غزل
جب تک یہ ترا ذکر کہانی میں نہ آیا
کچھ ربط بھی الفاظ و معانی میں نہ آیا
حالات سے بیگانہ رہا وقت کا دھارا
سو شہر لٹے فرق روانی میں نہ آیا
میں نقدِ وفا لے کے پھرا قریہ بہ قریہ
کچھ ہاتھ مگر اتنی گرانی میں نہ آیا
دنیا سے ہو کیا شکوہ کہ جب یارِ سخن فہم
اک بار بھی آشفتہ بیانی میں نہ آیا
اس عمر کے ڈھلتے ہوئے سورج میں مجھے یاد
جس طرح وہ آیا ہے جوانی میں نہ آیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
عشقا مجھے کب تیرے تقاضوں سے مفر تھا
اک ہاتھ میں دل تھا مرے اک ہاتھ میں سر تھا
روتے ہو فقط اپنے زمیں بوس مکاں کو
اور ایک جو کاٹے ہوئے اِس پیڑ پہ گھر تھا
اِس واسطے سب یاد ہیں افلاک کے رستے
بازو نظر آتا ہے جو اک روز یہ پر تھا
اب بھی جو کوئی شخص نظر آتا ہے مجھ میں
دیوار دکھاتی ہے کہ دیوار میں در تھا
اشکوں سے اتارے گی تو رخسار سے بوسے
مجھ کو اے مسرت اسی تاوان کا ڈر تھا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
رہی شوق کی داستاں مختلف
یہ ظاہر الگ ہے نہاں مختلف
وہ اوروں کی جانب رہے دیکھتے
ہمیں ہو رہا تھا گماںمختلف
مجھے کیسی دنیا میںآنا پڑا
زمیں مختلف ہے زماں مختلف
رہا روح و تن میں یہ جھگڑا مدام
مکیں مختلف ہے مکاں مختلف
تقابل ہے اس کا محبت سے کیا
کہ ساجدؔ ہے کارِ جہاںمختلف
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)
۔۔۔
غزل
مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا
اس کو بھی رنج اتنا زیادہ نہیں ہوا
جب بھی پلٹ کے دیکھاہے لکھا ہے ایک نام
دل کا ورق تو کوئی بھی سادہ نہیں ہوا
اکثر خیالِ یار سے مدہوش ہو لیا
جب اہتمامِ ساغر و بادہ نہیں ہوا
میں نے بھی بات پیار کی بس ہنس کے ٹال دی
اس کی طرف سے بھی کوئی وعدہ نہیں ہوا
مدت سے ایک یاد ہے باہر پڑی ہوئی
زاہدؔ مکان دل کا کشادہ نہیں ہوا
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء ُالدین)
۔۔۔
غزل
دل کے آنگن میں مرے اک سایا سا موجود ہے
گھر تو تیرا ہے مگر اک دوسرا موجود ہے
نیل کا پانی رکا اور یہ گواہی دے گیا
دنیا کے ہر رنگ میں میرا خدا موجود ہے
تھرتھراتی لَو چراغوں کو بتاتی بھی رہی
اب تلک کمرے کے اندرکچھ ہوا موجود ہے
اب تو جاگو وقت مشکل آگیا ہے شہر پر
شہر میں درویش کی اب تک صدا موجود ہے
مل کے مانگی تھی جو داتا کے نگر ہم نے ظہیر
میرے ہونٹوں پر ابھی تک وہ دعا موجود ہے
(ظہیر عباس بھٹی۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے
یہ تو خود چل کے مرے ہاتھ میں آئی ہوئی ہے
تیری فرقت میں مرے زخم ہرے رہتے ہیں
میں نے کمرے میں تری یاد اگائی ہوئی ہے
یہ کہیں پاس بلانے کا اشارہ تو نہیں
کس نے چوٹی پہ وہاں آگ جلائی ہوئی ہے
چونچ میں آب لیے غول پرندوں کے اڑے
کیا خبر کس نے کہاں آگ لگائی ہوئی ہے
مرتے مرتے میں بچا اپنے ہی ہاتھوں مشتاقؔ
آج خود سے مری کچھ ایسی لڑائی ہوئی ہے
(حبیب الرحمان مشتاق۔گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
سب نرالے ہیں ڈھنگ دنیا کے
میں نے دیکھے ہیں رنگ دنیا کے
مختلف ہے مزاج دونوں کا
کیسے چلتا میں سنگ دنیا کے
میں تو گمنام ہونا چاہتا ہوں
دیکھ کر نام و ننگ دنیا کے
کوئی کتنا ہی بچ بچا کے رہے
لگ ہی جاتے ہیں زنگ دنیا کے
میں کشادہ سفر ہوں اے خالدؔ
اور رستے ہیں تنگ دنیا کے
(پروفیسر خالد کھوکھر۔ صادق آباد)
۔۔۔
غزل
مجھے خبر ہے کہ آساں نہیں بھلانامجھے
پہ مشورہ ہے مری جان بھول جانا مجھے
بتارہی ہوں کہ ہر گز نہ آزمانا مجھے
میں آب خو ہوں،کوئی رنگ مت لگانا مجھے
نفیس تن پہ ستارہ سمان چمکوں گی
حریر ہوں میں،کھرا سوت مت بنانا مجھے
کبھی یہ شامِ جدائی جو بوجھ بن جائے
غزل کے نام پہ ہونٹوں سے گنگنانا مجھے
یونہی ستاروں نے کل رات چھیڑ دی وہ کتھا
تمھارا جاگنا اور رات بھر جگانا مجھے
وہی ہوا نا، بھلائے گئے نا آخر کار
تمھیں کہا تھا کہ اتنا نہ یاد آنا مجھے
(فرح گوندل۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
بڑا کٹھن ہے ریاضتوں کا سنبھال رکھنا
یہ پاک جذبے ہیں ان کا عمدہ خیال رکھنا
خزاں رسیدہ یہ جتنے گل ہیں انہیں بچانا
بہار بننا تو ربط ان سے بحال رکھنا
کسی عدو سے نہ مات کھانا جہاں بھی رہنا
کہ اپنے حصے میں تم بھی ایسے کمال رکھنا
عجب نہیں ہے کہ آئنہ تم سے بات کر لے
وفا سے چہرے کو اپنے ہر پل اجال رکھنا
جواب تم سے جفا کا فیاض کوئی مانگے
تو تم بھی اس سے وفا کا اپنی سوال رکھنا
(فیاض تاجور ۔ ملک وال)
۔۔۔
غزل
گو رنگ زہرِ عشق سے کالے ہوئے تو ہیں
میراثِ اہلِ درد سنبھالے ہوئے تو ہیں
تاریکیوں کے اس سے ازالے ہوئے تو ہیں
گھر جل گیا تو کیا ہے اجالے ہوئے تو ہیں
اک بار پھر سے پوچھیے شاید کہ ہو نظر
ورنہ ہمیں وہ حشر پہ ٹالے ہوئے تو ہیں
گو گھر ترا بہشت ہے پر کیا رکیں قدم
لے! ہم بہشت ہی سے نکالے ہوئے تو ہیں
ہم دانت ان کے کیا گنیں عمریں بھی یاد ہیں
یہ لوگ اپنے ہاتھوں کے پالے ہوئے تو ہیں
اقرارِ سوزِ عشق کرے یا نہ وہ کرے
آنکھوں کے گرد اس کے بھی ہالے ہوئے تو ہیں
(شہزاد احمد شاذ کھرل۔جلالپور جٹاں)
۔۔۔
غزل
خواب جلتے ہیں صبح ہونے تک
داغ کھلتے ہیں صبح ہونے تک
مجھ سے ٹوٹے ہوئے کئی تارے
روز ملتے ہیں صبح ہونے تک
کتنے پروانوں کے حسیں نغمے
غم میں ڈھلتے ہیں صبح ہونے تک
ہاں شب ہجر کے تھکے ہارے
جا سنبھلتے ہیںصبح ہونے تک
کٹ ہی جائے گا وحشتوں کا سفر
آئو چلتے ہیں صبح ہونے تک
(فرحانہ عنبر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
کچھ انتظار مجھے اس لیے امام کا ہے
زمیں رحیم کی ہے اور نظام رام کا ہے
کھرچ رہے ہیں یہ اپنے بدن کی مٹی کو
مکاں کو خوف مکینوں کے انہدام کا ہے
میں اپنے عہد کی تہذیب کا حوالہ ہوں
مرا عدو سے تعلق بھی احترام کا ہے
میں آئینے سے شناسا ہوا ہوں حال ہی میں
سو خود سے اب مرا رشتہ دعا سلام کا ہے
میں اس لیے بھی بغاوت پہ زور دیتا ہوں
کہ تاج و تخت پہ قبضہ کسی غلام کا ہے
(احسان شاہ۔ گلگت)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی