تحریکوں کے دور گئے
سابقہ دھرنوں کا انجام دیکھ کر عمران خان کے خلاف اپوزیشن کا لانگ مارچ تو نہ ہو سکا۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم اکیلے ہی اپوزیشن کے لیے تیار اور تحریک چلانا صرف ہم جانتے ہیں۔ یہ دعویٰ وہ چیئرمین کر رہے ہیں جنھوں نے صرف احتجاجی تحریکوں کا نام ہی سنا ہے کیونکہ جب ملک میں احتجاجی تحریکیں چلتی تھیں اس وقت وہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور آصف علی زرداری کو بھی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
ان کی غیر سیاسی مصروفیات تھیں البتہ ان کے والد حاکم علی زرداری ضرور سیاست میں تھے اور انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی جس کی ایڈوانس خبر بھی راقم نے ایک اخبار میں رپورٹر کے طور پر شکارپور کے حوالے سے دی تھی۔ حاکم علی زرداری بھٹو دور میں قومی اسمبلی کے رکن تھے۔
1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان ازبکستان کے شہر تاشقند میں مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ تاشقند کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔بعد میں انھوں نے پیپلز پارٹی بنائی تھی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگیا۔
بھٹو حکومت کے دور میں اپوزیشن کے ساتھ پرایوں کا سا سلوک کیا گیا تھا ۔بھٹو صاحب نے قبل ازوقت انتخابات کرا کر اقتدار مضبوط کرنا چاہا لیکن اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل سیاسی اتحاد جسے قومی اتحاد کا نام دیا گیا تھا، نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ جنرل ضیا کے خلاف پیپلز پارٹی سمیت ملک کی اپوزیشن نے مل کر نواب زادہ نصر اللہ خان کی سربراہی میں تحریک بھی چلائی تھی مگر جنرل ضیا کو اقتدار سے نہ ہٹا سکی تھی۔
اس تحریک میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کا سب سے اہم کردار تھا جب کہ 1979 میں بھٹو کی پھانسی کے بعد جیالوں نے خود سوزی تک کی تھی۔ 1988 میں جنرل ضیا کی فضائی حادثے میں موت کے بعد بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کسی تحریک کے نتیجے میں ختم نہیںکی گئی تھی بلکہ آئین کا سہارا لے کر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے حکومت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد نواز شریف اقتدار میں لائے گئے تھے جن کی صدر غلام اسحاق سے نہ بن سکی تھی جس پر وہ بھی اسی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئے جس پر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی طرح جشن منایا تھا۔
بے نظیر حکومت کی برطرفی پر جیالوں نے کوئی تحریک نہیں چلائی تھی اور بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آگئی تھیں اور نوابزادہ نصراللہ اور مولانا فضل الرحمن ان کی حکومت کا حصہ تھے۔ میاں نواز شریف نے بے نظیر حکومت کے خلاف جلسے جلوس ضرور کیے مگر ناکام رہے اور بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں صدر بنوائے گئے فاروق لغاری نے اپنی ہی حکومت برطرف کی مگر کوئی تحریک نہ چلی البتہ آصف زرداری اس کے بعد نواز شریف کی دوسری حکومت میں طویل عرصہ قید رہے۔
نواز شریف کی دوسری حکومت جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف ہوئی تو بے نظیر نے خیر مقدم کیا مگر (ن) لیگی متوالے کوئی تحریک نہ چلا سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر اور نواز شریف کو طویل عرصہ جلا وطن رکھا تب بھی دونوں جماعتیں ان کے خلاف کوئی موثر تحریک نہ چلا سکی تھیں۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد پی پی اور (ن) لیگ نے مل کر حکومت بنائی اور صدر مشرف کا مواخذہ کرنا چاہا تو وہ باعزت طور پر صدارت سے سبکدوش ہوکر باہر چلے گئے۔ پی پی اور (ن) لیگ نے بعد میں اپنی اپنی مدت پوری کی۔
دونوں ایک دوسرے کی مخالف رہیں مگر اور کسی احتجاجی تحریک سے گریز کیا۔ دونوں حکومتوں کے دس سالوں میں قاضی حسین احمد، ڈاکٹر طاہر القادری و دیگر نے اسلام آباد میں دھرنے دیے جن میں طویل دھرنا عمران خان کا تھا جو اپنے مقاصد فوری حاصل نہ کر سکے اور نواز شریف حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔
سابقہ دھرنوں کا انجام دیکھ کر عمران خان کے خلاف اپوزیشن کا لانگ مارچ تو نہ ہو سکا مگر ان کے بڑے جلسے حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور اب پی ڈی ایم خود تقسیم ہو چکی۔ بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کچھ نہ کرسکی تو سندھ تک محدود پیپلز پارٹی اکیلے تحریک چلانے کی صرف باتیں ہی کرسکتی ہے کیونکہ اب جان دینے والے کارکن نہیں رہے، صرف اقتدار کے مزے لینے والے باقی رہ گئے ہیں۔