ایک سفارتکار سے مکالمہ
فواز عبد اللہ کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں لوگ پاکستان میں اتنے خوبصورت سیاحتی مقامات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے ہیں کہ جن کو کوئی حکومت چاہتے ہوئے بھی خراب نہیں کر سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے دور میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کچھ سرد مہری آئی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب نہیں ہوئے ہیں۔
ہم سعودی عرب کے بجائے ترکی اورعرب مخالف اتحاد بنانے کی طرف چل پڑے تا ہم پھر بھی سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھا ہے۔ اس لیے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات میں پاکستان کا کردار ہے وہاں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس میں سعودی عرب کا بھی بہت کردار ہے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت پر نہ صرف پاکستان کی مدد کی ہے بلکہ عالمی سطح پربھی اہم مواقعے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات حالیہ چند ماہ میں بہت بہتر ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گرم جوشی پھر سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ جو خوش آیند ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی اسی گرمجوشی نے پاکستان میں امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے۔ اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات کے لیے دوبارہ بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ تعلقات کے تناظر میں پاکستان میں سعودی سفارتخانہ کے سنیئر سفارتکار فواز عبداللہ الوتمن سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ میرے اور فواز عبداللہ کے درمیان اس تفصیلی ملاقات میں بہت سے اہم امور پر کھل کر بات ہوئی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر بات ہوئی ان کو کیسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اس پر بات ہوئی۔ تا ہم سب سے اہم بات یہ تھی کہ فواز عبد اللہ پیشہ سے ایک صحافی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز پیشہ وارانہ صحافت سے کیا ہے۔ بعدازاں وہ خارجہ امور میں آگئے۔ اس لیے ان سے ملاقات میں ان کے اندر کا ایک صحافی کھل کر سامنے آیا۔ ان کی گفتگو کے صحافتی رنگ نے ملاقات کو بہت دلچسپ بنا دیا۔ تعلقات اور امور کو دیکھنے کا ان کا اپنا ہی ایک انداز ہے۔
فوازعبد اللہ پاکستان میں تعینات ہونے سے پہلے انڈونیشیا میں تعینات تھے۔ انھوں نے انڈونیشیا میں بہت عرصہ کام کیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انڈونیشیا اور پاکستان میں کام کرنے میں کیا فرق ہے۔ فواز عبد اللہ نے کہا کہ جب انھیں انڈونیشیا میں بتایا گیا کہ ان کی اگلی منزل پاکستان ہے تو وہ خود بھی پریشان تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں جو کچھ سنا تھا وہ کوئی خوش آیند نہیں تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ وہ پاکستان میں اپنے سفارتخانہ میں بند ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ سوچ اس لیے تھی کہ مجھے پاکستان کے بارے میں کچھ خاص علم بھی نہیں تھا۔ مجھے فواز عبد اللہ کی گفتگو سے صاف اندازہ ہوا کہ انھیں پاکستان آنے کی کوئی اتنی خاص خوشی نہیں تھی۔ وہ پاکستان آنے سے پہلے پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے بھی نہیں تھے۔
فواز عبد اللہ کو ابھی پاکستان آئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ تا ہم پھر بھی میں نے فواز عبد اللہ سے پوچھا کہ انھوں نے پاکستان میں ابھی تک کیا دیکھا ہے۔ فواز عبد اللہ نے کہا کہ انھیں سیاحت کا بہت شوق ہے۔ تا ہم کورونا کی وجہ سے بھی سیاحت کے مواقعے بہت کم ہیں۔ پھر بھی میں نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات دیکھے ہیں۔ میں ناران گیا ہوں ۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا حسن دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ میں اس حسن کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ہوں۔ پاکستان آنے سے پہلے مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان ایسے قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ شائد دنیا بھی پاکستان کے اس حسن اور دلفریب نظاروں کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔
میں نے فواز عبد اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں سب سے زیادہ خوبصورت کیا لگا۔ انھوں نے کہا قدرتی حسن تو اپنی جگہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن سب سے زیادہ حسین پاکستانیوں کی محبت ہے۔ میں جہاںبھی گیا ہوں لوگوں نے مجھے بے پناہ محبت سے نوازا ہے۔ جب انھیں پتہ لگتا ہے کہ میں سعودی عرب سے ہوں ان کی میرے لیے محبت اور جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔ مجھے ہر پاکستانی کی آنکھ میں سعودی عرب کے لیے بے پناہ محبت نظر آئی ہے۔ میں کوئی چیز خرید لوں لوگ مجھ سے پیسے نہیں لیتے ہیں۔ میں کہیں کھانا کھاؤں لوگ کھانے کے پیسے نہیں لیتے ہیں۔ لوگ گرمجوشی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں کی محبت قابل دید ہے۔ میں خود حیران ہوں کہ پاکستان کے لوگ سعودی عرب سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔
میں نے فواز عبد اللہ سے کہا کھانے میں کیا پسند آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سموسہ کھایا ہے۔ یہ بہت لذیز ہے۔ پاکستانی کھانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں نان بہت شوق سے کھاتا ہوں۔ نان اور سموسہ لینے خود جاتا ہے۔ نان والا مجھے دیکھ کر نان کے پیسے نہیں لیتا۔ اس کی محبت اس کی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ میں نے کہا آپ نے کیا پور ے شمالی علاقہ جات دیکھ لیے ہیں۔ فواز عبد اللہ نے کہا نہیں ابھی وہ سب نہیں دیکھ سکے ہیں۔ لیکن وہ پاکستان کے حسن سے متاثر ہو چکے ہیں۔
میں نے فواز عبد اللہ سے کہا کہ انھوں نے لاہور دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا مکمل نہیں دیکھا صرف ایک دن کے لیے لاہور آسکا ہوں۔ میں نے کہا ہم کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا۔ فواز عبداللہ مسکرائے اور کہنے لگے اس حد تک دیکھ لیا ہے۔ میں نے کہا پورے پاکستان کے کھانے ایک طرف لیکن لاہور کھانوں کے حوالے سے بہت شہرت رکھتا ہے۔ وہ لاہور کے خاص کھانے ضرور کھائیں ۔ انھوں نے کہا کہ وہ جلد لاہور آئیں گے۔
فواز عبد اللہ کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں لوگ پاکستان میں اتنے خوبصورت سیاحتی مقامات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اگر سعودی عرب میں لوگوں کو پاکستان کے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی کے بارے میں علم ہوجائے تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیاحت بہت ترقی کر سکتی ہے۔
انھوں نے کہا اسی طرح پاکستانی بھی سعودی عرب کے ثقافت اور وہاں کے کلچر کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ لوگ سعودی عرب کی قوم کو ایک قوم کے حوالہ سے کم جانتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے محبت کی اور بہت سے وجوہات ہیں۔ لیکن سعودی قوم کیسی ہے اس بارے میں عام پاکستانی کو بہت کم علم ہے۔ اسی طرح پاکستانی صحافی سعودی صحافت اور وہاں کے صحافیوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو بہتر طور پر جان سکیں۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہو جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فواز عبد اللہ کی سوچ بہت مثبت ہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں درست سوچ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مفاد کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ اب تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیاحت اور دیگر ثقافتی شعبوں میں تعلقات بڑھانے کا حکومتی سطح پر معاہدہ ہو چکا ہے۔ اس لیے اب اس ضمن میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔
سعود ی عرب سے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں تعلقات کو وسیع کرنا ہوگا۔ محدود تعلقات کو مضبوط کرنا مشکل رہتا ہے۔ اس لیے فواز عبد اللہ کی سوچ ٹھیک ہے۔ سعودی عرب سے پاکستان میں سیاحت کے لیے بہت مواقعے ہیں۔ ان مواقعوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی ثقافت کو پاکستان میں روشناس کروانے کے لیے کام کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو جتنا وسیع کرتے جائیں گے تعلقات اس قدر مضبوط ہوتے جائیں گے۔