سرمایہ داری کے پینترے

سرمایہ داری چونکہ انحطاط پذیری کی شکار ہے اور عوام بھوک، افلاس اور غربت کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔


Zuber Rehman April 21, 2021
[email protected]

عالمی سرمایہ داری اپنے ہی جال میں پھنستی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے اتھل پتھل ہوئے بغیر اپنی حیات کو طول نہیں دے سکتی ہے۔ امریکا اور چین کے مابین تجارتی شعبوں میں شدید اختلافات کے باوجود ماحولیات پر ملکرکام کرنے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔

عرب امارات نے یہ اعلان کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین امن مذاکرات ہم نے کروائے۔ پاک انڈیا تعلقات کبھی بگڑتے ہیں تو کبھی امن کے لیے کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ درحقیقت عالمی سرمایہ داری چونکہ منافع خوری پر مبنی نظام ہے اور یہاں صرف عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کی آزادی ہے۔

پاکستان کا 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ آئی ایم ایف نے صرف اس لیے روک رکھا تھا کہ پاکستان بجلی کے نرخوں میں اضافے پر رضامند نہیں تھا۔ اب جب رضامند ہو گیا ہے تو قرضہ جاری کرنے کا اعلان ہوا ہے ، اس میں جی ایس ٹی کا اضافہ ہے اور کم سے کم بجلی کے استعمال کرنے والوں کو جو چھوٹ دی گئی تھی اسے ختم کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے تقاضے پر بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ ہے۔

1948 میں 4 روپے کا ایک ڈالر تھا اور اب ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ ہے۔ یہ تب ہی ہوا جب ہم نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے شروع کردیے۔ جتنی حکومتیں آتی رہیں وہ ہر دور میں اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہی کرتی رہیں۔

ہمارے سیاسی رہنما، نوکر شاہی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ نتیجتاً ایک جانب ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب غربت، بھوک، افلاس اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

ہر ایک ملک کی سلامتی، نظریاتی سرحدیں، خداداد مملکت اور اسلام کی سربلندی کے نعرے دے کر ووٹ لیتا رہا، مگر کسی نے بھی دال، چاول، آٹا، تیل، گھی، دودھ، گوشت، انڈا، ٹرانسپورٹ یا توانائی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی۔ چونکہ معاشی صورتحال پر ہی سیاسی اور سماجی حالات کا انحصار ہوتا ہے اس لیے ہمارے سیاست دان معاشی حالات پر کم اور سیاسی نعرے بازی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے درجنوں وزارتیں آئے روز تبدیل کی جا رہی ہیں۔

مگر کسی شعبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حکومت انڈے مرغی کے بعد کئی آرام گاہیں، قرضے، رقم کے عوض چند مکانات بنوانے آئی ایم ایف کے حکم پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کرنے کے سوا اور کوئی عوام دوست کام کیا ہی نہیں۔ امیری اور غریبی کی طبقاتی خلیج کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن اسے مٹانے کے لیے قرضے لینے اور کمیشن بانٹنے اور فنڈز کو لیپس کروانے کے سوا اور کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

جاگیرداری ختم کرکے کسانوں میں زمین تقسیم کی جاتی ہے اور نہ کارخانے لگا کر بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کی بھی یہی صورتحال ہے۔ نان ایشوز پر تو ہڑتال کروائی جاتی ہیں لیکن مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک دن بھی ہڑتال نہیں ہوتی۔ کرپشن کے خلاف الزام لگائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں سچائی بھی ہو لیکن ایک بار کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے تو چند دنوں تک اس پر پروپیگنڈا کرکے پھر اسے کافور بنا دیا جاتا ہے۔

دہشت گرد دھڑوں میں کچھ انڈیا، کچھ افغانستان، ایران اور چین میں دراندازی کرتے ہیں، دہشت گردی اور دھماکے بھی کرتے ہیں جسے حکومتوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح سے پارٹیوں کے پارلیمانی اراکین دھڑا دھڑ وفاداریاں بدلتے نظر آتے ہیں۔ پی پی پی حکومت کے خلاف ہے۔ جب کہ صدر، وزیر اعظم بنانے میں مددگار بنتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) بھی حکومت کے خلاف ہے، سینیٹ کے انتخابات میں 16 اراکین مخالفین کو ووٹ دے کر کامیاب کرواتی ہے جب جہانگیر ترین پر چینی کرپشن کا مقدمہ چلتا ہے تو جہانگیر ترین حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے 40 اسمبلی اراکین کے ساتھ اجلاس کرکے حکومت کو خبردار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے 52 اسمبلی ارکان جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں ۔

آٹے کا بحران اپنی جگہ جوں کا توں ہے۔ جن لوگوں نے گندم کی برآمد کی اور اسمگلنگ کی تھی ابھی تک وہ آزاد پھر رہے ہیں۔ گائے کا گوشت برسوں سے ہڈی والا5 سو روپے کلو جب کہ بغیر ہڈی والا 700 روپے کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ دوسری جانب مرغی کا گوشت 150 روپے کلو سے بڑھ کر 500 روپے کلو اور انڈے 80 روپے درجن سے بڑھ کر 250 روپے درجن کیونکر ہو جاتے ہیں؟ اس لیے کہ اس کاروبار میں بڑی سیاسی جماعت کے کارندوں کی اجارہ داری ہے۔

یہی حال دودھ کا بھی ہے۔ دودھ کی انسپکشن کرنے کے لیے ادارہ موجود ہے۔ جنھیں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ مگر وہ دودھ کی انسپکشن کرنے کے بجائے رشوت لینے میں مشغول ہوتے ہیں اور عوام آدھا دودھ اور آدھا پانی 130 روپے کا خریدنے پر مجبور ہیں۔

سرمایہ داری چونکہ انحطاط پذیری کی شکار ہے اور عوام بھوک، افلاس اور غربت کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔ یورپ کی شرح نمو 2 فیصد، امریکا کی 3 فیصد، چین کی 4.2 فیصد جب کہ جاپان کی شرح نمو منفی میں جا رہی ہے۔ اس لیے وہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج بھی جرمنی، فرانس، امریکا، اسرائیل، تھائی لینڈ، تیونس، لبنان اور بھارت میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ انتہائی نچلے درجے کی انحطاط پذیری کا شکار ہے اس لیے ہر شعبے میں تنزلی کا بھی شکار ہے۔ یہ صورتحال دنیا بھر میں اور پاکستان میں قطعی نہیں بدلنے والی ہے۔ یہ انحطاط پذیری اور معاشی بدحالی اس نظام میں رہتے ہوئے درست کرنا ناممکن ہے۔

اس لیے یہاں ایک ایسا امداد باہمی کا آزاد سماج قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں حکومت، اقتدار، ریاست، اسمبلی، پہریدار، ملکیت اور جائیداد کا خاتمہ کرکے خود انحصار اور خودمختار عوامی راج قائم کرنا ہے۔ جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ یہ نظام اجتماعی ملکیت کو کمیون کی شکل میں عملی جامع پہنایا جاسکتا ہے۔ جیساکہ فرانس، اٹلی، میکسیکو سمیت دنیا میں ہزاروں خودمختار کمیون سوسائٹیاں قائم ہیں، وہاں کوئی فوج ہے اور نہ ویزا پاسپورٹ، 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔ کوئی ارب پتی ہے اور نہ کوئی گداگر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں