مہنگائی کی وجوہات کا خاتمہ ضروری

ایڈیٹوریل  بدھ 21 اپريل 2021
ہم سب جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے جانیں تو بچ جاتی ہیں لیکن ملکی معیشت اور کاروبارٹھپ ہوجاتے ہیں بیروزگاری بڑھتی ہے۔ فوٹو؛ فائل

ہم سب جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے جانیں تو بچ جاتی ہیں لیکن ملکی معیشت اور کاروبارٹھپ ہوجاتے ہیں بیروزگاری بڑھتی ہے۔ فوٹو؛ فائل

نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعدگفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عوام کو ریلیف دینے کے لیے مہنگائی کی وجوہ ختم کرنا ہونگی، آیندہ بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے۔

معیشت کی بہتری کے لیے بہت سے منصوبے ہیں‘‘ شوکت ترین اس سے قبل بھی وفاقی وزیرخزانہ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے یقیناً وہ اس پر پورا تریں گے اورملکی معیشت کو جو چیلنجزدرپیش ہیں ، ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دیں گے۔موجودہ حکومت جون میں اپنا تیسرا قومی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے تاہم عوام میں مہنگائی کے حوالے سے بہت زیادہ پریشانی پائی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق اس سال مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد تک رہے گی جب کہ بے روزگاری میں بھی 1.5 فیصد اضافہ متوقع ہے، جب کہ حکومت نے شرح نمو 2.1 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

اس وقت ملک کا سب سے اہم ترین مسئلہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح ہے ، مہنگائی کا جن بے قابو ہونے کے باعث جہاں حکومت مخالف رائے مزید ہموار ہو رہی ہے وہی مصنوعی مہنگائی اور گراں فروشی کے باعث متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میںتیزی سے اضافہ حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔ایک طرف ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے تودوسری طرف زندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیا ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

ایسے میں عوام کے درمیان حکومت مخالف رائے ہموار ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔منافع خور مافیا نے اشیاء خورونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیا کو نا جائز طورپر ذخیرہ کرکے مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے جس سے ایک جانب عوام کی قوت خریدشدید متاثرہوئی ہے تودوسری طرف ملک میں آٹے،چینی،گھی،تیل،سبزیاں،گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، غریب عوام کی محدود آمدنی ہے۔

انھیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اورکبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتیںآسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرایع انتہائی محدود ہیں۔

ناجائز ذرایع سے دولت کے حصول کی حرص و ہوس سے گلے تک بھرے کچھ سفاک، لالچی اور منافع خور تاجر دکاندار اور آڑھتی بنیادی ضروریات خورونوش، پھل اور سبزیاں بہت زیادہ مہنگی کر دیتے ہیں جس سے عوام بالخصوص مزدور، دیہاڑی دار اور چھوٹے موٹے ملازمت پیشہ افراد انتہائی بری طرح پستے ہیں اور ان پر اس ناجائز بوجھ ڈالے جانے کی کہیں اور کسی فورم پر کوئی مناسب تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیا بازار میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور ان کی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے تو پھر کیوں ان اشیاء خورونوش کو انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے ،ان اشیاء کی قیمتیں فوراً کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، ہماری مقامی پیداوار ہے، پھر اچانک ہر روز ان کو پر کیوں لگ جاتے ہیں؟ سرکاری اہل کار چند ایک دکانداروں کو جرمانے کر کے بری الذمے ہو جاتے ہیں۔ دکاندار وہ جرمانہ گاہکوں سے وصول کر لیتے ہیں سرکاری اہل کار جرمانے کر کے دیہاڑیاں نہ لگائیں بلکہ ان منافع خوروں کا محاسبہ کریں ۔

حکومتی ذمے داروں کو عوام کے لیے ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ عوام پر ظلم یہ ہے کہ ہر ریڑھی والے، دکاندار، فروٹ فروش، تجاوزات کرنے والے کو سرکاری اہل کار 30 روپے کی لسٹ فروخت کرتا ہے، اندازہ لگائیں صرف لاہور میں روزانہ کتنی لسٹیں فروخت ہوتی ہوں گی اور ان لسٹوں کی آمدنی کس کی جیب میں جاتی ہے؟ مگر کسی بھی جگہ پر اس لسٹ کے مطابق کوئی چیز نہیں ملتی ۔جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سستی کرتی ہے تو ان کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے جب پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو ہر چیز کو مہنگائی کے پر لگ جاتے ہیں دکاندار پٹرول مہنگا ہونے کی دہائی دینا شروع کر دیتا ہے اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔رکشا ٹیکسی کے کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں۔

حکومتی دعوؤں کے برعکس رمضان کے دوران بازاروں میں اشیا  کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے ،ڈیپارٹمینٹل اسٹورز مالکان کا موقف ہے کہ انھیں صارفین کو فروخت کرنے کے لیے چینی نہیں مل رہی کیونکہ یہ کسی بھی بڑی ہول سیل مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

دوسری جانب یوٹیلیٹی اسٹورز نے بھی چینی دینے کی ایک منفرد شرط رکھی ہے جس کے لیے دو کلوگرام چینی کے لیے صارفین کے لیے 1500 روپے کی خریداری کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے گو حکومت شوگر ملز اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، لیکن اس کے مثبت نتائج تاحال سامنے نہیں آئے ہیں۔ رمضان بازاروں میں صارفین کو محض دوکلو گرام چینی حاصل کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، اس طرح کی طویل قطاریں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

پاکستان بیورو برائے شماریات (بی پی ایس) کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان کی برآمدات کا مجموعی حجم 18 ارب 68 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔چند روز پیشتر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی مہنگائی کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 11.4فیصد بتائی گئی ہے۔

اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ مہنگائی کے باعث عوام میںغم و غصہ بڑھ رہا ہے۔بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کو ملک کو درپیش چیلنجز کا بخوبی علم ہے اور اکثر وبیشتر اس حوالے سے اظہارخیال بھی کرتے رہتے ہیں ۔اپنی تقاریر میں باربار ملائیشیا، چائنہ،سنگاپور اور دیگر ممالک کے ماڈلزکا ذکر کرتے ہیں ۔چین نے گزشتہ40 سال کے دوران 700 ملین یعنی 70کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا ہے۔

گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ہر سال دس ملین یعنی ایک کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے، اگر وزیراعظم چین کے ماڈل کو اپنانا یا فالو کرنا چاہتے ہیں تو کیا انھوں نے اس حوالے سے کسی تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لانے کے بارے میں سوچا ہے ؟ وزیراعظم عمران خان کی زندگی کا خواب اور مشن ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی غربت کو دور کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے مناسب اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔عوام تو صبر کررہے ہیں لیکن مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تب ہی حقیقی معنوں میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔

دوسری جانب چیئرمین این سی اوسی اسدعمرنے کہا ہے کہ کورونا کی شدت میں اضافہ ہوگیا، اسپتالوں پرمریضوں کادباؤبڑھ گیاہے،ایس اوپیزپرعمل نہ کرنابڑی غلطی ہے،متاثرین کی تعدادپہلی دونوں لہروں سے بڑھ گئی ہے،اس وقت ساڑھے 4ہزارمریض انتہائی نگہداشت میں ہیں،ہمیں پہلے سے زیادہ سخت اقدامات کرنا ہونگے۔وفاقی وزیر صورتحال کے انتہائی سنگین ہونے کی جانب واضح نشاندہی کررہے ہیں ،پوری دنیا اس وقت بری طرح موذی اور متعدی مرض کورونا کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔

ہر طرف خوف اور آہ و بکا کا عالم ہے حکومتیں اس وبا کی شدت کم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہیں۔ حکومت پاکستان بھی اپنے طور پر ہرممکن اقدامات اٹھا رہی ہے، ہمیں تیسری لہر کی شدت کا سامنا ہے ، کورونا ویکسی نیشن کے عمل کا آغاز بھی ہوچکا ہے ، لیکن دراصل لاپرواہی اور بے احتیاطی نے ہمارے مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ، شرح اموات بھی مسلسل بڑھ رہی ہے ، خیبر پختونخوا پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ناصردرانی کورونا وائرس سے جاں بحق ہوگئے ہیں۔

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے نئے ایس او پیز کے مطابق کورونا وبا میں شدت کے باعث بھارت پر سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے بھارت کو کیٹیگری سی میں شامل کر دیا گیا ہے، کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث سندھ حکومت نے حلقہ این اے249کراچی میں 29اپریل کو ہونے والا ضمنی انتخاب ملتوی کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔

خط کے متن میں کہا گیا کہ حیدرآباد اور کراچی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح 3 سے بڑھ کر 7اعشاریہ 8فیصد ہوگئی ہے، اس صورتحال میں اجتماعات، کارنر میٹنگز اور جلوس خطرناک ہوں گے۔یہ تمام خبریں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ، لیکن عوام مسلسل کورونا ایس او پیز کو نظر انداز کررہے ہیں۔

صورتحال اگر ایسی ہی رہی تو حکومت کو گزشتہ برس کی طرح کئی ماہ تک سخت ترین لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا ، کیونکہ اس کے سوا انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے جانیں تو بچ جاتی ہیں لیکن ملکی معیشت اور کاروبارٹھپ ہوجاتے ہیں بیروزگاری بڑھتی ہے ، غربت اور افلاس میں اضافہ ہوتا ہے ، حقیقت میں ان سب مسائل کا سامنا پاکستانی عوام کرچکے ہیں لیکن موجودہ دنوں میں غفلت اور لاپرواہی کا بدترین مظاہرہ کررہے ہیں، عید کی شاپنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ، یہ طرز عمل اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے والی بات ہے ، زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ، اس کی قدر کیجیے ، آئیں، ایس اوپیز پر عمل کرکے ہم ذمے دار قوم  ہونے کا ثبوت دیں، اسی میں ہماری بقا اور سلامتی کا راز مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔