رمضان المبارک اور ہم
اللہ تعالیٰ زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کی صورت میں اپنے نادار بندوں کے لیے امداد کا بندوبست کرتا ہے۔
ماہ صیام جسے عام طور پر رمضان کہا جاتا ہے، اسلامی کیلنڈر کا انتہائی اہم مہینہ ہے اس مبارک مہینے کے روز و شب دیگر ایام سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اہل ایمان اس ماہ کا لمحہ لمحہ یاد الٰہی میں گزارتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کی بارش ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کی صورت میں اپنے نادار بندوں کے لیے امداد کا بندوبست کرتا ہے، بے شک رب کریم مسبب الاسباب ہے۔ وہ پہاڑوں کی چٹانوں میں رہنے والے کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ ماہ رمضان بخشش اور مغفرت کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ اعمال صالح کی بہار کا موسم ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی روزمرہ زندگی کے معمولات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ عبادات کی کثرت کے نتیجے میں ذہن اور قلب کی کثافت بھی دور ہو جاتی ہے اور انسان پاکیزگی سے فیضیاب ہوتا ہے۔
رمضان المبارک نیکیاں کمانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے لیکن افسوس صد افسوس ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے عادی تاجر اور گراں فروش اس مقدس مہینے کی آمد سے قبل ہی اپنی چھریاں تیز کرنی شروع کردیتے ہیں اور اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ کرکے ثواب کے بجائے عذاب کمانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، اگرچہ انھیں اس حقیقت کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ ان کا یہ عمل ثواب کمانے کے بجائے عذاب کمانے کا باعث ہوگا لیکن دولت کی ہوس انھیں اندھا کردیتی ہے وہ اس بات کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے اور ہمارے اعمال کے سوا کوئی بھی چیز سفر آخرت میں ہمارے ساتھ نہیں جاسکتی۔ سوال یہ ہے کہ بقول شاعر:
دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی
یہاں کی دولت یہاں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ خوف خدا سے عاری ہو چکے ہیں اور وہ اس سرائے فانی کو حیات جاودانی سمجھنے لگے ہیں۔ وہ اس احساس سے محروم ہوچکے ہیں کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور انھیں اپنے کیے دھرے کا حساب دینا ہوگا۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں یہود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
حقیقت یہ ہے کہ اس قبیل کے لوگ اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں، انھی کی وجہ سے اسلام ناحق بدنام ہے۔ رمضان المبارک کے آتے ہی مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔ ہر چیز کے دام بے تحاشہ بڑھ جاتے ہیں اور اشیائے خور و نوش کو تو جیسے پَر لگ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کی قوت خرید کمزور پڑ جاتی ہے اور اس کا دسترخوان سکڑ جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح انتظامیہ کی طرف سے گراں فروشی کو کنٹرول کرنے کے لیے وہی ناٹک رچایا گیا۔ دو چار جگہ چھاپے مارے گئے اور کچھ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی لیکن گراں فروشوں کو چھٹی ہی ملی۔ حالت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی 80 روپے درجن میں فروخت ہونے والا کیلا 150 سے 160روپے درجن تک پہنچ گیا، رمضان سے قبل 100روپے میں ڈھائی کلو فروخت ہونے والا خربوزہ 80سے 100 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے، تربوز 60روپے کلو، گرما 120 روپے کلو، چیکو 120سے 150 روپے کلو تک فروخت کیا جا رہا ہے، پپیتا 100 سے بڑھ کر 150 روپے کلو فروخت کیا گیا۔
سیب بھی مہنگے داموں فروخت کیے جا رہے ہیں، یکم رمضان کو افطار کے وقت اکثر شہریوں کے دسترخوان پھلوں سے محروم رہے، دکانوں پر سرکاری نرخ نامہ (پرائس لسٹ) کی عدم موجودگی کے باعث شہری دکانداروں کے رحم و کرم پر رہے جب کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور دیگر متعلقہ حکام خواب غفلت کی نیند سوتے رہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی نااہلی سے دکاندار شہریوں کو ''لوٹتے'' رہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکیج کے باوجود صورتحال انتہائی خراب ہے اور عوام کے استفسار پر انھیں ایک ہی جواب دیا جاتا رہا کہ اسٹاک ختم ہو گیا ہے اور مزید آٹا آنے والا ہے۔
ذرایع کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز کو فراہم کیے جانے والے آٹے اور چینی کے بازاروں میں فروخت کی شکایات ہیں۔ کراچی میں واقع ایک یوٹیلیٹی اسٹور میں شہریوں کی بڑی تعداد روزے کے باوجود صبح سے ہی سستی چینی اور آٹے کے حصول کے لیے قطار لگائے انتظار میں کھڑے رہے اور جب ان کی باری آئی تو بتایا گیا کہ چینی اور آٹا ختم ہو گیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اسٹورز پر آٹا اور چینی نہیں مل رہی ہے۔
اس مرتبہ رمضان المبارک جن حالات میں آئے ہیں اس سے قبل ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں ایک زبردست بحران اور ہیجان برپا کر رکھا ہے اس جان لیوا بلائے ناگہانی سے بچاؤ کے لیے ایسے اپائے کرنے پڑ رہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بچاؤ کی ان تدابیر کو ایس او پیز کہا جاتا ہے۔ ان تدبیروں میں گروہ کی
صورت میں یکجائی سے پرہیز کرنے اور ایک دوسرے کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت بھی شامل ہے جب کہ ہماری عبادات میں اجتماعیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے مگر چونکہ ہمارا دین دینِ فطرت ہے اس لیے اس میں حالات کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔
اس مرتبہ کا رمضان المبارک ہمیں یہ زبردست موقعہ فراہم کرتا ہے کہ ہم بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہو کر یہ دعا کریں کہ باری تعالیٰ کورونا کی ہلاکت خیز عالم گیر وبا سے پوری انسانیت کو نجات دلائے تاکہ ہر وقت سروں پہ لٹکی ہوئی شمشیر برہنہ سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی رمضان المبارک کے مہینے میں ہی معرض وجود میں آیا تھا لہٰذا حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی عبادات میں اپنے وطن کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کریں اور ایسی سرگرمیوں سے گریز کریں جن سے قومی اتحاد اور ملک کی سلامتی پر آنچ آتی ہو۔ اس کے علاوہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے روز مرہ کے کاموں میں ایمانداری اور دیانت داری کو فروغ دیں اور ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، بے ایمانی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات سے بھی گریز کریں۔
اللہ تعالیٰ زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کی صورت میں اپنے نادار بندوں کے لیے امداد کا بندوبست کرتا ہے، بے شک رب کریم مسبب الاسباب ہے۔ وہ پہاڑوں کی چٹانوں میں رہنے والے کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ ماہ رمضان بخشش اور مغفرت کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ اعمال صالح کی بہار کا موسم ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی روزمرہ زندگی کے معمولات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ عبادات کی کثرت کے نتیجے میں ذہن اور قلب کی کثافت بھی دور ہو جاتی ہے اور انسان پاکیزگی سے فیضیاب ہوتا ہے۔
رمضان المبارک نیکیاں کمانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے لیکن افسوس صد افسوس ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے عادی تاجر اور گراں فروش اس مقدس مہینے کی آمد سے قبل ہی اپنی چھریاں تیز کرنی شروع کردیتے ہیں اور اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ کرکے ثواب کے بجائے عذاب کمانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، اگرچہ انھیں اس حقیقت کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ ان کا یہ عمل ثواب کمانے کے بجائے عذاب کمانے کا باعث ہوگا لیکن دولت کی ہوس انھیں اندھا کردیتی ہے وہ اس بات کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے اور ہمارے اعمال کے سوا کوئی بھی چیز سفر آخرت میں ہمارے ساتھ نہیں جاسکتی۔ سوال یہ ہے کہ بقول شاعر:
دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی
یہاں کی دولت یہاں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ خوف خدا سے عاری ہو چکے ہیں اور وہ اس سرائے فانی کو حیات جاودانی سمجھنے لگے ہیں۔ وہ اس احساس سے محروم ہوچکے ہیں کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور انھیں اپنے کیے دھرے کا حساب دینا ہوگا۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں یہود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
حقیقت یہ ہے کہ اس قبیل کے لوگ اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں، انھی کی وجہ سے اسلام ناحق بدنام ہے۔ رمضان المبارک کے آتے ہی مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔ ہر چیز کے دام بے تحاشہ بڑھ جاتے ہیں اور اشیائے خور و نوش کو تو جیسے پَر لگ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کی قوت خرید کمزور پڑ جاتی ہے اور اس کا دسترخوان سکڑ جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح انتظامیہ کی طرف سے گراں فروشی کو کنٹرول کرنے کے لیے وہی ناٹک رچایا گیا۔ دو چار جگہ چھاپے مارے گئے اور کچھ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی لیکن گراں فروشوں کو چھٹی ہی ملی۔ حالت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی 80 روپے درجن میں فروخت ہونے والا کیلا 150 سے 160روپے درجن تک پہنچ گیا، رمضان سے قبل 100روپے میں ڈھائی کلو فروخت ہونے والا خربوزہ 80سے 100 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے، تربوز 60روپے کلو، گرما 120 روپے کلو، چیکو 120سے 150 روپے کلو تک فروخت کیا جا رہا ہے، پپیتا 100 سے بڑھ کر 150 روپے کلو فروخت کیا گیا۔
سیب بھی مہنگے داموں فروخت کیے جا رہے ہیں، یکم رمضان کو افطار کے وقت اکثر شہریوں کے دسترخوان پھلوں سے محروم رہے، دکانوں پر سرکاری نرخ نامہ (پرائس لسٹ) کی عدم موجودگی کے باعث شہری دکانداروں کے رحم و کرم پر رہے جب کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور دیگر متعلقہ حکام خواب غفلت کی نیند سوتے رہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی نااہلی سے دکاندار شہریوں کو ''لوٹتے'' رہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکیج کے باوجود صورتحال انتہائی خراب ہے اور عوام کے استفسار پر انھیں ایک ہی جواب دیا جاتا رہا کہ اسٹاک ختم ہو گیا ہے اور مزید آٹا آنے والا ہے۔
ذرایع کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز کو فراہم کیے جانے والے آٹے اور چینی کے بازاروں میں فروخت کی شکایات ہیں۔ کراچی میں واقع ایک یوٹیلیٹی اسٹور میں شہریوں کی بڑی تعداد روزے کے باوجود صبح سے ہی سستی چینی اور آٹے کے حصول کے لیے قطار لگائے انتظار میں کھڑے رہے اور جب ان کی باری آئی تو بتایا گیا کہ چینی اور آٹا ختم ہو گیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اسٹورز پر آٹا اور چینی نہیں مل رہی ہے۔
اس مرتبہ رمضان المبارک جن حالات میں آئے ہیں اس سے قبل ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں ایک زبردست بحران اور ہیجان برپا کر رکھا ہے اس جان لیوا بلائے ناگہانی سے بچاؤ کے لیے ایسے اپائے کرنے پڑ رہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بچاؤ کی ان تدابیر کو ایس او پیز کہا جاتا ہے۔ ان تدبیروں میں گروہ کی
صورت میں یکجائی سے پرہیز کرنے اور ایک دوسرے کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت بھی شامل ہے جب کہ ہماری عبادات میں اجتماعیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے مگر چونکہ ہمارا دین دینِ فطرت ہے اس لیے اس میں حالات کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔
اس مرتبہ کا رمضان المبارک ہمیں یہ زبردست موقعہ فراہم کرتا ہے کہ ہم بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہو کر یہ دعا کریں کہ باری تعالیٰ کورونا کی ہلاکت خیز عالم گیر وبا سے پوری انسانیت کو نجات دلائے تاکہ ہر وقت سروں پہ لٹکی ہوئی شمشیر برہنہ سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی رمضان المبارک کے مہینے میں ہی معرض وجود میں آیا تھا لہٰذا حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی عبادات میں اپنے وطن کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کریں اور ایسی سرگرمیوں سے گریز کریں جن سے قومی اتحاد اور ملک کی سلامتی پر آنچ آتی ہو۔ اس کے علاوہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے روز مرہ کے کاموں میں ایمانداری اور دیانت داری کو فروغ دیں اور ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، بے ایمانی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات سے بھی گریز کریں۔