ایران اور عالمی طاقتوں میں جوہری معاہدہ 20 جنوری سے موثر
معاہدے پر عملدرآمد سے قبل برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس، امریکا سے منظوری ضروری ہے، ترجمان ایرانی وزارت خارجہ
ایران کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے متنازع ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ تاریخی معاہدہ 20 جنوری سے موثر ہو جائے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان مرزح افخم نے بتایا کہ نیوکلیئر معاہدے پر مشترکہ ایکشن پلان پر 20 جنوری سے عملدرآمد شروع ہوجائے گا اور جلد ہی ایران کے چیف نیوکلیئر مذاکرات کار عباس عراقچی پریس کانفرنس کریں گے۔ ایران اور یورپی یونین جمعے کے روز اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ تہران کے نیوکلیئر پروگرام پر معاہدے کو کس طرح لاگو کرنا ہے لیکن اس معاہدے کو موثر ہونے سے قبل ہر رکن ملک کی طرف سے منظور ہونا بھی ضروری ہے جن میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا شامل ہیں۔ ایک دہائی پر مشتمل جوہری مذاکرات گزشتہ سال نومبر میں ایک معاہدے پر پہنچ گئے تھے۔تہران اس بات پر متفق ہوگیا کہ بین الاقوامی پابندیوں میں کچھ نرمی' مغربی طاقتوں کی طرف سے معیشت کیخلاف اقدامات نہ کرنے کے وعدے کے بدلے اس کے نیوکلیئر ڈرائیو کے کچھ حصوں کو روک دیا جائے۔ یورپی ممالک اور اسرائیل نے شبہ کا اظہار کیا تھا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے جبکہ ایران اس بات کی تردید کرتا آ رہا ہے۔
ادھر امریکہ کی طرف سے بھی نیوکیلئر معاہدے کے 20 جنوری سے موثر ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ وائٹ ہائوس نے بھی اس امر کی تصدیق کردی جبکہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس میں ''کوئی شعبدہ بازی نہیں'' اور سب جانتے ہیں کہ کیسے اس جامع قرارداد پر پہنچنا کتنا دشوار تھا' '' 20 جنوری کے شروع ہونے پر ایران پہلی مرتبہ اپنے اعلیٰ سطح کے یورینیم افزودگی کے ذخیرے کو ختم کرنا اور افزودگی کے عمل کیلیے نیوکیلئر پلانٹ کے بنیادی ڈھانچے کو غیر فعال کرنا شروع کرے گا''۔ وائٹ ہائوس سے جاری بیان کے مطابق اوباما نے مزید کہا کہ ''آج کے معاہدے کیساتھ، ہم نے ایک ٹھوس پیش رفت کی ہے' میں اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اب ہم ایران کے جوہری پروگرام پر اپنی تشویش کو مد نظر رکھتے ہوئے معاہدے کے تحت جامع قرارداد کے تحت اہم کام پر توجہ دیں گے' مجھے یہ کہنے میں کوئی تعجب نہیں کہ کس طرح ہم نے اپنی قومی سلامتی اور دنیا کے امن اور سلامتی کی خاطر ایک سخت محنت کے بعد مقصد کو حاصل کیا ہے' اب سفارتکاری کو کامیاب کرنے کیلیے ایک موقع دینے کا وقت آ گیا ہے''۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان مرزح افخم نے بتایا کہ نیوکلیئر معاہدے پر مشترکہ ایکشن پلان پر 20 جنوری سے عملدرآمد شروع ہوجائے گا اور جلد ہی ایران کے چیف نیوکلیئر مذاکرات کار عباس عراقچی پریس کانفرنس کریں گے۔ ایران اور یورپی یونین جمعے کے روز اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ تہران کے نیوکلیئر پروگرام پر معاہدے کو کس طرح لاگو کرنا ہے لیکن اس معاہدے کو موثر ہونے سے قبل ہر رکن ملک کی طرف سے منظور ہونا بھی ضروری ہے جن میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا شامل ہیں۔ ایک دہائی پر مشتمل جوہری مذاکرات گزشتہ سال نومبر میں ایک معاہدے پر پہنچ گئے تھے۔تہران اس بات پر متفق ہوگیا کہ بین الاقوامی پابندیوں میں کچھ نرمی' مغربی طاقتوں کی طرف سے معیشت کیخلاف اقدامات نہ کرنے کے وعدے کے بدلے اس کے نیوکلیئر ڈرائیو کے کچھ حصوں کو روک دیا جائے۔ یورپی ممالک اور اسرائیل نے شبہ کا اظہار کیا تھا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے جبکہ ایران اس بات کی تردید کرتا آ رہا ہے۔
ادھر امریکہ کی طرف سے بھی نیوکیلئر معاہدے کے 20 جنوری سے موثر ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ وائٹ ہائوس نے بھی اس امر کی تصدیق کردی جبکہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس میں ''کوئی شعبدہ بازی نہیں'' اور سب جانتے ہیں کہ کیسے اس جامع قرارداد پر پہنچنا کتنا دشوار تھا' '' 20 جنوری کے شروع ہونے پر ایران پہلی مرتبہ اپنے اعلیٰ سطح کے یورینیم افزودگی کے ذخیرے کو ختم کرنا اور افزودگی کے عمل کیلیے نیوکیلئر پلانٹ کے بنیادی ڈھانچے کو غیر فعال کرنا شروع کرے گا''۔ وائٹ ہائوس سے جاری بیان کے مطابق اوباما نے مزید کہا کہ ''آج کے معاہدے کیساتھ، ہم نے ایک ٹھوس پیش رفت کی ہے' میں اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اب ہم ایران کے جوہری پروگرام پر اپنی تشویش کو مد نظر رکھتے ہوئے معاہدے کے تحت جامع قرارداد کے تحت اہم کام پر توجہ دیں گے' مجھے یہ کہنے میں کوئی تعجب نہیں کہ کس طرح ہم نے اپنی قومی سلامتی اور دنیا کے امن اور سلامتی کی خاطر ایک سخت محنت کے بعد مقصد کو حاصل کیا ہے' اب سفارتکاری کو کامیاب کرنے کیلیے ایک موقع دینے کا وقت آ گیا ہے''۔