طیب اردگان کی خارجہ پالیسی
عمران خان صدر اردگان کی مدح سرائی تو کرتے ہیں مگر اردگان کی پالیسیوں کو سمجھنے اور ملک میں رائج کرنے پر تیار نہیں۔
ترکی کے صدر طیب اردگان اسلام کے وہ مجاہد ہیں جو یورپ اور امریکا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کو سختی سے چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکا میں قدامت پرست عیسائی اسلام کے خلاف غیر حقیقت پسندانہ پروپیگنڈا کرتے ہیں، توہین رسالت کرتے ہیں۔
طیب اردگان ان دو اسلامی ممالک میں شامل ہیں جو فلسطین میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے ہیں۔ ترکی اسلامی ممالک میں پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ 30مئی 2010کو قبرص کے ساحل کے قریب بین الاقوامی سمندر سے 6جہاز فلسطین کے علاقہ میں داخل ہوئے تھے اور اسرائیلی بحریہ نے شدید گولہ باری کر کے کئی افراد کو شہید کردیا تھا۔
طیب اردگان کی حکومت نے اسرائیل سے تعلقات ختم کردیے تھے۔ اسی طرح ترکی کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضہ کے خلاف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ جب دو سال قبل مودی حکومت نے بھارت کے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت دلوانے والی شق 370 کو ختم کیا تھا تو طیب اردگان نے ہر بین الاقوامی فورم پر بھارت کی جارحیت کی مذمت کی تھی اور ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے۔
طیب اردگان نے اگرچہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کی سیکولر آئیڈیولوجی سے اختلاف کیا اور اسلامی روایات کا احیاء کیا، یوں مسلمانوں کو کئی آزادیاں میسر آئیں مگر ترکی میں مساجد ، خانقاہوں اور مزاروں کو ریگولیٹ کرنے کے سخت قوانین نافذ کیے۔ کووڈ 19 کے دوران ترکی کی حکومت نے سخت اقدامات کیے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ترکی میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے مگر گزشتہ دو سال سے کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے حکومت نے سخت اقدامات کیے۔
ترکی میں سحر اور افطار ی کے وقت تمام مساجد، خانقاہیں اور مزارات بند کردیے گئے ہیں اور ماہ رمضان کے دوران ان عبادت گاہوں میں ہر قسم کی عبادت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوں ترکی میں مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہے اور جمعہ کی نماز ، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے خطبہ کا مواد سرکاری طور پر فراہم کیا جاتا ہے اور مساجد کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ معروف بزرگ مولانا روم کے مزار پر بھی ایسی ہی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ طیب اردگان کی جماعت کا نام Adalet ve Kalkinma Partisi (AKP) Justice and Development Party ہے۔ یہ جماعت ترکی کے اسلامی تشخص پر خصوصی طور پر زور دیتی ہے۔ اس جماعت کو دائیں بازو کی قدامت پرست جماعت کہا جاتا ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردگان نے نچلی سطح سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ طیب اردگان کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں میں جکڑا ہوا تھا اور کئی دفعہ قرضوں کی عدم ادائیگی پر Defaultہونے کے قریب پہنچ گیا تھا مگر طیب اردگان نے جامع معاشی اصلاحات کیں، غیر پیداواری اخراجات ختم کیے، ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی کی اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ طیب اردگان کی حکومت نے یورپی ممالک ، اسرائیل اور امریکا سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ڈپلومیسی کے جدید طریقے بروئے کار لائے، یوں فرانس، اسرائیل، برطانیہ، امریکا اور روس وغیرہ سے اچھے تجارتی روابط قائم کیے۔
فرانس میں توہین رسالت کے واقعات کے بعد صدر طیب اردگان نے فرانس کی پالیسی کی زبردست مذمت کی تھی۔ ترکی کے دانشوروں کا کہنا تھا کہ قدامت پرست عیسائی ٹولہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرتا ہے اور ان واقعات کا سدباب ہونا چاہیے ۔ ترکی کے فرانس سے مشرقِ وسطیٰ کے کئی معاملات پر خاصے اختلافات ہیں۔ لیبیا میں دونوں ممالک مخالف عسکری گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان اور فرانس کے صدر میکرون کے درمیان 2مارچ 2021 کو برقیاتی رابطہ قائم ہوا۔ دونوں ممالک نے خطہ میں امن کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ترکی کی وزارت خارجہ کے ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ صدر اردگان نے اپنے ہم منصب فرانسیسی صدر سے کہا کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقدامات پر متفق ہوسکتے ہیں۔ ترکی اس وقت برازیل، روس ،بھارت اور چین کے بعد ابھرتا ہوا صنعتی ملک ہے۔ ترکی جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کے 17بڑے ممالک میں شامل ہے۔
2017میں ترکی کا جی ڈی پی 852بلین ڈالر تھا جس میں گزشتہ برسوں میں معمولی کمی ہوئی ہے، ترکی G20 کے گروپ میں شامل ہے۔ 2013 میں امریکا، جرمنی، ارجنٹینا، آسٹریا، برازیل، چین،انڈونیشیا، فرانس، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، اٹلی، جاپان، کینیڈا، میکسیکو ، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک ترقی کی دوڑ میں باقی ممالک سے بہت زیادہ آگے ہیں۔ ترکی کا ایک تجارتی پارٹنر اسرائیل ہے اور ترکی کی فرانس اور اسرائیل سے گزشتہ دو برسوں میں تجارت میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ترکی اور فرانس میں 2017ء میں تجارت کا حجم 14بلین 657ملین ڈالر تھا جس میں بتدریج 9.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح اسرائیل کے چیمبر آف کامرس کے جاری کردہ اعداد و شمار سے تصدیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل ترکی کو 950بلین ڈالر کی اشیاء برآمد کرتا ہے جس میں اب 39 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس طرح ترکی نے 1.05 بلین ڈالر کی اشیاء اسرائیل کو برآمد کی ہیں جن میں بتدریج 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صدر اردگان نے تعلیم، صحت اور مواصلات کے شعبوں میں زبردست اصلاحات کی ہیں۔اب ترکی میں سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم مفت ہے مگر اب نجی اسکول اور یونیورسٹیاں قائم ہوگئی ہیں جہاں فیس کا معیار زیادہ بلند ہے۔ اسی طرح ترکی میں ہر شہری کو مفت میں طبی سہولتوں حاصل ہیں۔ ملک میں جدید اسپتال موجود ہیں جہاں مریضوں کا اسٹیٹ آف آرٹ علا ج ہوتا ہے۔
مصطفی کمال پاشا نے جو بعد میں کمال اتاترک کہلائے نے 29اکتوبر 1923کو جدید ریاست کی بنیاد رکھی۔ ترکی اسلامی دنیا میں پہلا سیکیولر ملک کہلایا۔ اتاترک نے اپنی قوم کو فکری مغالطوں سے بھی نجات دلوائی۔ انھوں نے مذہب کو ذاتی معاملہ تصور کرتے ہوئے سیاست اور ریاست کو کٹھ ملاؤں سے محفوظ کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ میں ترکی یورپ کابیمار کہلاتا تھا، اب خوش حال ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ علامہ اقبال اور بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کمال اتاترک کے مداحوں میں شامل تھے۔ کمال اتاترک کے انتقال کے بعد ترکی افراتفری کاشکار ہوا۔ فوج نے متعدد بارملک پر قبضہ کیا اور طویل مارشل لاء نافذ کیا۔ مگر طیب اردگان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جمہوری نظام مستحکم ہوا۔ اردگان نے یورپ کے پھیلائے ہوئے اسلامو فوبیا کو بین الاقوامی فورم پر چیلنج کیا مگر اعتدال پسندی کے راستہ پر عمل پیرا رہے، یوںترکی نے اسرائیل، سعودی عرب اور یورپی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کیے۔
یورپی ممالک کی امتیازی پالیسی ترکی کی یورپی یونین میں داخلے کے لیے رکاوٹ ہے مگر صدر اردگان جس اعتدال پسندی اور ڈپلومیسی پر کاربند ہیں وہ وقت جلد آئے گا جب ترکی یورپی یونین کا رکن ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان صدر اردگان کی مدح سرائی تو کرتے ہیں مگر اردگان کی پالیسیوں کو سمجھنے اور ملک میں رائج کرنے پر تیار نہیں۔ دوسری طرف صدر اردگان کو ہیرو کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے مگر صدر اردگان کی خارجہ پالیسی کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ترکی کی طرح جدید ڈپلومیسی کے طریقہ کار کو اختیار کریں یا انتہا پسندی کا راستہ اختیار کریں۔