معاشی اہداف کا تعین

کوروناوائرس کا پھیلاؤ ہمیں سخت ترین لاک ڈاؤن کی اذیت اور مشکلات سے کسی بھی وقت دوبارہ دوچار کرسکتا ہے۔


Editorial April 22, 2021
کوروناوائرس کا پھیلاؤ ہمیں سخت ترین لاک ڈاؤن کی اذیت اور مشکلات سے کسی بھی وقت دوبارہ دوچار کرسکتا ہے۔ فوٹو : فائل

ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے ، روزانہ اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے،لیکن ہم بازاروں میں جاکر اپنے ہاتھوں سے موت خرید رہے ہیں۔

کوروناوائرس کا پھیلاؤ ہمیں سخت ترین لاک ڈاؤن کی اذیت اور مشکلات سے کسی بھی وقت دوبارہ دوچار کرسکتا ہے ، اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو۔لامحالہ اس کے اثرات ملکی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ، ملکی معیشت کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔

عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے،مالی سال2021-22میں شرح نمو 2فیصد تک ہونے کا امکان ہے، غریب اور کم آمدنی والے افراد جو ملکی آبادی کا نصف حصہ ہیں ،ان کے طرز زندگی کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

اگلے روز وفاقی کابینہ نے اشیائے خورونوش کی طلب ورسد کا ریکارڈ اور قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے ڈیٹا بیس کے قیام اور اس کے لیے مجوزہ قانون کی اصولی منظوری دی ہے ، جب کہ نومنتخب وزیر خزانہ شوکت ترین نے شماریات بیورو (پی بی ایس) کو افراط زر کے لیے ڈی ایس ایس آئی نظام میں 19 نئے شہر شامل کرنے کی ہدایت کردی ہے،اس کا مقصد ملک کے 36 بڑے شہروں میں اشیائے ضروریات کی قیمتیں ریکارڈ اور مانیٹر کرنا ہے جب کہ گورنراسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، عیدپرترسیلات زرمزیدبڑھ سکتی ہیں، انویسٹر کے لیے نئی پالیسیاں تیار کررہے ہیں۔

ہر دورِ حکومت میں ملکی معیشت کے استحکام سے متعلق مختلف خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں اور عوام کو سبز باغ دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گزشتہ حکمران چور اور لٹیرے تھے، معاشی انقلاب موجودہ حکومت لائے گی۔دراصل ملکی معیشت دو جمع دو چار کے فارمولے پر نہیں چلتی، معاشی اشاریے مختلف سمتوں میں ترقی و خوشحالی اور بعض دیگر اطراف میں بدحالی اور تنگدستی کی خبریں بھی سناتے ہیں لیکن عوام کو سکے کا صرف ایک رُخ دکھایا جاتا ہے۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کورونا کے اثرات کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی کمی کا نمایاں ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔رواں مالی سال 2020-21 کے پہلے نو ماہ جولائی تا مارچ کے دوران ملک میں ہونیوالی بیرونی سرمایہ کاری میں باون52فی صد کمی ہوئی ہے ، اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال اسٹاک مارکیٹ سے چھبیس کروڑ ڈالر کا انخلا ہوا ہے جب کہ اس دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی شرح گزشتہ برس سے پینتیس فی صد کم رہی ہے۔

ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافے کے علاوہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت جہاں ایک طرف خدانخواستہ کورونا کے پھیلاؤ کے باعث معاشی سرگرمیوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، وہاں سیاسی انتشار اور احتجاج کی صورت میں مسائل درپیش ہیں۔

صورتحال کے بارے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا رویہ ایسا نظر نہیں آتا کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے، سیاسی معاملات اور سیاسی حالات ایسے نہیں کہ ان کے اثرات معیشت پر اور کاروبار زندگی پر نہ پڑیں، بلکہ یہاں ایک تقریر، ایک احتجاج اور ایک گرفتاری پر اسٹاک مارکیٹ گر جاتی ہے، تو ایسی غیریقینی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں کیا کشش باقی رہ جاتی ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو ، لیکن ہم اس سے محروم ہیں ۔ملکی مفاد کی خاطر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مکالمہ اور بہترین تعلقات ہونا لازمی ہے ۔

حال ہی میں چینی کا بحران پیدا ہوا جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات اٹھائے۔ چینی بحران پر تحقیقات بھی ہوئیں اور ذمے داران کے خلاف ایکشن بھی لیا گیا، تاہم حکومت تاحال چینی بحران پر قابو پانے میں ناکام ہے۔کراچی، اسلام آباد اور لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی فی کلو قیمت میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری ہے ،بجلی ،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ، عام آدمی کے ذرائع آمدن محدود ہوچکے ہیں ، ملک میں خودکشی کا رحجان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے ۔ کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں برس ملک میں روئی کی قیمت 11 سال کی بند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ملک میں جب بھی غیر یقینی یا سیاسی عدم استحکام یا اس طرز کی جو بھی صورتحال سامنے آئے، اس سے عوامی زندگی اور معیشت ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، آئے روز قرضوں کی واپسی کی سخت سے سخت شرائط پورا کرتے کرتے عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جسے اب اُٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کی وجہ سے ملک میں نئے ٹیکس روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بتدریج بڑھانا پڑے اور اسی طرح قومی معیشت کے استحکام کی خاطر عوام کڑوی گولی کھانے پر بھی مجبور ہوئے کہ وہ اپنے اچھے مستقبل اور کرپشن فری سوسائٹی کے لیے بے شمار امیدیں وابستہ کرچکے تھے، لیکن اقتصادی اصلاحات سے متعلق حکومت کے مشکل اور غیر مقبول فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کے غربت، مہنگائی، روٹی روزگار کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے تو حکومت سے وابستہ عوام کی امیدیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں۔

حکومت جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی کہ معیشت کا موجودہ ڈھانچہ اشرافیائی ہے اور اس پر اشرافیہ کا مکمل کنٹرول ہے، بڑے پیمانے کی ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائے بغیر پاکستان کی معیشت کے بنیادی نو آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، محض اچھی اور نیک خواہشات اور نیک نیتی سے معاشی صورت حال میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے معاشی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔ پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقات ایسی پالیسیاں لاگو کرتے ہیں، جن سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب عوام کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں، جب تک حکمران طبقات اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔

عوام مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور افلاس کی چکی میں پستے رہیں گے، عوام پریشان ہیں۔حکومتی اقدامات سے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر براہ راست پڑ رہا ہے، غریب اور متوسط طبقہ پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہوکر مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔

عوام بہت دیر سے حکومتی وعدوں کے ایفا ہونے کے منتظر ہیں۔ گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی و گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔ ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔حکومت گزرے چند ماہ کے دوران چار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرچکی ہے۔

فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر بھی جو اضافی رقم بلوں میں لگ کر آئے گی، اس سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی، آئی ایم ایف کی شرائط تو حکومت پوری کرکے قرضے کی وصولی میں سرخرو ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عوام پر جو ستم روا رکھا جا رہا ہے، کیا یہ اسے جمہوری نظام سے بدظن کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے متبادل توانائی کے ذرایع استعمال کیے جائیں۔ ہوا، پانی، سورج کی روشنی، کوئلہ سے انرجی پیدا کی جائے، چین کے ساتھ سِول ایٹمی معاہدہ کیا جائے اور بجلی کی بلنگ کا پری پیڈ کارڈ سسٹم بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔

قومی معیشت کا حقیقی استحکام بہر حال اسی طرح ممکن ہے کہ ملک کے اندر مقامی طور پر نئی صنعتیں اور کارخانے لگیں تا کہ قومی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو، درآمدی اشیاء پر انحصار میں کمی آئے اور روزگار کے نئے مواقعے کی افزائش کی بناء پر خو شحالی کے نتائج عام لوگوں تک پہنچ سکیں۔ تاہم شرح سود میں کمی نیز تعمیرات اور کپڑے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے حکومتی اقدامات کے باعث ان شعبوں میں تو ایک حد تک بہتری نظر آنا شروع ہوئی ہے لیکن مجموعی معاشی سرگرمی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان ناقابلِ یقین حد تک تفاوت بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں معاشی وسائل چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کی مارکیٹ کے دو نظام ہیں کنٹرولڈ پرائس اور فری پرائس سسٹم۔ کنٹرولڈ پرائس سسٹم میں اشیاء کی قیمتیں حکومت کے زیرِ کنٹرول ہوتی ہیں، وہ ضرورت کے مطابق اس کی قیمتوں میں کمی و زیادتی کرتی ہے، جس میں عوام کی قوتِ خرید کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔

فری پرائس سسٹم میں اشیاء کی قیمتیں تاجروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو بحرانی حالات کو بھی مواقعے کی صورت میں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔حکمران طبقے، با اثر سیاست دان، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو بھی کو اسی طرح ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا جس طرح عام آدمی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے ڈھائی برس گزرنے کے باوجود اپنی معاشی پالیسی کے خدو و خال واضح نہیںکیے ہیں۔ واضح معاشی اور اقتصادی پالیسی کے بغیر ترقی کا عمل درست سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حکومت اگر ملک میں معاشی انقلاب لانا چاہتی ہے تو اسے اپنے اقتصادی اور معاشی اہداف کا واضح اعلان کرنا ہو گا۔ بلاشبہ طلب اور رسد کے اصول کے تحت بعض معاشی اشاریے استحکام کی نوید سنا رہے ہیں، تاہم دوسری جانب مشکلات میں اضافہ بھی جاری ہے۔

حکومت کو بے شمار معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تجارتی خسارے، مہنگائی اور قرضوں پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں