یہ آزادیٔ اظہار ہمیں منظور نہیں
عمران خان نے درست کہا ہے کہ اسلامی دنیا کے پچاس ممالک اگرمغرب کا تجارتی بائیکاٹ کر دیں تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
ہم سب پاکستانی ملک کے حالات کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہم پر یہ زوال اور ادبارکیوں ہے۔
ہر کسی کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور موجود ہے ہر ایک کا اپنااپنا تجزیہ ہے اور ہم سب کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ میرے پاس اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے خدا اور رسول پاکﷺ کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا کہ ہم نے یہ ملک آپ کے لیے حاصل کیا ہے اور حتیٰ الوسع کوشش کریں گے آپ کے راستے پر چلیں اور اس ملک کو وہ ملک بنائیں جس کی طرف سے آقائے دو جہاں کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی مگر افسوس کہ ہم اپنے اس وعدے پر عمل درآمد سے قاصر رہے ۔
ایوب خان کے زمانے میں ہم نے اعلان کیا تھاکہ ہم سیکولر ہیں اور بعد میں آنے والی حکومتیں بھی ان تمام اقدامات کو سپورٹ کرتی رہیں جو سیکولر ہونے کی نشانی تھے ۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایسے ملکوں کی تعداد کم نہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن ان میں اور ہمارے درمیان یہ فرق ہے کہ یہ وعدہ صرف ہم نے کیا تھا کہ ہم سیکولر نہیں مسلمان ہیں لیکن اس وعدے کی خلاف ورزی کی ، اس وعدے کے ساتھ بے وفائی کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ کسی امریکا ، روس یا کسی مغرب کے ملک نے خدا اور رسولﷺ سے کوئی ایسا وعدہ ہی نہیں کیا تھاکہ وہ ان پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔
وہ جس کی برکت سے کوئی مسلمان زندگی بسر کرتا ہے اور جس رحمت اللعالمینﷺ کے سہارے کوئی مسلمان اپنی عاقبت میں نجات کی توقع کرتا ہے۔ جس عظیم ہستی کے برابر انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا انسان پیدا نہیں ہوا اور جس کے نام سے ہماری عزت ہے پہچان ہے اور کوئی وقعت ہے۔ ہماری اپنی بداعمالیوں کی وجوہات ہیں کہ مغرب کی طاقتور قومیں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ ان کے اندر ایک خوف اور ڈر ہے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں سے پھر مہ کامل نہ بن جائے۔
ماضی میں دنیا کی کوئی سپر پاور چند برسوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی لیکن مسلمانوں کی سپر پاور چودہ سو برس بعد ختم ہوئی اور یہ سب بھی بظاہر اپنوں کے ہاتھوں ہوا اور ہم نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں استنبول میں مسلمان سپر پاور کا سورج غروب ہوتے دیکھا ۔ کوئی بھی مسلمان سرکار دوجہاںﷺ کے بارے میں اپنے ذاتی الفاظ تاثرات کماحقہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا۔
میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کودر محمدﷺ پر حاضری کی بار بار سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔پہلی مرتبہ آج سے کوئی ستائیس برس قبل اپنے مرحوم والد کی معیت میں مدینہ شریف حاضری دی، ایک نوجوان جس کی ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں درنبیﷺ پر حاضر تھا، درود پاک پیش کرنے کے بعد یہی سمجھ میں آیا کہ بار بار حاضری کی درخواست کی جائے اور میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میری یہ درخواست قبول ہو گئی اوراللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے گھر کی پہلی حاضری کے بعد ایسے اسباب پیداکر دیے کہ اب میرے لیے مکہ مکرمہ کی حاضری اور مدینہ شریف کی زیارت میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
میرے جیسا گنہگار مسلمان تو ہرلمحے حضورﷺ کی یاد میں گم رہتا ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی بسر کرتا ہے وہ جو آپﷺ کا فرمان ہے کہ جو کوئی میرے پاس آتا ہے میں اسے دیکھتا ہوں تو خدا جانے مجھ گنہگار کو حضور پاکﷺ نے کس حال میں دیکھا کہ میری بار بارحاضری کی درخواست منظور ہو گئی۔ اوراب سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو بھی مدینہ شریف لے جا کر حضورکے سپرد کر آؤں۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم اپنے بنائے گئے راستے سے ہی بھٹک گئے ورنہ کون سی نعمت ہے جو پاکستان میں نہیں ہے، شہید حکیم سعید کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں اسے کچھ زیادہ ہی ہیں لیکن ہم نے ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا بلکہ ان نعمتوں کو اپنے دور سے کر دیا ہے۔ ملک میں اس وقت افراتفری کی جو کیفیت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فریقین شایدایک دوسرے کو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہے حالانکہ دونوں کا مقصد اور نقطہ نگاہ ایک نظر آتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے اپنے خطاب میں ناموس رسالتﷺ پر اپنے موقف کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے اور اہل مغرب کو آزادیٔ اظہار کی آڑ میں مذہبی منافرت پھیلانے سے باز رہنا چاہیے اور وہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی پر معافی مانگیں۔
وزیر اعظم نے اس مہم کی قیادت اور ذمے داری لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اہل مغرب کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں آج اگر ایک ملک نے گستاخی کی جرات کی ہے تو ماضی میں یورپ کے دوسرے ممالک بھی ایسا کر چکے ہیںاور کل کوئی دوسرا یورپی ملک نام نہاد آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر ایسا کر سکتا ہے۔
عمران خان نے درست کہا ہے کہ اسلامی دنیا کے پچاس ممالک اگر مغرب کا تجارتی بائیکاٹ کر دیں تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔اس موقعے پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا متحد ہو کراہل مغرب پر اپنا نقطہ نظر مدلل اور ٹھوس انداز میں پیش کریں اور تاکہ ان سے آیندہ ایسی حرکتیں سر زد نہ ہوں۔
مسلمان ممالک کو اہل مغرب کو باور کرانا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا معاملہ ہے کوئی بھی مسلمان اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور مغرب توہین رسالت ﷺ پر بھی وہی معیار اپنائے جو ہولو کاسٹ کے خلاف تبصرہ پر اپنایا جاتا ہے۔یہ آزادیٔ اظہار ہمیں قطعی طور پر منظور نہیں ہے۔
ہر کسی کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور موجود ہے ہر ایک کا اپنااپنا تجزیہ ہے اور ہم سب کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ میرے پاس اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے خدا اور رسول پاکﷺ کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا کہ ہم نے یہ ملک آپ کے لیے حاصل کیا ہے اور حتیٰ الوسع کوشش کریں گے آپ کے راستے پر چلیں اور اس ملک کو وہ ملک بنائیں جس کی طرف سے آقائے دو جہاں کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی مگر افسوس کہ ہم اپنے اس وعدے پر عمل درآمد سے قاصر رہے ۔
ایوب خان کے زمانے میں ہم نے اعلان کیا تھاکہ ہم سیکولر ہیں اور بعد میں آنے والی حکومتیں بھی ان تمام اقدامات کو سپورٹ کرتی رہیں جو سیکولر ہونے کی نشانی تھے ۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایسے ملکوں کی تعداد کم نہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن ان میں اور ہمارے درمیان یہ فرق ہے کہ یہ وعدہ صرف ہم نے کیا تھا کہ ہم سیکولر نہیں مسلمان ہیں لیکن اس وعدے کی خلاف ورزی کی ، اس وعدے کے ساتھ بے وفائی کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ کسی امریکا ، روس یا کسی مغرب کے ملک نے خدا اور رسولﷺ سے کوئی ایسا وعدہ ہی نہیں کیا تھاکہ وہ ان پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔
وہ جس کی برکت سے کوئی مسلمان زندگی بسر کرتا ہے اور جس رحمت اللعالمینﷺ کے سہارے کوئی مسلمان اپنی عاقبت میں نجات کی توقع کرتا ہے۔ جس عظیم ہستی کے برابر انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا انسان پیدا نہیں ہوا اور جس کے نام سے ہماری عزت ہے پہچان ہے اور کوئی وقعت ہے۔ ہماری اپنی بداعمالیوں کی وجوہات ہیں کہ مغرب کی طاقتور قومیں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ ان کے اندر ایک خوف اور ڈر ہے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں سے پھر مہ کامل نہ بن جائے۔
ماضی میں دنیا کی کوئی سپر پاور چند برسوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی لیکن مسلمانوں کی سپر پاور چودہ سو برس بعد ختم ہوئی اور یہ سب بھی بظاہر اپنوں کے ہاتھوں ہوا اور ہم نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں استنبول میں مسلمان سپر پاور کا سورج غروب ہوتے دیکھا ۔ کوئی بھی مسلمان سرکار دوجہاںﷺ کے بارے میں اپنے ذاتی الفاظ تاثرات کماحقہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا۔
میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کودر محمدﷺ پر حاضری کی بار بار سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔پہلی مرتبہ آج سے کوئی ستائیس برس قبل اپنے مرحوم والد کی معیت میں مدینہ شریف حاضری دی، ایک نوجوان جس کی ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں درنبیﷺ پر حاضر تھا، درود پاک پیش کرنے کے بعد یہی سمجھ میں آیا کہ بار بار حاضری کی درخواست کی جائے اور میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میری یہ درخواست قبول ہو گئی اوراللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے گھر کی پہلی حاضری کے بعد ایسے اسباب پیداکر دیے کہ اب میرے لیے مکہ مکرمہ کی حاضری اور مدینہ شریف کی زیارت میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
میرے جیسا گنہگار مسلمان تو ہرلمحے حضورﷺ کی یاد میں گم رہتا ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی بسر کرتا ہے وہ جو آپﷺ کا فرمان ہے کہ جو کوئی میرے پاس آتا ہے میں اسے دیکھتا ہوں تو خدا جانے مجھ گنہگار کو حضور پاکﷺ نے کس حال میں دیکھا کہ میری بار بارحاضری کی درخواست منظور ہو گئی۔ اوراب سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو بھی مدینہ شریف لے جا کر حضورکے سپرد کر آؤں۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم اپنے بنائے گئے راستے سے ہی بھٹک گئے ورنہ کون سی نعمت ہے جو پاکستان میں نہیں ہے، شہید حکیم سعید کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں اسے کچھ زیادہ ہی ہیں لیکن ہم نے ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا بلکہ ان نعمتوں کو اپنے دور سے کر دیا ہے۔ ملک میں اس وقت افراتفری کی جو کیفیت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فریقین شایدایک دوسرے کو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہے حالانکہ دونوں کا مقصد اور نقطہ نگاہ ایک نظر آتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے اپنے خطاب میں ناموس رسالتﷺ پر اپنے موقف کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے اور اہل مغرب کو آزادیٔ اظہار کی آڑ میں مذہبی منافرت پھیلانے سے باز رہنا چاہیے اور وہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی پر معافی مانگیں۔
وزیر اعظم نے اس مہم کی قیادت اور ذمے داری لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اہل مغرب کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں آج اگر ایک ملک نے گستاخی کی جرات کی ہے تو ماضی میں یورپ کے دوسرے ممالک بھی ایسا کر چکے ہیںاور کل کوئی دوسرا یورپی ملک نام نہاد آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر ایسا کر سکتا ہے۔
عمران خان نے درست کہا ہے کہ اسلامی دنیا کے پچاس ممالک اگر مغرب کا تجارتی بائیکاٹ کر دیں تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔اس موقعے پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا متحد ہو کراہل مغرب پر اپنا نقطہ نظر مدلل اور ٹھوس انداز میں پیش کریں اور تاکہ ان سے آیندہ ایسی حرکتیں سر زد نہ ہوں۔
مسلمان ممالک کو اہل مغرب کو باور کرانا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا معاملہ ہے کوئی بھی مسلمان اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور مغرب توہین رسالت ﷺ پر بھی وہی معیار اپنائے جو ہولو کاسٹ کے خلاف تبصرہ پر اپنایا جاتا ہے۔یہ آزادیٔ اظہار ہمیں قطعی طور پر منظور نہیں ہے۔