کھاؤ، پیو اور سوجاؤ؛ کام کا سوال نہ کرو

محمد کامران کھاکھی  بدھ 21 اپريل 2021
حکومت کا وژن ہے کہ عوام چپ چاپ لنگر کھائیں اور مسافر خانے میں سوجائیں۔ (فوٹو: فائل)

حکومت کا وژن ہے کہ عوام چپ چاپ لنگر کھائیں اور مسافر خانے میں سوجائیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک انصاری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مانگنے کےلیے آیا۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟‘‘ بولا: ’’ایک کمبل ہے جس میں سے کچھ ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ دونوں میرے پاس لے آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ انہیں آپؐ کے پاس لے آیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ’’یہ دونوں کون خریدے گا؟‘‘ ایک آدمی بولا: ’’انہیں میں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟‘‘ تو ایک شخص بولا: ’’میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دے دیے اور فرمایا: ’’ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ۔‘‘ وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: ’’جاؤ لکڑیا ں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں۔ چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا۔ پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا۔ اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو‘‘۔ مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کےلیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کرسکتا ہو اور اس کےلیے سوال کرے۔ (ابوداؤد: 1641)

چونکہ پاکستان پر اس وقت گھبرا دینے والے قرضے کا بوجھ ہے اور گھبرانا بھی منع ہے۔ اس لیے اس بوجھ کو ہلکا کرنے کے بجائے ہم اور قرض لیں گے اور پاکستانی عوام کی خودمختاری کو بھی ریاست کے ہاتھوں گروی رکھ کر ریاست کو عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کا محتاج کریں گے۔ مگر اپنے عوام کو بھوک سے نہیں مرنے دیں گے۔ کاروبار و روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہو نہیں سکتا، اسی لیے ہم اپنے اداروں اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو گروی رکھ کر اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کریں گے اور ان اداروں اور ذخائر کو سنبھالنے کے جھنجھٹ سے آزادی بھی حاصل کرلیں گے۔ ان دو لائنوں پر اس وقت ہماری حکومت گامزن ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ پروگرام میں وسعت دینے کی تقریب میں شرکت کی اور ارشاد فرمایا ’’جب ریاست کی طرف سے غریب روٹی کھائیں گے تو پاکستان میں برکت آئے گی‘‘۔

موجودہ تبدیلی حکومت کے تین سال میں جو اعلیٰ پائے کے کارنامے ہیں، ان میں ’’احساس پروگرام‘‘، ’’مسافر خانہ‘‘ اور ’’لنگر خانہ‘‘ سرفہرست ہیں، جو کہ مکمل طور پر غریب کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے حکومت کے منصوبے ہیں۔ ایسا مزدور طبقہ جو اپنی روزی روٹی کے چکر میں کسی بڑے شہر میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی کام ملتا ہے اور نہ ہی رہنے کو جگہ تو ان کےلیے مسافر خانہ رہنے کےلیے اور لنگر خانہ کھانے کے لیے حکومت کی طرف سے مل جائے تو اس سے بڑی نعمت کیا ہوسکتی ہے۔ اسی لنگر خانہ کو وسعت دے کر ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا، جس میں کچن ٹرک متعارف کرائے گئے، جو کئی جگہ پر لوگوں کو مفت کھانا مہیا کریں گے۔

مگر کوئی نوکری یا کام کے بارے میں سوال نہ کرے اس کےلیے حکومت کے پاس نہ ہی کوئی پیسہ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ۔ اس لیے چپ چاپ لنگر کھاؤ اور مسافر خانے میں سوجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو کہ پیدا ہونے کا مقصد ہی عبادت خدا ہے۔ اور یہ پاکستان کی واحد حکومت ہے جو آپ کو پورا پورا موقع دے رہی ہے اپنے رب سے ناتا جوڑنے کا، آپ کے کھانے اور رہنے کی ضروریات کو پورا کرکے۔

رکن صوبائی اسمبلی معاویہ اعظم طارق کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ ان پروگرامز کو اگر شروع ہی کرنا تھا تو مساجد سے کرتے۔ کتنی مساجد و مدرسوں میں غریب طلبا دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ ان اللہ کے مہمانوں کےلیے بھی بندوبست ہوجاتا اور خلق خدا کو بھی کھانا مل جاتا اور اس کے ساتھ مسجد میں جانے کا شوق بھی پروان چڑھتا، جن سے مسجدیں بھی آباد ہوجاتیں اور ان بے آسرا لوگوں کو کچھ اصلاحی باتوں کی تعلیم بھی دی جاتی۔ جیسے کہ حکومت مساجد کی رجسٹریشن کرکے ان کے بارے میں معلومات تک رسائی کی خواہشمند بھی ہے تو یہ مقصد بھی بلا کسی حیل و حجت کے پورا ہوجاتا۔

اختلاف رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے مگر میرے خیال میں بھی مساجد سے بہتر ان تینوں منصوبوں کےلیے کوئی اور جگہ مناسب نہیں تھی، جہاں ان لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاتا کہ بس یہی زندگی نہیں کہ کھاؤ، پیو اور سو جاؤ، بلکہ کلہاڑی سے لکڑیاں بھی کاٹنی پڑیں گی، انہیں بیچنا بھی پڑے گا، اپنے اور اپنے خاندان کےلیے رزق حلال بھی کمانا پڑے گا۔ اس طرح برکت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت بھی برسے گی پاکستان پر، اور ایک اچھے معاشرے کی شروعات بھی ہوجائے گی۔ ملکی آمدنی میں اضافہ بھی ہوگا اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔