مسائل کا حل قومی اتفاق رائے میں ہے
نیشنل ایکشن پلان کے وقت ہونے والے قومی اتفاق رائے نے نہ صرف پور ے ملک کی رائے عامہ بدلی بلکہ ماحول بھی بدل دیا۔
پاکستان میں گزشتہ چند دن میں جو بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر نے تمام کھیل سے پردہ اٹھا دیا۔ ویسے تو جو باتیں میڈیا سے چھپائی جا رہی تھیں، وہ وزیر اعظم نے اپنی تقریرمیں خود ہی کہہ دیں۔ تا ہم یہ کوئی اہم بات نہیں۔ میرے لیے زیادہ اہم بات ملک میں اس اہم مسئلہ پر بھی سیاسی کھیل اور سیاسی قومی اتفاق رائے کا نہ ہونا ہے۔
ماضی میں بھی ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہم نے کوئی اور سبق سیکھا ہے کہ نہیں لیکن اہم اور قومی اہمیت کے معاملات پر قومی اتفاق رائے کی اہمیت ہم ضرور جان گئے ہیں۔ اس لیے میں نے ماضی قریب میں بالخصوص ملک کی سیاسی قوتوں اور ریاست کے تمام ستونوں کو اہم قومی معاملات پر اکٹھے چلتے دیکھا ہے۔ میں نے مشکل سے مشکل حالات اور محاذ آرائی کی شدت میں بھی سیاسی قوتوں کو قومی اتفاق رائے کے لیے اکٹھے بیٹھتے دیکھا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے جس جن کو شکست دی ہے وہ قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
نیشنل ایکشن پلان قومی اتفاق رائے کی ایک بہترین مثال تھی۔ اگر ملک میں قومی اتفاق رائے نہ ہوتا تو عسکری اداروں کے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے وہ نتائج ممکن نہیں تھے جو آج حاصل ہوئے ہیں۔ پوری قوم نے جس طرح دہشت گردی کو مسترد کیا اور دہشت گردوں کے لیے جو نفرت قومی سطح پر دیکھی گئی وہ ایک قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ورنہ اس سے پہلے ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن کو ہیرو کا درجہ بھی دیا جاتا رہا۔ اور مجاہدین کے حق میں ایک رائے بھی موجود رہی۔
لیکن نیشنل ایکشن پلان کے وقت ہونے والے قومی اتفاق رائے نے نہ صرف پور ے ملک کی رائے عامہ بدلی۔ بلکہ ماحول بھی بدل دیا۔ پوری قوم ان کے خلاف آپریشن کے لیے سیکیورٹی اداروں کی پشت پر کھڑی نظر آئی۔ جس کے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں۔
آج بھی ہمیں جس قسم کی شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے، اس سے حکومت یا ریاستی ادارے اکیلے نہیں لڑ سکتے۔ اکیلی حکومت کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو وہ اس قسم کے چیلنجز سے نبٹنے کے لیے کمزور ہی دکھائی دیتی ہے۔ ریاستی ادارے بھی جتنے مرضیٰ طاقتور ہوں وہ قومی اتفاق رائے کے بغیر کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ حکومتی رٹ کی مضبوطی قومی ا تفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جمہوریت ہی نہیں آمریت کو بھی اس قسم کے چیلنجز سے نبٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتیں ملکر ہی ایسی مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو شکست دے سکتے ہیں۔
سوال یہ اہم نہیں ہے کہ کیا حکومت کی حکمت عملی درست تھی کہ نہیں۔ بات سمجھنے کی ہے کہ قومی ا تفاق رائے کے بغیر درست حکمت عملی بھی ناکام ہی نظر آتی ہے۔ سوال یہ اہم نہیں کہ حکومت نے کمزوری دکھائی کہ نہیں۔ بات سمجھنے کی ہے کہ اکیلی حکومت اس قسم کے چیلنجز نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔
اسے اپوزیشن اور دیگر سیاسی قوتوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی محاذ آرائی کے ماحول میں ایسے چیلنجز سے نبٹا نہیں جا سکتا۔ جب ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوںگے تو مخالف بیانیہ کو تقویت ملے گی۔ دشمن کو حوصلہ ملے گا۔ جب اختلافی بات کرنے والوں کو دشمن کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ وہاں کیا ملک میں سیاسی محاذ آرئی کا ماحول دشمن کی مدد نہیں کرتا۔ ایک دوسرے کو دشمن کا ایجنٹ بنانا اور ایک دوسرے کو کم تر مسلمان ثابت کرنا دشمن کی مدد کرنے کے ہی مترادف ہے۔
مجھے وزیر اعظم کی تقریر کے دلائل سے تو اتنا اختلا ف نہیں ہے۔ لیکن اپنی تقریر میں اس نازک موقعے پر بھی انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر جس طرح سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی اس پر زیادہ افسوس ہے۔ یہ موقع نہیں تھا سیاسی مخالفین کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کا۔ انھیں ملک میں قومی اتفاق رائے کا ماحول بنانے کے لیے قدم بڑھانا تھا۔ وہ تفریق اور تقسیم کو مزید واضح کرتے گئے۔ انھیں سب کو ساتھ بٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، وہ فاصلے بڑھاتے گئے۔ وزیر اعظم نے شائد اپنے سیاسی مخالفین کا تو اتنا نقصان نہیں کیا ہے ، البتہ قومی اتفاق رائے کا سنہرا موقع کھویا ہے۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر مذہبی امور نے جو گفتگو کی ہے، وہ بھی ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اسد عمر کی تقریر بہت بہتر ین تھی۔ انھوں نے بہت سیاسی سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ سیاسی درجہ حرات کو کم کرنے کی کوشش کی اور معاملہ قومی اتفاق رائے کی طرف لیجانے کی کوشش کی۔
جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔کیا ہمارے وفاقی مذہبی امور کو اب بھی معاملہ کی سنگینی کا اندازذہ نہیں ہے۔ کب ہماری حکومت کو یہ سمجھ آئے گی کہ اپوزیشن کی ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ درگزر اور معاملہ فہمی حکومت کا کام ہے۔ صورتحال کو کنٹرول میں رکھنا حکومت کا کام ہے۔ کب تک اپوزیشن سے بات چیت سے انکار کیا جاتا رہے گا۔ کب ہماری حکومت کو خود سمجھ آئے گی کہ یہ کام اسے کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کی تنقید سننا ہی حکومت کا کام ہے۔
کیاہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم تقریر سے پہلے کم از کم پارلیمان میں موجود جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلاتے۔ اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کوملتے۔ انھیں حالات پر خود بریفنگ دیتے۔ا ن سے مشاورت کرتے۔ ایک متفقہ حکمت عملی بناتے۔ اپوزیشن سے تعاون حاصل کرتے۔ یہ کوئی نا ممکن کام نہیں تھا۔ ماضی میں حکومتیں ایسا کرتی رہی ہیں اور بات چیت کا دروازہ کھول ہی لیتی تھیں۔ کب ہماری حکومت کو سمجھ آئے گی کہ وہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکتے۔ کیا جب شہباز شریف نے چارٹر آف اکانومی کی پیشکش کی تھی وہ قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔
قومی اسمبلی کے اتنے اہم اجلاس میں جب حکومت کو اپوزیشن کا تعاون چاہیے تھا قائد حزب اختلاف کے پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ پیپلزپارٹی کا بائیکاٹ بھی کوئی حکومت کے لیے نیک شگون نہیں تھا۔ اگر وہ اس معاملہ سے الگ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کررہے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی بائیکاٹ جاری رکھتی ہے تو قومی اتفاق رائے تو نہیں بن سکتا۔ وہ باہر ہیںتو حکومت کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ن لیگ نے پارلیمان میں آکر حکومت کی مدد کی ہے۔ اس پربھی انھیں رگیدا جا رہاہے ۔ شائد حکومت کو دشمن اور دوست کی سمجھ ہی نہیں رہی ہے۔
شاید بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ لیکن یہ ایسے بحرانوں کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ مستقل حل کے لیے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو اکٹھے بیٹھنا ہوگا۔ دینی اور سیا سی مسائل کو ملکر حل کرنا ہوگا۔ سولو فلائٹ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہوگا اور وہ اپنی پالیسی تبدیل کریں گے۔