گندم اور چینی کی درآمد اور قرض
آئی ایم ایف کی جانب سے جو حل دیے جاتے ہیں بجلی کے نرخ کب تک بڑھاتے رہیں گے۔
اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات نے ابو ظہبی فنڈ سے پاکستان کو دیے گئے دو ارب ڈالر امدادی قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان کو یہ قرض 19 اپریل کو ادا کرنا تھا۔
ادھر گزشتہ ماہ 24 مارچ کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قسط کے اجرا کی منظوری دی جاچکی تھی، لیکن اس کی بھاری قیمت پاکستانی معیشت اور عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے اور آیندہ بھی مزید مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سے جب بھی قسطوں کی وصولی کی مدت قریب آتی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت اور مالیاتی صورتحال کے بارے میں جائزوں کے کئی دور ہوتے ہیں اور بالآخر کئی سخت ترین شرائط اور ہدایات کے ساتھ بہت بڑا احسان کرتے ہوئے ایک قسط جاری کردی جاتی ہے۔ گزشتہ 3 عشروں سے صورتحال اسی طرح جاری و ساری ہے۔ ان تمام باتوں کا خمیازہ پاکستانی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان صرف اپنی زرعی پیداوار پر بھی گہری نظر رکھ لیتا تو بھی کئی معاملات درست ہوسکتے تھے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان نے جتنی گندم درآمد کر ڈالی ساتھ ہی بڑی مقدار میں چینی بھی درآمد کرلی اور بھاری مقدار میں پام آئل کی درآمد بھی کی گئی۔
اگر ان تینوں کی ہی ادا کردہ مالیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ تو ہمارے غلط اندازے، کچھ غلط منصوبہ بندیاں، کچھ درست حکمت عملی کا فقدان اور کئی باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے ایک اہم بدانتظامی بھی ہے۔ ان باتوں کا جائزہ لینے کے لیے پی بی ایس کی تازہ ترین رپورٹ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ جولائی تا مارچ کے دوران 36 لاکھ 12 ہزار 6 سو میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 98 کروڑ33 لاکھ 28 ہزار امریکی ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔
بات صرف 50 کروڑ ڈالر کی تھی جس کے لیے اب اور پہلے سے ہی عوام پر بجلی بم گرائے جا رہے ہیں۔ چند سال قبل تک پاکستان گندم برآمد کرنے والا اہم ملک تھا۔ یہ بات درست ہے کہ مافیاز اتنے طاقتور ہیں کہ ملک میں اکثر اوقات قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اول اسمگلنگ کی بھی روک تھام نہیں ہے، لیکن قلت کے خدشات قیمت بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر جتنی زیادہ درآمدات کرلی گئی اتنی ہی آٹے کی قیمت بھی بڑھتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ مالی برس تک پاکستان چینی درآمد کیا کرتا تھا۔ کپاس کی پیداوار بھی کم رہی کیونکہ کاشتکاروں نے کپاس کی جگہ گنے کی کاشت کو ترجیح دی۔
لیکن چینی کی قیمت بھی بڑھتی رہی۔ حکومت نے ان 9 ماہ کے دوران 2 لاکھ 79 ہزار 5 سو میٹرک ٹن چینی کی درآمد پر 12 کروڑ74 لاکھ 54 ہزار ڈالرز کا زرمبادلہ خرچ کیا۔ جہاں تک پام آئل کی درآمد کی بات ہے تو گزشتہ عرصے میں ایک بار پھر شور بپا ہوا کہ پام آئل کی قلت ہو رہی ہے قیمت بڑھ رہی ہے وغیرہ۔ بہرحال عالمی منڈی میں قیمت بھی بڑھی لیکن ایسا کیا ہوا کہ 9 ماہ کے دوران پاکستان کو گزشتہ 9 ماہ کے مقابلے میں ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن سے زائد اضافی پام آئل کی درآمد کی ضرورت پیش آئی۔
بہرحال جولائی تا مارچ کے دوران 24 لاکھ 43 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر ایک ارب 86 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس طرح گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 22 لاکھ 77 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر ایک ارب 38 کروڑ ڈالرز خرچ کیے گئے تھے۔ بالآخر فرق 48 کروڑ کا رہا اور ہمیں 50 کروڑ کی ضرورت تھی۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ پام آئل کی پیداوار کے وہ منصوبے اور رپورٹس کا دوبارہ جائزہ لینے کے علاوہ زیتون کے تیل کی پیداوار کے لیے جس طرح منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان سب میں تیزی لائی جائے۔
اب بات یہ ہے کہ گندم، چینی اور پام آئل کی اضافی درآمدی مالیت کے اخراجات کو جمع کرتے ہیں تو تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز بنتے ہیں۔ جو ہم اپنی جیب سے صرف اس لیے ادا کر رہے ہیں کہ ہم اپنی زراعت کو درست نہ کرسکے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرسکے۔ آٹے چینی کی بھاری مقدار میں اسمگلنگ نہ روک سکے۔ چینی درآمد کر رہے ہیں لیکن قیمت پھر بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکام نے وعدہ کیا تھا کہ اس رمضان المبارک میں قیمتیں کم ہو کر رہیں گی۔ روپے کی قدر بڑھی ڈالر کی قدر گھٹی لیکن کون سی درآمدی شے ہے جس کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہو۔
بہرحال حکومت تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اس کا آغاز زرعی میدان سے کرے۔ کھیتوں کھلیانوں کے مسائل حل کرے۔ وہ لاکھوں ایکڑ زرخیز زمینیں جو اب ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر قید کردی گئی ہیں۔ جہاں ابھی آبادکاری نہیں ہوئی۔ کہیں تو سوسائٹی مالکان بھی اگلے 10 برس تک آبادکاری کا منصوبہ نہیں رکھتے۔ وہاں زرعی فصلیں اگانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ محکمہ ریلوے کے پاس پھر بھی اتنی زمین ہے کہ صحیح حکمت عملی اور پلاننگ کرلی جائے تو لاکھوں ایکڑ پر لہلہاتے کھیت لگائے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح اسٹیل مل سمیت پاکستان میں سیکڑوں اداروں کے پاس ملا جلا کر لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ وہاں پودے اور باغات بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ ہر طرح کی بھرپور پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی غربت زدہ معیشت جوکہ اب آئی ایم ایف کے قرضوں کا بار بالکل نہیں اٹھا سکتی اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اس کی بنجر زمین کو گل و گلزار بنانا ہوگا۔ اس کے کھیتوں کھلیانوں کو سونے جیسی گندم اگلنے والا خزانہ بنانا ہوگا۔
یہاں کسانوں کو ترغیب دینا ہوگی کہ وہ چاندی جیسے روپہلی ریشوں کی پیداوار سے منہ نہ موڑیں بلکہ کپاس کی گانٹھوں کے اسی طرح انبار لگا دیں جیسے پہلے کبھی پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار کا چوتھا بڑا ملک تھا۔ حیرت کی ایک بات اور یہ بھی ہے کہ پاکستان دودھ کی پیداوار میں پانچواں بڑا ملک ہے لیکن پھر بھی دودھ اس سے بنی غذائی اشیا اور اس سے بنی دیگر غذائی درآمدات پر اب بھی اربوں ڈالر صرف کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جو حل دیے جاتے ہیں بجلی کے نرخ کب تک بڑھاتے رہیں گے۔ آخر کار بڑے ہائیڈرل پراجیکٹ کی طرف جانا ہوگا تاکہ سستی بجلی میسر آئے۔ اس کے ساتھ ہی نہری پانی کی قلت بھی دور ہو۔ ہزاروں سال سے بنجر زمینوں کو زرخیز کرنے کی تدبیر 73 برس میں نکالی نہ جاسکی۔ ہم وقتی طور پر مسائل حل کر رہے ہیں کہ اتنا قرض فلاں سے لے کر خزانہ بھر لیں۔ بعد میں پھر خزانہ خالی ہو جاتا ہے، اگر اپنی زمینوں میں بھرے خزانے کو ہی نکال لیں تو ہمارا خزانہ کبھی خالی نہ ہوگا۔
ادھر گزشتہ ماہ 24 مارچ کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قسط کے اجرا کی منظوری دی جاچکی تھی، لیکن اس کی بھاری قیمت پاکستانی معیشت اور عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے اور آیندہ بھی مزید مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سے جب بھی قسطوں کی وصولی کی مدت قریب آتی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت اور مالیاتی صورتحال کے بارے میں جائزوں کے کئی دور ہوتے ہیں اور بالآخر کئی سخت ترین شرائط اور ہدایات کے ساتھ بہت بڑا احسان کرتے ہوئے ایک قسط جاری کردی جاتی ہے۔ گزشتہ 3 عشروں سے صورتحال اسی طرح جاری و ساری ہے۔ ان تمام باتوں کا خمیازہ پاکستانی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان صرف اپنی زرعی پیداوار پر بھی گہری نظر رکھ لیتا تو بھی کئی معاملات درست ہوسکتے تھے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان نے جتنی گندم درآمد کر ڈالی ساتھ ہی بڑی مقدار میں چینی بھی درآمد کرلی اور بھاری مقدار میں پام آئل کی درآمد بھی کی گئی۔
اگر ان تینوں کی ہی ادا کردہ مالیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ تو ہمارے غلط اندازے، کچھ غلط منصوبہ بندیاں، کچھ درست حکمت عملی کا فقدان اور کئی باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے ایک اہم بدانتظامی بھی ہے۔ ان باتوں کا جائزہ لینے کے لیے پی بی ایس کی تازہ ترین رپورٹ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ جولائی تا مارچ کے دوران 36 لاکھ 12 ہزار 6 سو میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 98 کروڑ33 لاکھ 28 ہزار امریکی ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔
بات صرف 50 کروڑ ڈالر کی تھی جس کے لیے اب اور پہلے سے ہی عوام پر بجلی بم گرائے جا رہے ہیں۔ چند سال قبل تک پاکستان گندم برآمد کرنے والا اہم ملک تھا۔ یہ بات درست ہے کہ مافیاز اتنے طاقتور ہیں کہ ملک میں اکثر اوقات قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اول اسمگلنگ کی بھی روک تھام نہیں ہے، لیکن قلت کے خدشات قیمت بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر جتنی زیادہ درآمدات کرلی گئی اتنی ہی آٹے کی قیمت بھی بڑھتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ مالی برس تک پاکستان چینی درآمد کیا کرتا تھا۔ کپاس کی پیداوار بھی کم رہی کیونکہ کاشتکاروں نے کپاس کی جگہ گنے کی کاشت کو ترجیح دی۔
لیکن چینی کی قیمت بھی بڑھتی رہی۔ حکومت نے ان 9 ماہ کے دوران 2 لاکھ 79 ہزار 5 سو میٹرک ٹن چینی کی درآمد پر 12 کروڑ74 لاکھ 54 ہزار ڈالرز کا زرمبادلہ خرچ کیا۔ جہاں تک پام آئل کی درآمد کی بات ہے تو گزشتہ عرصے میں ایک بار پھر شور بپا ہوا کہ پام آئل کی قلت ہو رہی ہے قیمت بڑھ رہی ہے وغیرہ۔ بہرحال عالمی منڈی میں قیمت بھی بڑھی لیکن ایسا کیا ہوا کہ 9 ماہ کے دوران پاکستان کو گزشتہ 9 ماہ کے مقابلے میں ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن سے زائد اضافی پام آئل کی درآمد کی ضرورت پیش آئی۔
بہرحال جولائی تا مارچ کے دوران 24 لاکھ 43 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر ایک ارب 86 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس طرح گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 22 لاکھ 77 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر ایک ارب 38 کروڑ ڈالرز خرچ کیے گئے تھے۔ بالآخر فرق 48 کروڑ کا رہا اور ہمیں 50 کروڑ کی ضرورت تھی۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ پام آئل کی پیداوار کے وہ منصوبے اور رپورٹس کا دوبارہ جائزہ لینے کے علاوہ زیتون کے تیل کی پیداوار کے لیے جس طرح منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان سب میں تیزی لائی جائے۔
اب بات یہ ہے کہ گندم، چینی اور پام آئل کی اضافی درآمدی مالیت کے اخراجات کو جمع کرتے ہیں تو تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز بنتے ہیں۔ جو ہم اپنی جیب سے صرف اس لیے ادا کر رہے ہیں کہ ہم اپنی زراعت کو درست نہ کرسکے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرسکے۔ آٹے چینی کی بھاری مقدار میں اسمگلنگ نہ روک سکے۔ چینی درآمد کر رہے ہیں لیکن قیمت پھر بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکام نے وعدہ کیا تھا کہ اس رمضان المبارک میں قیمتیں کم ہو کر رہیں گی۔ روپے کی قدر بڑھی ڈالر کی قدر گھٹی لیکن کون سی درآمدی شے ہے جس کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہو۔
بہرحال حکومت تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اس کا آغاز زرعی میدان سے کرے۔ کھیتوں کھلیانوں کے مسائل حل کرے۔ وہ لاکھوں ایکڑ زرخیز زمینیں جو اب ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر قید کردی گئی ہیں۔ جہاں ابھی آبادکاری نہیں ہوئی۔ کہیں تو سوسائٹی مالکان بھی اگلے 10 برس تک آبادکاری کا منصوبہ نہیں رکھتے۔ وہاں زرعی فصلیں اگانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ محکمہ ریلوے کے پاس پھر بھی اتنی زمین ہے کہ صحیح حکمت عملی اور پلاننگ کرلی جائے تو لاکھوں ایکڑ پر لہلہاتے کھیت لگائے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح اسٹیل مل سمیت پاکستان میں سیکڑوں اداروں کے پاس ملا جلا کر لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ وہاں پودے اور باغات بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ ہر طرح کی بھرپور پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی غربت زدہ معیشت جوکہ اب آئی ایم ایف کے قرضوں کا بار بالکل نہیں اٹھا سکتی اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اس کی بنجر زمین کو گل و گلزار بنانا ہوگا۔ اس کے کھیتوں کھلیانوں کو سونے جیسی گندم اگلنے والا خزانہ بنانا ہوگا۔
یہاں کسانوں کو ترغیب دینا ہوگی کہ وہ چاندی جیسے روپہلی ریشوں کی پیداوار سے منہ نہ موڑیں بلکہ کپاس کی گانٹھوں کے اسی طرح انبار لگا دیں جیسے پہلے کبھی پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار کا چوتھا بڑا ملک تھا۔ حیرت کی ایک بات اور یہ بھی ہے کہ پاکستان دودھ کی پیداوار میں پانچواں بڑا ملک ہے لیکن پھر بھی دودھ اس سے بنی غذائی اشیا اور اس سے بنی دیگر غذائی درآمدات پر اب بھی اربوں ڈالر صرف کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جو حل دیے جاتے ہیں بجلی کے نرخ کب تک بڑھاتے رہیں گے۔ آخر کار بڑے ہائیڈرل پراجیکٹ کی طرف جانا ہوگا تاکہ سستی بجلی میسر آئے۔ اس کے ساتھ ہی نہری پانی کی قلت بھی دور ہو۔ ہزاروں سال سے بنجر زمینوں کو زرخیز کرنے کی تدبیر 73 برس میں نکالی نہ جاسکی۔ ہم وقتی طور پر مسائل حل کر رہے ہیں کہ اتنا قرض فلاں سے لے کر خزانہ بھر لیں۔ بعد میں پھر خزانہ خالی ہو جاتا ہے، اگر اپنی زمینوں میں بھرے خزانے کو ہی نکال لیں تو ہمارا خزانہ کبھی خالی نہ ہوگا۔