بھارتی فورسز کا ایک بار پھر پاکستانی جاسوس کبوتر پکڑنے کا دعویٰ

ایک پرندے کے خلاف مقدمہ کیسے درج کیا جاسکتا ہے قانونی ماہرین سے رائے مانگی ہے، بھارتی پولیس


آصف محمود April 21, 2021
ایک پرندے کے خلاف مقدمہ کیسے درج کیا جاسکتا ہے قانونی ماہرین سے رائے مانگی ہے، بھارتی پولیس ۔ فوٹو : فائل

بھارتی بارڈرسیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے ایک اورپاکستانی جاسوس کبوترپکڑنے کا دعوی کرتے ہوئے کبوتر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ بھارتی پولیس نے بی ایس ایف کے مطالبے پرکبوترکے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے رائے مانگ لی ہے۔

گزشتہ ہفتے کے روز ایک کبوتر پاکستانی علاقے سے اڑتا ہواسرحدپارکرکے بھارتی علاقے میں چلا گیا تھا جسے بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) نے پکڑلیا۔

بی ایس ایف نے دعویٰ کیا کہ کبوترکی ٹانگ کے ساتھ سفید کاغذ پر ایک خفیہ کوڈ لکھا ہوا ہے جو کہ درحقیقت موبائل نمبرہے، بی ایس ایف نے یہ خفیہ کوڈ، ڈی کوڈنگ کے لئے بھیجا ہے جب کہ کبوترکو مقامی پولیس کے حوالے کرتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارتی پنجاب پولیس حکام کے مطابق ایک پرندے کے خلاف مقدمہ کیسے درج کیا جاسکتا ہے اس بارے قانونی ماہرین سے رائے مانگی گئی ہے جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا مبینہ جاسوس کبوترپولیس کی تحویل میں ہی رہے گا۔



ایکسپریس کوموصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق کبوترکے پاؤں کے ساتھ بندے کاغذ پر لکھا گیا ٹیگ پاکستانی شہری کا موبائل نمبرہے، ایکسپریس نے جب اس موبائل فون نمبررابطہ کیا تووہ بند تھا۔

اس حوالے سے لاہورکے بارڈرایریا سے تعلق رکھنے والے ایک نامورکبوترپرور استاد رانا اصغر کا کہنا تھا کبوترمعصوم جانورہیں وہ سرحدوں کونہیں جانتے، اکثرایسا ہوتا ہے کہ جب ہم قیمتی کبوتراڑاتے ہیں تووہ ہواکے دوش پر سرحد کے اس پارچلے جاتے ہیں، اکثرکبوترواپس آجاتے ہیں لیکن بعض اوقات موسم کی خرابی یا کسی اوروجہ سے چند کبوترادھرہی رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکثرکبوترپروراپنے قیمتی کبوتروں کے پاؤں کے ساتھ چھلے باندھ دیتے ہیں یاموبائل نمبرلکھتے ہیں تاکہ اگروہ کبوترکسی اورکوملے تورابطہ کرکے واپس لے سکیں۔

رانااصغرنے کہا بھارت کی طرف سے جاسوس کبوترپکڑنے کے دعویٰ کو ایک بھونڈامذاق ہی کہا جاسکتا ہے، بھارتی فورسزپاکستان سے اس قدرخوفزدہ ہیں کہ انہیں پاکستان کی طرف سے جانیوالی ہواپربھی جاسوس ہونے کا شبہ ہوتا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں