شدت پسندی کا جال
مغرب اسی طرح ہمارے سروں پر کوئی کوتاہ اندیش لیڈر مسلط کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے انڈیا پر مسلط کیا ہے
SYDNEY:
جہاں دنیا اپنے وقت کے خوفناک ترین دور میں داخل ہوچکی ہے وہیں ہمارے ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان تمام حالات اور واقعات سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہیں، یا پھر انھیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دنیا کے حالات کیا رخ اختیار کررہے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ صرف موجودہ حکومت کی نااہلی اور اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ روز ہی کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ہوجاتا ہے جو اس ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ آج کل ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فرانسیسی صدر کا توہین رسالت کا بیان ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر شخص ہمارے ملک میں حرمت رسول پر مر مٹنے کو تیار ہے۔ لیکن ہمیں ذرا غیر جذباتی ہوکر اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کیوں گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی یورپی ملک اس گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور اس کا انھیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ہمارے ملک میں مذہبی شدت پسندی ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لیکن اس قسم کے بیانات جو یورپی ممالک کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ اس شدت پسندی کو مذہبی دہشت گردی میں تبدیل کررہی ہے۔ اور یہ دہشت گردی ہمارے ہی ملک کے خلاف ہورہی ہے۔ کیونکہ ہم یورپی ممالک کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہاں ہمیں ذرا ان اسباب اور ان کے فوائد کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان یورپی بیانات سے انھیں حاصل ہوتے ہیں، یا جنھیں حاصل کرنے کی وہ کوشش کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس قسم کے بیانات صرف یورپی ممالک کے سربراہان کی طرف سے ہی دیے جاتے ہیں۔ امریکا جو ان ممالک کا سرپرست ہے اور مسلمانوں کی تباہی میں جس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، وہ ان معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھتا ہے۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ اگر کبھی معاملات اس حد تک چلے جائیں جہاں کچھ غیرتمند مسلمان واقعی یورپ کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو امریکا بیچ بچاؤ کرانے کود پڑے۔ کیونکہ اب کچھ مسلم ممالک خوفناک حد تک مسلّح بھی ہیں اور یورپی اور امریکی افواج کے خلاف جنگوں کا خاصا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
اب ذرا ہم ان فوائد پر نظر ڈالتے ہیں جو کہ یورپی ممالک حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سفید فام اقوام کے دماغوں میں ہمیشہ سے نسلی برتری کا تصور موجود رہا ہے۔ اور یہ تصور آج بہت زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ نسلی، لسانی اور ثقافتی برتری کا تصور ہمیشہ سے ان کے دماغوں میں موجود رہا ہے۔ ہمارے ملک میں تو آج بھی گورے کی کھوپڑی برتر سمجھی جاتی ہے۔ اس تصور نے پچھلی دو صدیوں میں بہت پختگی بھی اختیار کرلی۔ جبکہ انہوں نے تقریباً تمام دنیا کی اقوام کو اپنا غلام بنا کر ان کا استحصال کیا اور ان کے وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو انتہائی طاقتور بنا لیا۔ لیکن نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یورپی اقوام کو اب ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ کل تک جو اقوام ان کی غلام تھیں، وہ اب زندگی کے ہر شعبے میں ان سے آگے نکل گئی ہیں۔ زرد فام اقوام جنھیں وہ انتہائی کمتر سمجھتے تھے آج ان سے کہیں زیادہ دولت مند اور طاقتور ہیں۔ انھیں جاپان کی ترقی سے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی تکلیف انھیں چین کی ترقی سے ہے۔ کیونکہ جاپان ایک طرح سے ان کا غلام ہی ہے، ان کی مرضی کے بغیر جاپان کچھ نہیں کرسکتا۔
اگر ہم ایک لمحے کو پاکستانیت کو ایک طرف رکھ کرانڈیا کو دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ انڈیا بھی ایک وہ قوم ہے جس نے تعلیم و ہنر اور صنعت و حرفت میں بے مثال ترقی کی ہے۔ آج وہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن گئے ہیں۔ دفاع کے شعبے میں بھی وہ کئی یورپی اقوام سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ کل تک جنھیں گورا، کالا کہتا تھا آج وہ انگلینڈ کو ایک حقیر ملک کہتے ہیں۔ اگر انڈیا کو اسی طرح ترقی کرنے دی جاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب گوروں کو کالوں کی غلامی کرنی پڑسکتی ہے۔
اب جبکہ ہم سارا بیک گراؤنڈ سمجھ چکے ہوں تو ہمیں ان یورپی ممالک کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ مذہبی شدت پسندی ایک ہتھیار کے طور پر انڈیا میں استمعال کی جاچکی ہے۔ آج عالمی سیاست سے واقف اکثر لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی کو انڈیا میں برسراقتدار لانے میں امریکا کا بھی ہاتھ ہے۔ ہندوتوا نظریہ جس طرح انڈیا کی بنیادیں ہلا چکا ہے وہ آج کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر جس شخص کو حکومت ملی وہ نہ کوئی پنڈت ہے نہ ہی انڈیا کی کوئی بڑی مذہبی شخصیت ہے۔ وہ ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے والا ایک شخص ہے، جس کی واحد خوبی مذہبی جنونیت ہے۔ اس مذہبی جنونی شخص نے انڈیا کی سلامتی کو جس طرح خطرات سے دوچار کردیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اگر اس مذہبی شدت پسندی کے نتیجے میں انڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے تو سفید فام اقوام کی برتری کو درپیش ایک خطرے کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہندوتوا نظریہ اس وقت انڈیا کی موت بنتا جارہا ہے۔
اب اگر ہم اپنے ملک میں مذہبی شدت پسندی کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک عجیب و غریب صورت حال نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک میں مذہبی جماعتیں موجود ہیں، اس کے علاوہ بے شمار تبلیغی جماعتیں ہیں جن کے پیروکاروں اور عقیدتمندوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے کسی بیان کے بعد ایک غیر معروف مسجد کا پیش امام جسے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا ایک دم لیڈر بن کر سامنے آجاتا ہے۔ نہ صرف لیڈر بن کر سامنے آتا ہے بلکہ اس کے ایک اشارے پر لاکھوں مرمٹنے والے بھی میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ لیڈر منبر پر بیٹھ کر مادر زاد گالیاں بھی دیتا ہے، لیکن اس سے اس کی لیڈرشپ اور بزرگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر اس کے پیروکاروں پر نظر ڈالی جاتے تو ان میں اکثریت ان لوگوں کی نظر آتی ہے جو شاذونادر ہی کبھی مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے ہوں گے۔ اکثر اسلامی عقائد اور اعمال سے پوری واقفیت بھی نہیں رکھتے ہیں، لیکن حرمت رسول پر کٹ مرنے کو تیار ہیں۔
یہاں ایک بات اکثر شعور رکھنے والوں کو چبھتی ہے۔ آخر کیسے اچانک ایک غیر معروف پیش امام لوگوں میں اتنا مقبول ہوجاتا ہے کہ لاکھوں عقیدت مند اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں؟ انسانی عقل یہ بات تسلیم نہیں کرتی ہے کہ کسی بھی شخص کو جانے بوجھے بغیر کوئی کیسے اس کی پیروی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ان سب کے پیچھے یقیناً پوری پلاننگ اور ماسٹر مائنڈ موجود ہوتا ہے۔ جو کہ پوری تیاری پہلے کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک بیان یورپی ملک کی طرف سے دیا جاتا ہے اور پورا اسٹیج سج جاتا ہے۔
اگر اس شدت پسندی کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہوتی ہے تو حکومت کسی عالم یا کسی دین کو مکمل طور پر سمجھنے والے شخص کو نہیں بلکہ ایک مذہبی جنونی کے ہاتھ میں جاسکتی ہے۔ جو پاکستان کا بھی وہی حشر کر سکتا ہے جو ایک چائے بیچنے والے نے انڈیا کا کردیا ہے۔
مغرب اسی طرح ہمارے سروں پر کوئی کوتاہ اندیش لیڈر مسلط کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے انڈیا پر مسلط کیا ہے۔ مظاہرین میں اکثریت ان لوگون کی ہے جنھیں نماز تو شاید صحیح طور پر نہ آتی ہو لیکن وہ سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنانا خوب جانتے ہیں۔
جس طرح ہندوتوا نظریہ انڈیا کی موت بنتا جارہا ہے اسی طرح یہ مسلموتوا نظریہ پاکستان کو ایک خوفناک تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ ابھی ہم نے تازی تازی شکست امریکا کو دی ہے۔ ان کے بہت سارے پلان اس خطے کے متعلق جو انہوں نے بنائے تھے وہ فیل کردیے ہیں۔ اب ہم نے باقاعدہ بین الاقوامی سیاست میں ان کی مرضی کے خلاف اقدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔ کہیں ہم آذر بائیجان کو آرمینیا پر فتح دلوا رہے ہیں تو کہیں ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر کر رہے ہیں۔ یہ تمام معاملات مغرب کو ناگوار گزر رہے ہیں۔ ایک کھلی جنگ کا خطرہ وہ مول لے نہیں سکتے، اس لیے وہ ایسے ہی اقدامات سے ہماری سلامتی کو خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کے کئی مزید واقعات مستقبل میں پیش انے کا خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کی چالوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک کو مزید مضبوط کرنے کےلیے اقدامات کریں، نہ کہ اسے ان کی مرضی کے مطابق عدم استحکام سے دوچار کردیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جہاں دنیا اپنے وقت کے خوفناک ترین دور میں داخل ہوچکی ہے وہیں ہمارے ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان تمام حالات اور واقعات سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہیں، یا پھر انھیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دنیا کے حالات کیا رخ اختیار کررہے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ صرف موجودہ حکومت کی نااہلی اور اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ روز ہی کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ہوجاتا ہے جو اس ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ آج کل ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فرانسیسی صدر کا توہین رسالت کا بیان ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر شخص ہمارے ملک میں حرمت رسول پر مر مٹنے کو تیار ہے۔ لیکن ہمیں ذرا غیر جذباتی ہوکر اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کیوں گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی یورپی ملک اس گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور اس کا انھیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ہمارے ملک میں مذہبی شدت پسندی ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لیکن اس قسم کے بیانات جو یورپی ممالک کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ اس شدت پسندی کو مذہبی دہشت گردی میں تبدیل کررہی ہے۔ اور یہ دہشت گردی ہمارے ہی ملک کے خلاف ہورہی ہے۔ کیونکہ ہم یورپی ممالک کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہاں ہمیں ذرا ان اسباب اور ان کے فوائد کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان یورپی بیانات سے انھیں حاصل ہوتے ہیں، یا جنھیں حاصل کرنے کی وہ کوشش کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس قسم کے بیانات صرف یورپی ممالک کے سربراہان کی طرف سے ہی دیے جاتے ہیں۔ امریکا جو ان ممالک کا سرپرست ہے اور مسلمانوں کی تباہی میں جس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، وہ ان معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھتا ہے۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ اگر کبھی معاملات اس حد تک چلے جائیں جہاں کچھ غیرتمند مسلمان واقعی یورپ کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو امریکا بیچ بچاؤ کرانے کود پڑے۔ کیونکہ اب کچھ مسلم ممالک خوفناک حد تک مسلّح بھی ہیں اور یورپی اور امریکی افواج کے خلاف جنگوں کا خاصا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
اب ذرا ہم ان فوائد پر نظر ڈالتے ہیں جو کہ یورپی ممالک حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سفید فام اقوام کے دماغوں میں ہمیشہ سے نسلی برتری کا تصور موجود رہا ہے۔ اور یہ تصور آج بہت زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ نسلی، لسانی اور ثقافتی برتری کا تصور ہمیشہ سے ان کے دماغوں میں موجود رہا ہے۔ ہمارے ملک میں تو آج بھی گورے کی کھوپڑی برتر سمجھی جاتی ہے۔ اس تصور نے پچھلی دو صدیوں میں بہت پختگی بھی اختیار کرلی۔ جبکہ انہوں نے تقریباً تمام دنیا کی اقوام کو اپنا غلام بنا کر ان کا استحصال کیا اور ان کے وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو انتہائی طاقتور بنا لیا۔ لیکن نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یورپی اقوام کو اب ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ کل تک جو اقوام ان کی غلام تھیں، وہ اب زندگی کے ہر شعبے میں ان سے آگے نکل گئی ہیں۔ زرد فام اقوام جنھیں وہ انتہائی کمتر سمجھتے تھے آج ان سے کہیں زیادہ دولت مند اور طاقتور ہیں۔ انھیں جاپان کی ترقی سے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی تکلیف انھیں چین کی ترقی سے ہے۔ کیونکہ جاپان ایک طرح سے ان کا غلام ہی ہے، ان کی مرضی کے بغیر جاپان کچھ نہیں کرسکتا۔
اگر ہم ایک لمحے کو پاکستانیت کو ایک طرف رکھ کرانڈیا کو دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ انڈیا بھی ایک وہ قوم ہے جس نے تعلیم و ہنر اور صنعت و حرفت میں بے مثال ترقی کی ہے۔ آج وہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن گئے ہیں۔ دفاع کے شعبے میں بھی وہ کئی یورپی اقوام سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ کل تک جنھیں گورا، کالا کہتا تھا آج وہ انگلینڈ کو ایک حقیر ملک کہتے ہیں۔ اگر انڈیا کو اسی طرح ترقی کرنے دی جاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب گوروں کو کالوں کی غلامی کرنی پڑسکتی ہے۔
اب جبکہ ہم سارا بیک گراؤنڈ سمجھ چکے ہوں تو ہمیں ان یورپی ممالک کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ مذہبی شدت پسندی ایک ہتھیار کے طور پر انڈیا میں استمعال کی جاچکی ہے۔ آج عالمی سیاست سے واقف اکثر لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی کو انڈیا میں برسراقتدار لانے میں امریکا کا بھی ہاتھ ہے۔ ہندوتوا نظریہ جس طرح انڈیا کی بنیادیں ہلا چکا ہے وہ آج کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر جس شخص کو حکومت ملی وہ نہ کوئی پنڈت ہے نہ ہی انڈیا کی کوئی بڑی مذہبی شخصیت ہے۔ وہ ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے والا ایک شخص ہے، جس کی واحد خوبی مذہبی جنونیت ہے۔ اس مذہبی جنونی شخص نے انڈیا کی سلامتی کو جس طرح خطرات سے دوچار کردیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اگر اس مذہبی شدت پسندی کے نتیجے میں انڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے تو سفید فام اقوام کی برتری کو درپیش ایک خطرے کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہندوتوا نظریہ اس وقت انڈیا کی موت بنتا جارہا ہے۔
اب اگر ہم اپنے ملک میں مذہبی شدت پسندی کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک عجیب و غریب صورت حال نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک میں مذہبی جماعتیں موجود ہیں، اس کے علاوہ بے شمار تبلیغی جماعتیں ہیں جن کے پیروکاروں اور عقیدتمندوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے کسی بیان کے بعد ایک غیر معروف مسجد کا پیش امام جسے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا ایک دم لیڈر بن کر سامنے آجاتا ہے۔ نہ صرف لیڈر بن کر سامنے آتا ہے بلکہ اس کے ایک اشارے پر لاکھوں مرمٹنے والے بھی میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ لیڈر منبر پر بیٹھ کر مادر زاد گالیاں بھی دیتا ہے، لیکن اس سے اس کی لیڈرشپ اور بزرگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر اس کے پیروکاروں پر نظر ڈالی جاتے تو ان میں اکثریت ان لوگوں کی نظر آتی ہے جو شاذونادر ہی کبھی مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے ہوں گے۔ اکثر اسلامی عقائد اور اعمال سے پوری واقفیت بھی نہیں رکھتے ہیں، لیکن حرمت رسول پر کٹ مرنے کو تیار ہیں۔
یہاں ایک بات اکثر شعور رکھنے والوں کو چبھتی ہے۔ آخر کیسے اچانک ایک غیر معروف پیش امام لوگوں میں اتنا مقبول ہوجاتا ہے کہ لاکھوں عقیدت مند اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں؟ انسانی عقل یہ بات تسلیم نہیں کرتی ہے کہ کسی بھی شخص کو جانے بوجھے بغیر کوئی کیسے اس کی پیروی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ان سب کے پیچھے یقیناً پوری پلاننگ اور ماسٹر مائنڈ موجود ہوتا ہے۔ جو کہ پوری تیاری پہلے کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک بیان یورپی ملک کی طرف سے دیا جاتا ہے اور پورا اسٹیج سج جاتا ہے۔
اگر اس شدت پسندی کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہوتی ہے تو حکومت کسی عالم یا کسی دین کو مکمل طور پر سمجھنے والے شخص کو نہیں بلکہ ایک مذہبی جنونی کے ہاتھ میں جاسکتی ہے۔ جو پاکستان کا بھی وہی حشر کر سکتا ہے جو ایک چائے بیچنے والے نے انڈیا کا کردیا ہے۔
مغرب اسی طرح ہمارے سروں پر کوئی کوتاہ اندیش لیڈر مسلط کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے انڈیا پر مسلط کیا ہے۔ مظاہرین میں اکثریت ان لوگون کی ہے جنھیں نماز تو شاید صحیح طور پر نہ آتی ہو لیکن وہ سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنانا خوب جانتے ہیں۔
جس طرح ہندوتوا نظریہ انڈیا کی موت بنتا جارہا ہے اسی طرح یہ مسلموتوا نظریہ پاکستان کو ایک خوفناک تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ ابھی ہم نے تازی تازی شکست امریکا کو دی ہے۔ ان کے بہت سارے پلان اس خطے کے متعلق جو انہوں نے بنائے تھے وہ فیل کردیے ہیں۔ اب ہم نے باقاعدہ بین الاقوامی سیاست میں ان کی مرضی کے خلاف اقدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔ کہیں ہم آذر بائیجان کو آرمینیا پر فتح دلوا رہے ہیں تو کہیں ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر کر رہے ہیں۔ یہ تمام معاملات مغرب کو ناگوار گزر رہے ہیں۔ ایک کھلی جنگ کا خطرہ وہ مول لے نہیں سکتے، اس لیے وہ ایسے ہی اقدامات سے ہماری سلامتی کو خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کے کئی مزید واقعات مستقبل میں پیش انے کا خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کی چالوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک کو مزید مضبوط کرنے کےلیے اقدامات کریں، نہ کہ اسے ان کی مرضی کے مطابق عدم استحکام سے دوچار کردیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔