وسط ایشیائی ریاستوں میں فضائی، زمینی اور بحری تجارت کے بے پناہ امکانات ہیں، ترقی کے مشترکہ مقاصد کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، مشرق وسطیٰ کی صورتحال بڑی تبدیلی کی منتظر ہے۔
میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلطان ایک بڑا اقتصادی، سیاسی اور سماجی پلان متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لازم ہے یمن اور سعودی عرب میں امن و مفاہمت کے لیے فہمیدہ عرب دنیا ثالثی اور دوستی کے پیغام کو آگے بڑھائے، کورونا نے ہولناکیوں کی الم ناک تاریخ رقم کی ہے، انسانیت تباہی کی دہلیز تک آپہنچی ہے۔ انسانیت کو جنگ نہیں امن، انصاف، مفاہمت، دور اندیشی اور تدبر و حکمت کی ضرورت ہے۔
سیاسی، مذہبی اور فکری قیادتیں آزمائش کی اس گھڑی میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے، انھیں اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ انصاف امن ، مفاہمت ، معاشی و سیاسی قربتوں اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بڑے اشتراک عمل کی عظیم پیش رفت میں عالمی قیادت کیا راستہ دیکھ رہی ہے۔
تاہم انھوں کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی باضابطہ بیک چینل رابطہ نہیں ہے، بیک چینل کی ضرورت کیا ہے،کشمیر، سرکریک اور پانی کے مسئلے پر آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں ، وہ اتوار کو پاکستانی قونصل خانہ دبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بھارت کو آمنے سامنے بات چیت کرنے اور مسائل و تنازعات کو حل کرنے کی پیشکش پر بھارت کا خبث باطن ایک بار پھر سامنے آگیا جب کہ سفارتی حوالے سے یہ رابطہ معمول کے مطابق ہے۔
دبئی میں وزیر خارجہ کی ہمہ جہت ملاقاتیں، یو اے ای حکام سے ان کے رابطوں کا تناظر پاک متحدہ عرب امارات اور خطے کی خصوصی صورتحال اور سیاسی و تجارتی تعلقات ہی ہوسکتا ہے لیکن بھارتی میڈیا نے جو واقعتاً شدید ذہنی جھنجھلاہٹ ، سیاسی دیوالیہ پن اور نفسیاتی گرداب کا شکار ہے مگر پاکستان سمجھتا ہے اس کی طرف سے دیرینہ مسائل اور جموں وکشمیر تنازع کے بات چیت کے ذریعے تصفیہ کی صائب پیش کش پر اس کی گھبراہٹ خارج از علت نہیں ہے، اس سیاسی بے سمتی اور سفارتی بند گلی سے اسے نکلنے کی ضرورت ہے مگر بھارتی سیاست کا المیہ اسے عالمی سیاست سے الگ کررہا ہے۔
اسے عصری حقائق کروڑوں غربت زدہ بھارتی عوام کی زندگی سے جوڑے رکھنے کے بجائے معروضی صورتحال سے لاتعلق رکھنے پر مجبور ہے، یہ بھارتی جمہوریت کی شکست ہے، مودی کا ایجنڈا جمہوریت اور سیکولر ازم کی حقیقی اقدار کی اس دیرینہ روش سے کوسوں دور ہے جس پر اس کے آئین سازوں نے استوار کیا تھا،بھارتی سیکولرازم نے انسانیت کو دکھی کیا ہے، بھارت طاقت، جبر اور بربریت کے نشے میں جمہوری راستہ پر چلنے سے گریزاں ہے، فسطائیت اور ہندو توا کے ایجنڈا کے تحت اس نے کشمیر کو ایک کنسنٹریشن کیمپ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا قید خانہ بنا دیا ہے، کشمیری محصور ہیں، بھارت کے اس رویے کا عکس مودی کی پالیسیوں میں جھلکتا ہے۔
اس کی دنیا شدید مذمت اور برہمی، نفرت اور اضطراب کا اظہار کرتی ہے لیکن عالمی فورم اور دو طرفہ بات چیت کی بھارتی سیاست میں دو عملی معمول کی سیاسی چمتکاری سمجھی جاتی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روبروگفتگو کی خبر جیسے ہی میڈیا سے مشتہر ہوئی، بھارتی میڈیا کی بوکھلاہٹ شروع ہوگئی۔
الیکٹرنک میڈیا میں بے معنی سی بحث کے لیے تیار ماہرین صف بندی کرنے لگے، کسی نے سوال کیا کہ اس وقت پاکستان بھارت سے کیوں بات کرنا چاہتا ہے، ان کے اینکرز فرضی باتوں اور مخصوص سوالوں کا بنڈل لے کر بیٹھ گئے، اور وہ معاملات اور مسائل جو بھارت گزشتہ کئی سالوں سے تہہ در تہہ سطحوں پر ہونے والے مذاکرات میں کہتا آیا ہے پھر سے سنا ڈالیں جب کہ کہہ مکرنیوں کے اس افسوس ناک سیاسی ریکارڈ سے بھارت خود کو کبھی الگ نہیں کرسکتا۔
پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت ہمیشہ بات چیت کے ذریعے مسائل کے پائیدار حل سے دامن بچاتا رہا ہے، اس کی دو عملی آج بھی بدستور قائم ہے، آج بھی بھارت کو ذہنی تشنج ، کج بحثی سے نجات نہ مل سکی ، پاکستانی وزیر خارجہ نے جس سفارتی نفاست کے ساتھ ایک رائے دی اس پر بھارتی میڈیا کا جنونی اور جذباتی رد عمل مناسب نہیں،کتنا مدلل انداز فکر ہے کہ بیک ڈور رابطہ کی کیا ضرورت ہے جب کہ پاکستان اور بھارت شفاف طریقے سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔
بھارت نیک نیتی سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے تیار ہے تو دیر کس بات کی مگر یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خطے کی صورتحال کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے جن بھارتی جمہوری سیاستدانوں کی وقت کو ضرورت ہے وہ سیاسی نسل شاید دنیا میں اب نہیں رہی، لگتا ہے اکیسویں صدی کی سیاست کے تہذیبی بہاؤ سے بھارت کا اب کوئی تعلق نہیں، گفتگو اور مکالمہ کا باب شاید مودی سیاسی کلچر میں بند ہوچکا ہے۔ بقول شخصے '' لو اپنے دام میں صیاد آگیا ہے'' حقیقت یہ ہے کہ بھارت اگر ایسا ہے تو اسے ایک درد انگیز سیاسی انحطاط ہی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سے کوئی ملاقات طے نہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی بات چیت ہو گی اس کے لیے ہمیں دو طرفہ سوچنا ہوگا، اللہ کا کرم ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہوئیں، انھوں نے بتایا کہ ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کوشش کر رہے ہیں کہ سفارتی برادرانہ تعلقات کے50 سال مکمل ہونے پر مختلف پروگرام ترتیب دیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں۔
دوسری جماعتوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں، افغان وزیر خارجہ کا مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا، امریکی فوجی انخلا کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر افغان وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی، افغان امن عمل اہم مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے، بہت سے ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ترکی نے بھی ایک کانفرنس رکھی ہے، ہماری خواہش ہو گی کہ طالبان اس کانفرنس میں شرکت کریں، ایران کے وزیر خارجہ چار مرتبہ پاکستان آ چکے ہیں، ایران ہمارا اہم برادر ملک ہے۔
ان کی افغان امن عمل میں دلچسپی بھی ہے، یہ بلاشبہ صائب سیاسی ڈیولپمنٹ ہے، بھارت کو یہ سب کچھ کھلے دل سے دیکھنا چاہیے، سیاسی معاملات تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں، پاکستان ان حقائق اور حکومتی رابطوں اور خطے کی اقتصادی اور سماجی قربتوں سے الگ نہیں، ان ہی دوست اور برادر ملکوں سے تبادلہ خیال ایک تعمیری پیش رفت ہے، انھوں نے کہا کہ گزشتہ برس دسمبر میں اپنے دورے کے دوران اماراتی وزیر خارجہ کے ساتھ پاکستانیوں کو درپیش ویزا مشکلات کو اٹھایا جس کے بعد فیملی ویزا کے حصول میں بہتری آئی، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری سے وسط ایشیائی ممالک کے لیے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اماراتی سفیر نے پاک بھارت تعلقات میں فعالیت پر جو بیان دیا تھا۔
پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی اس پیش رفت کو سراہا ، پاکستان کا سیاسی موقف افغانستان کے حوالے سے بھی امن کی پیش قدمی سے منسلک ہے، وزیر خارجہ پاکستان کے اس موقف کا بار بار اعادہ کرچکے ہیں کہ امن کے لیے پاکستان اپنا کردار خطے کے عظیم مفاد میں ادا کرتا رہے گا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ افغان امن اشتراک کاروں کے مفاد میں ہے اور جنگ مسائل کا حل نہیں، افغان امن اسی تناظر میں پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر نے دبئی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، دونوں وزرائے خارجہ نے استنبول میں ملاقات پر اتفاق کیا۔ وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب کو استنبول پراسس اجلاس کے بعد اسلام آباد مدعو کر لیا۔
خطے کی ابھرتی ہوئی نئی ڈائنامکس سے بھارت کو آگاہ ہونا چاہیے، یہ دنیا گلوبلائزیشن کے محور پر گھوم رہی ہے، ان تبدیلیوں میں نئے انقلابی پیغامات کی ایک گونج سنائی دیتی ہے، وقت نے عہد حاضرکو نئی ٹیکنالوجی دی ہے۔ یہ انسان کی زبردست تخلیقی جیت ہے، لیکن ابھی ٹیکنالوجی اور انسانی امن کو خوشحالی اور جنگ سے نجات کی ایک اور جنگ جیتنی ہے۔ انسان کل بھی مجبور و مظلوم تھا، آج بھی اسے سکون، روزگار، غربت سے آزاد لمحوں کا انتظار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کروڑوں غربت زدہ اور کشمیر کے مظلوم عوام و سیاسی رہنما بہت کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
یہ دور اقتصادی ترقی، محنت کشوں کے ایک ہونے اور پیداواری قوتوں کے پھیلاؤ کا زمانہ ہے، اگر غربت، بے روزگاری، غلامی، بیماری اور استحصال کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ایک ایسی فورس سامنے آئیگی جو ایک انقلابی طاقت بن سکتی ہے۔
ایک بار عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے شکوہ کیا کہ کورونا کے خلاف جدوجہد میں عالمی سیاسی قیادت توقعات پر پورا نہیں اتر سکی جب کہ تعصبات اور باہمی شکوک و قوم پرستانہ جذبات کا شکار ہوئی، یہ بات غالباً انھوں نے ویکسین کی تقسیم کے موقعے پر کہی۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا میں انتشار اور خلفشار ہے، خطے میں لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں، پرانے باکس اور اتحاد ٹوٹ رہے ہیں، ممالک اقتصادی روابط بڑھا رہے ہیں، دفاعی تیاریوں اور اسلحہ کے ڈھیر لگانے سے امن کی منزل قریب نہیں آئیگی۔
بلکہ دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے، دہشت گردی کے انسداد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اخوت و محبت کے آفاقی پیغام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نئے اقتصادی راستے کھولنے پر بین المملکتی روابط میں تیزی آرہی ہے، جنوبی ایشیا، وسط ایشیائی ریاستوں میں فضائی، زمینی اور بحری تجارت کے بے پناہ امکانات ہیں، ترقی کے مشترکہ مقاصد کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، مشرق وسطیٰ کی صورتحال بڑی تبدیلی کی منتظر ہے۔
میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلطان ایک بڑا اقتصادی، سیاسی اور سماجی پلان متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لازم ہے یمن اور سعودی عرب میں امن و مفاہمت کے لیے فہمیدہ عرب دنیا ثالثی اور دوستی کے پیغام کو آگے بڑھائے، کورونا نے ہولناکیوں کی الم ناک تاریخ رقم کی ہے، انسانیت تباہی کی دہلیز تک آپہنچی ہے۔ انسانیت کو جنگ نہیں امن، انصاف، مفاہمت، دور اندیشی اور تدبر و حکمت کی ضرورت ہے۔
سیاسی، مذہبی اور فکری قیادتیں آزمائش کی اس گھڑی میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے، انھیں اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ انصاف امن ، مفاہمت ، معاشی و سیاسی قربتوں اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بڑے اشتراک عمل کی عظیم پیش رفت میں عالمی قیادت کیا راستہ دیکھ رہی ہے۔