آبادی کا صحیح شمار فوائد بے شمار
ہمیں ان لوگوں کا اصل علم نہیں جو اسپتالوں کے علاوہ گھروں میں کورونا کی وجہ سے جان سے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ملکوں کی آبادی کی شرح نمو اور اموات کو باقاعدگی سے ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ ملکی ضروریات اور ایمرجنسی حالات کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی کا جائزہ لیے بغیر آبادی کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیائے ضرورت دی جاسکیں۔ ملکی آبادی کی تعداد اور اس کی شرح نمو کا جائزہ لیے بغیر کوئی ملک اپنے مستقبل کی پلاننگ نہیں کرسکتا۔
ملکی آبادی کی ترقی، خوشحالی یا بدحالی کی اصل تصویر صحیح اعداد و شمار پر مشتمل مکمل تصویر کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی آبادی کی صحیح تصویر اب تک منظر عام پر نہیں آسکی، اس وقت ملک میں آبادی کے شماریات میں تین تصویریں نمایاں ہیں۔ جن میں پہلی تصویر یہ کہتی ہے کہ آبادی بائیس کروڑ ہے۔ دوسری تصویر اکیس کروڑ اور بعض بیس کروڑ کے لگ بھگ بتاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اقتصادی منصوبہ بندی کیوں کر صحیح طریقے سے کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں ر مختلف سیاسی پارٹیوں اور صوبائی مصلحتوں کے باعث مردم شماری کے نتائج پر لوگوں کو اطمینان نصیب نہیں ہوا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ مردم شماری میں شماریات کرنے والوں کے ہمراہ تھے جب ایک بلڈنگ آئی تو انھوں نے ایک مکان میں شمار کرکے پوری بلڈنگ کو دانستہ شمار نہیں کیا۔ واللہ عالم یہ افواہیں تھیں یا حقیقت جس نے مردم شماری کو پوری طرح نامناسب قرار دے دیا۔ بڑے شہروں خصوصاً کراچی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لوگ پوری بلڈنگز میں داخل نہیں ہوئے۔
لہٰذا کراچی کی بیس فیصد آبادی جو فلیٹوں اور بلڈنگوں میں رہتی ہے، اس مردم شماری سے عاری ہوگئی۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی پارٹیوں نے بھی مردم شماری کو صریحاً غلط قرار دیا، ان سیاسی پارٹیوں کا کہنا تھا کہ یہ عمل سندھ میں دانستہ کیا گیا ہے تاکہ شہری اور دیہی آبادی کے تناسب کو درست طریقے سے پیش نہ کیا جاسکے، یہ خیالات عام طور پر ایم کیو ایم کے لوگوں نے عوام میں پیش کیے۔
گویا آبادی کی شماریات میں سیاسی عمل دخل کا پہلو کسی حد تک دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے آبادی کی شماریات مشکوک ہوگئیں جس کی بنا پر حکومت نے نئی مردم شماری کا عندیہ دیا ہے۔ لہٰذا امید کرتے ہیں کہ نئی مردم شماری تمام سیاسی منفی اور مثبت اثرات سے دور ہوگی تاکہ صحیح پنج سالہ اقتصادی منصوبہ مضبوط بنیادوں پر پیش کیا جاسکے۔
یہاں اس بات کا انکشاف کرنا ضروری ہے کہ دنیا میں پہلا پنج سالہ اقتصادی اور سماجی منصوبہ سوویت یونین کے رہنما لینن نے متعارف کروایا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ پوری دنیا نے مردم شماری کی بنیاد پر ملک کی منصوبہ بندی شروع کی جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ ہر خاندان میں کتنے مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے موجود ہیں۔
کتنے تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں اور کتنے بے روزگار۔ اس طرح ملک کی آبادی کی شرح اور سماجی تصویر سامنے آنے لگی۔ منصوبہ بند ممالک نے زرعی اور اقتصادی منصوبہ بندی کو بھی اپنے ملک کی ضروریات کے مطابق بنانا شروع کیا۔ جن ممالک نے آبادی کی بنیاد پر ملک کی زرعی اور اقتصادی منصوبہ بندی کی وہ رفتہ رفتہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بوڑھے اور نوجوانوں کے مسائل پر بھی توجہ دی۔
نوجوانوں کی تعلیم، فنی اور علمی ترقی اور ضعیف لوگوں کے روزگار کے ذرایع اور ان کی زندگی کی سہولتیں جن میں طبی اور معاشی ضروریات کا خیال رکھا گیا اور جن ممالک نے اپنی آبادی کی شرح کو واضح اور صحیح طور پر پیش نہیں کیا وہ ممالک اقتصادی منصوبہ بندی میں کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ ان کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ہر عمر کے کتنے لوگ ان کے ملک میں موجود ہیں اور ان کی زندگی کی ضروریات کیا ہیں۔
جہاں آبادی کی صحیح اور واضح تصویر کشی نہیں کی گئی ہے اور شماریات میں ناانصافی سے کام لیا گیا ہے وہاں اقتصادی اور سماجی ترقی کے امکانات کمزور ترین ہیں۔ جن ممالک میں مردم شماری پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے وہ ترقی سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں اور جہاں آبادی کی شرح میں جھوٹ کی ملاوٹ کی جاتی ہے وہاں فنی اور اقتصادی ترقی کے برعکس لسانی گروہ بندی اور سماجی جھگڑے فروغ پاتے ہیں۔
لہٰذا مردم شماری محض انتخابی عمل میں ہی ضروری نہیں بلکہ ملک کا اقتصادی ڈھانچہ صحیح مردم شماری کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے جن ممالک میں ایک ایک دو دو کروڑ آبادی کو کم یا زیادہ دکھایا جاتا ہے ان ممالک کے اقتصادی ماہرین یا ملک کے حکمرانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک ایک ایک دو دو کروڑ کی آبادی کے حامل ہیں کیونکہ ان کے ہاں مستقلاً آبادی کی صحیح شماریات پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ بڑے اور پسماندہ ممالک میں آبادی کی شرح کو زیر و زبر کرنا عام سی بات ہے اسی لیے یہ ممالک ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلائے رہتے ہیں۔
لہٰذا یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ اقتصادیات کا پہیہ صحیح شماریات کے بغیر متحرک نہیں ہوسکتا اور پاکستان جیسے ملک میں جس کی آبادی کو کوئی بیس کروڑ کہتا ہے اور کوئی بائیس کروڑ۔ کس طرح مناسب طریقے سے اقتصادی ڈھانچہ تعمیر ہو سکتا ہے؟ یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ چین میں جو سیاسی کانگریس ہر پانچ سال کے بعد اپنی نشست اور قائدین کو چنتی ہے اس سے قبل اپنی آبادی کی تصویر واضح طور پر نمایاں کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر ان کی ٹریڈ انڈسٹری اور زراعت کا پہیہ گھومتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چین آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے، لیکن پاکستان میں عوام اور لیڈر شپ دونوں یہ خیال کرتے ہیں کہ آبادی کی شرح کی تصویر محض انتخابات کے لیے اور لیڈروں کا شیوہ ہے کیونکہ پاکستان میں جو کابینہ برسر اقتدار ہوتی ہے وہ پنج سالہ منصوبے پر کوئی مذاکرہ یا فنی اور اقتصادی تصویر عوام کے سامنے پیش نہیں کرتی۔ اس لیے عوام کو یہ معلوم نہیں کہ ملک کس ڈگر پہ چل رہا ہے۔
ان کو اخبارات سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں چیز کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو گیا۔ ٹیکسوں کی وصولیابی اور قرضوں کی واپسی کا علم عوام کو ہوتا ہے، مگر عوام کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے لیے کیا کیا سماجی اقدامات کیے گئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں بھی پنج سالہ منصوبہ بندی کی تصویر کشی کابینہ میں کی جاتی ہے اور عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا ملک ان کے ٹیکسوں سے کس راہ پر گامزن ہے۔ حزب مخالف کو تو اقتصادی اور مردم شماری کی تصویر کا کوئی رخ نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
برسر اقتدار حکومت کو مردم شماری اور شماریات کی تمام حقیقتوں کو واضح کردینا چاہیے تاکہ عوام کو شماریات کے فوائد کا علم ہو سکے اور وہ مردم شماری کو محض الیکشن کا حصہ نہ سمجھیں۔ موجودہ حالات میں حکومت کو مردم شماری کو اقتصادی ترقی کا ذریعہ سمجھ کر عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ قرضوں کی واپسی اور ملک میں نئے اقتصادی ڈھانچے کو کھڑا کیا جاسکے۔
حکومت نے چونکہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے ٹورازم اور غیر ملکی سرمایہ کاری یا اقتصادی امداد کو قبول کرنے کی باتیں کی ہیں، مگر موجودہ سیاسی حالات میں جن میں مذہبی رسہ کشی نمایاں ہے پاکستان میں ایسی صورت میں ٹورازم کیوں کر فروغ پاسکتا ہے۔ ٹورازم کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ٹورسٹ جاتا ہو وہاں کسی قسم کی بدامنی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ لہٰذا ٹورازم کی ترقی کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ البتہ اقتصادی ترقی کی جو پیش کش روس نے کی ہے اگر ان پر عمل کیا جائے تو پاکستان کا معاشی پہیہ جلد گھوم سکتا ہے اور بے روزگاری میں فوری کمی ممکن ہے۔
عرب دنیا سے خاصی بڑی تعداد میں لوگ روزگار ختم کرکے پاکستان آ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور جس قسم کے حالات ملک میں نمایاں ہیں ایسی صورت میں بھی روزگار میں اضافہ ممکن نہیں۔ لہٰذا مردم شماری کے بنیادی اجزا کو زیر غور رکھتے ہوئے عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کی شماریات کی اصل تصویر حکومت اور عوام کے سامنے ہونی چاہیے۔ یہی وہ راہ ہے جس سے منصوبہ بندی کی راہیں وابستہ ہیں۔
مانا کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے معیشت زیر و زبر ہو رہی ہے لیکن ہمیں ان لوگوں کا اصل علم نہیں جو اسپتالوں کے علاوہ گھروں میں کورونا کی وجہ سے جان سے جا رہے ہیں۔ آبادی کی اس نئی تصویر کو بھی باقاعدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ علم ہو سکے کہ نوجوانوں اور زیادہ عمر کے لوگوں کی کس قدر اموات ہوئی ہیں۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کو بدلنے کے لیے جن لوگوں نے پی ڈی ایم کے جھنڈے اٹھائے تھے انھیں ملک کی آبادی کی شرح سے کوئی غرض نظر نہیں آتی۔ کیونکہ ان کا مقصد ملک کو منصوبہ بندی کے تحت ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نہیں تھا بلکہ محض اقتدار حاصل کرنا تھا۔ لہٰذا انھوں نے ملک کی ترقی کے کسی حصے پر توجہ نہ دی۔
نہ روزگار و بے روزگاری پر نہ عوام کی تعداد پر اور نہ ان کی زندگی پر کہ وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ پاکستان میں آبادی کی کوئی عددی شرح متعین نہیں اس لیے آبادی کی منصوبہ بندی کا حقیقی پہلو کوئی پیش نہیں کرسکتا۔
البتہ غیر ملکیوں نے اپنے اندازے کے مطابق پاکستان کی فی کس آمدنی کو روزانہ ایک ڈالر سے کم قرار دیا ہے، لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کی صحیح آبادی کا تعین اس لیے نہیں کرنا کیونکہ وہ شرح آبادی کے فوائد کو زیر نظر رکھ کر ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دینا نہیں چاہتے۔ ان کو تو من مانے طریقے سے اپنی پارٹی کے لوگوں کو خوش کرنا مقصود ہے،جو منصوبہ بندی کی بنیاد پر ملک کی ترقی سے گریزاں ہیں۔ صحیح اعداد و شمار ان کے اصل دشمن ہیں کیونکہ یہی ان کی منصوبہ بندی کو بے نقاب کرتے ہیں۔