توقعات اور امیدیں
اگر حکومت اپنی کارکردگی کو بڑھانا چاہتی ہے تو میڈیا سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، اُن کے مسائل کو سننا ہوگا۔
حکومت پاکستان نے ایک بار پھر وفاقی کابینہ میں ردوبدل کرکے سابقہ حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، 2018 میں جب موجودہ حکومت آئی تو وزیراعظم عمران خان نے 20رکنی کابینہ کا اعلان کیا، جس کے بعد پارٹی کے اندر اور اتحادی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے اگلے تین ماہ میں خان صاحب کو کابینہ میں 4بار توسیع کرنا پڑی اکتوبر 2018 تک وفاقی کابینہ کی تعداد 34ہوگئی۔
ان میں 24وفاقی وزراء ، 6وزیر مملکت اور 4مشیر شامل تھے جب کہ 4مشیر خاص ان کے علاوہ تھے۔وقت گزرتا گیا، بہت سی تبدیلیاں ہوئیں،کئی نئے چہرے بھی سامنے آئے، حتیٰ کہ اب ڈھائی پونے تین سال بعد وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد51سے زائد ہوگئی ہے، جن میں 20 غیر منتخب شخصیات بھی شامل ہیں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر وزارتوں میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔
جن میںوزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے محکموں کا آپس میں تبادلہ ہے۔ الغرض اب ہمیں کابینہ میں ردوبدل اور وسعت کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ جن مہینوں میں کابینہ میں ردو بدل نہ ہو، زندگی پھیکی پھیکی سی لگنے لگتی ہے، مزاج بدلا بدلا سا لگنے لگتا ہے، میڈیا روکھا روکھا سا لگنے لگتا ہے، خان صاحب سمیت تمام ٹیم چڑچڑی سی ہو جاتی ہے، عوامی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں، بڑے ایوان اپنی اہمیت کھونے لگتے ہیں، تجزیہ کاروں کے پاس تبصرہ کرنے کے لیے کچھ بچتا نہیں ہے بلکہ اور تو اور فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی بے زار ہونے لگتی ہیں!
خیر آج کا ہمارا عنوان ''کُل کابینہ'' کو زیر بحث لانا نہیں بلکہ اُس میں سے صرف اپنے ''مطلب'' کی وزارت یعنی وزارت اطلاعات کو ڈسکس کرنا ہے، جس سے پورا میڈیا جڑا ہے، جو عوام اور حکومت کے درمیان برج کا کام کرتا ہے، جو حکومت کے اچھے کاموں کو عوام کے سامنے لاتا ہے اور حکومت کی غلطیوں کو درست کرنے کی تراکیب بتاتا ہے۔ اس وزارت کا قلمدان موجودہ حکومت میں سب سے پہلے فواد چوہدری کو دیا گیا۔ پھر اُن سے 18اپریل 2019 کو یہ وزارت لے لی گئی اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی تھما دی گئی۔ لیکن انھوں نے ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ اس وزارت میں بھی اپنی ذمے داریاں پوری کیں۔ لیکن اب انھیں پورے دو سال بعد وزارت اطلاعات واپس کر دی گئی ہے، اس کی وجہ شاید حکومت کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اس اہم ترین وزارت کے صحیح حقدار فواد چوہدری ہی ہیں۔
فواد چوہدری صاحب کا اولین ٹارگٹ یقینا عمران حکومت کی بابت افراتفری کے اس تاثر کو شدت سے رد کرنا ہوگا جو جہانگیر ترین کی ''بغاوت'' نے اچھالا ہے۔ جہانگیر ترین کی ذات کو بھلاکر توجہ اس حقیقت پر مبذول رکھی جائے کہ عمران حکومت نے ''چینی مافیا'' کا قلع قمع کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔اس ضمن میں احتساب بلاتفریق حرکت میں آچکا ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں فواد چوہدری ناصرف اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سچ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں اگر 50فیصد اچھے کام ہورہے ہیں تو انھیں پروجیکشن نہیں مل رہی ۔ جیسے ڈالر 168سے نیچے 152روپے تک آگیا، مگر کہیں پذیرائی نہیں۔ پھر حکومت نے آسان قرضوں کا اعلان کیا، کوئی پذیرائی نہیں۔ پھر روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ کا آغاز کیا، کہیں کوئی پذیرائی نہیں۔ پھر سستا گھرفراہم کرنے کی اسکیم کا آغاز کیا مگر فلاپ، پھر ڈیم اور دیگر بڑے پراجیکٹ بھی زیر تعمیر ہیں لیکن کہیں کوئی پروجیکشن نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ حکومت کے آتے ساتھ ہی میڈیا مالی مشکلات کا شکار ہو گیا حالانکہ اس اہم ستون کو بتدریج ٹھیک کیا جاتا تو میرے خیال میں زیادہ بہتر تھا۔
لہٰذا اگر حکومت اپنی کارکردگی کو بڑھانا چاہتی ہے تو میڈیا سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، اُن کے مسائل کو سننا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس فیلڈ کے ساتھ لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، انھیں بحران سے دوچار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ فواد چوہدری صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ حکومت اور میڈیا کے درمیان پل کا کر دار ادا کریں گے۔ اس لیے انھیں اب کچھ کرنا ہو گا۔