ایک کلاس روم متعدد ذہانتیں

ایک بچہ اگر پڑھائی میں اچھا ہے تو دوسرا کھیل کود یا دیگر سرگرمیوں میں بہتر ہوسکتا ہے


ہر بچے کی ذہنی استعداد اور صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

UNITED NATIONS, UNITED STATES: اسکول میں جب ہم طلبا سے کسی مضمون کا ٹیسٹ لیتے ہیں تو عموماً تمام طلبا یکساں مارکس حاصل نہیں کرپاتے۔ چند طلبا پورے نمبر لینے میں کامیاب ہوتے ہیں، کچھ صرف پاسنگ مارکس لیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فیل قرار دیے جاتے ہیں۔ انہی موخرالذکر طلبا کو اس طرح کے نتائج کی بنیاد پر کند ذہن، نالائق اور بے کار وغیرہ جیسے تلخ اور نامناسب القابات سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن اگر ان طلبا کا مقابلہ کسی دوسرے شعبے مثلاً کھیل کے میدان میں کروایا جائے تو عین ممکن ہے کہ فیل ہوجانے والے طلبا کی کارکردگی پاس ہونے والے طلبا کے مقابلے میں بہتر ہو۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو اس دفعہ کے نتائج سے ہم کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ ٹیسٹ میں فیل شدہ طالب علم کھیل کے میدان میں ''ذہین'' ہوگئے ہیں؟

دراصل ذہانت ایک وسیع اور تصوراتی چیز ہے، جس کی کسی ایک تعریف پر تمام ماہرین کا اجماع نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ذہانت سے مراد مسائل کو حل کرنے کی اہلیت ہے۔ بعض اسے روزمرہ زندگی کے تجربات سے سیکھنے اور خود کو ڈھالنے کی صلاحیت گردانتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم کسی کی کھوپڑی کا ڈھکنا اٹھائیں اور اندر جھانک کر فیصلہ کرلیں کہ اس شخص میں کتنی ذہانت ہے۔ ماہرین کے مطابق ذہانت کی کئی قسمیں ہیں۔ اس ضمن میں امریکی ماہر نفسیات ہاورڈ گارڈنر نے ایک اچھوتا تصور پیش کیا ہے، جس کی رو سے ذہانت کی درج ذیل آٹھ اقسام ہوتی ہیں:

 
لسانی ذہانت

لسانی ذہانت کے حامل افراد زبان اور الفاظ کا درست استعمال کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ استعمال محض بولنے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ پڑھنا اور لکھنا بھی اس میں شامل ہے۔ ایسے افراد الفاظ میں سوچتے ہیں اور ان کی دلچسپی کا مرکز الفاظ کی بناوٹ، ان کی آواز، معنی اور ان کا استعمال ہوتا ہے۔ لسانی ذہانت رکھنے والے بچے پڑھنے اور لکھنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ لطائف اور کہانیاں سنانا، مختلف اقسام کی ورڈ گیمز کھیلنا، الفاظ کے ہجے کرنا، ریڈیو سننا، نئی زبانیں سیکھنا اور ڈائری لکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ بچے مستقبل میں مصنف، شاعر، صحافی، مقرر، وکیل اور قصہ خواں وغیرہ کی صورت میں معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

 
منطقی ریاضیاتی ذہانت

اس قسم کی ذہانت سے لیس افراد اعداد اور منطق کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ افراد سائنسی سوچ کے مالک ہوتے ہیں اور حسابی عوامل کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی تعلق یا پیٹرن کی عمدہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اس قسم کے طلبا کا پسندیدہ مضمون ریاضی ہوتا ہے اور ان کے مشاغل میں پہیلیاں بوجھنا، علت و معلول (cause and effect) کی کھوج، گنتی کرنا، نئی ایجادات، کیلولیٹر کا استعمال، وقت بتانا، کمپیوٹر یا موبائل پر گیمز کھیلنا، کھلاڑیوں یا ٹیموں کے اسکور و اعدادوشمار جمع کرنا اور اشیاء کی درجہ بندی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ منطقی ریاضیاتی ذہانت رکھنے والے افراد کی مثالیں سائنسدان، انجینئر، اکاؤنٹنٹ، ریاضی دان وغیرہ ہیں۔

 
جسمانی اور حرکیاتی ذہانت

جسمانی اور حرکیاتی ذہانت سے مالامال افراد اپنے پورے جسم یا اس کے کچھ حصوں کو استعمال کرتے ہوئے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے ہاتھوں سے چیزوں کو بنا سکتے ہیں اور انہیں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان میں قوت، لچک، رفتار، توازن، کنٹرول، پھرتی، برداشت اور ہم آہنگی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایسے طلبا مختلف قسم کے ماڈلز بنانے، کھیل کود اور ڈراموں میں حصہ لینے، درختوں پر چڑھنے، انسانوں اور جانوروں کی نقل اتارنے، ٹوٹی اشیاء کی مرمت کرنے، ڈرائنگ اور پینٹنگ کرنے، خطاطی اور سلائی کڑھائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سرجن، ایکٹر، کھلاڑی، مکینک، آرٹسٹ، مجسمہ ساز وغیرہ جسمانی اور حرکیاتی ذہانت رکھنے والے افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

 
بصری اور مکانی ذہانت

اس قسم کے افراد سہ جہتی (3D) سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ذہن میں سہ جہتی تصاویر بنا کر انہیں حرکت دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے افراد کسی کمرے کی اندرونی ترتیب کو فرنیچر اور دیگر سامان اٹھائے بغیر اپنے ذہین میں کئی طرح سے تبدیل کرسکتے۔ ان افراد میں تخیل کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ پکچر اسمارٹ ہوتے ہیں اور تصویروں میں سوچتے ہیں۔ ایسےافراد نقشہ پڑھنے اور غیر مانوس علاقوں میں راستہ ڈھونڈنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ بصری اور مکانی ذہانت رکھنے والے طلبا تصویریں کھینچنے اور ویڈیو بنانے، کمرے کو ترتیب دینے، بلاکس سے سہ جہتی ماڈل بنانے، ڈرائنگ اور پینٹنگ کرنے، مٹی سے مختلف چیزیں بنانے، کاغذ پر کارٹون بنانے اور بصری معمے حل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس ذہانت سے لیس افراد میں آرکیٹیکٹ، موجد، انٹیریئر ڈیزائنر، گائیڈ، شکاری، آرٹسٹ، اینیمیٹر، نقشہ ساز، فلم ڈائریکٹر، گرافک ڈیزائنر وغیرہ شامل ہیں۔

 
موسیقارانہ ذہانت

موسیقارانہ ذہانت کا تعلق آواز کی خصوصیات، اتار چڑھاؤ اور اس کی مختلف اقسام سے ہے۔ اس زمرے میں شامل افراد سر، راگ اور ترنم کے پیٹرن کو پہچان سکتے ہیں اور مختلف آلات موسیقی کو استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسے طلبا سیٹی بجانے، گنگنانے، اور نظمیں وغیرہ گانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ذہانت صرف موسیقی کے آلات بجانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے روزمرہ کے ماحول میں پائی جانے والی مختلف آوازیں، مثلاً پرندوں کی آوازوں سے لے کر لوریاں سنانے تک، بھی اس کے موضوعات ہیں۔ مصنفین اور شعراء اپنے لکھے ہوئے الفاظ اور فقروں کی آواز سے محظوظ ہوتے ہیں۔ موسیقار، گلوگار اور نغمہ ساز وغیرہ اس قسم کے افراد کی مثالیں ہیں۔

 
اندرونی ذاتیاتی ذہانت

اس قسم کی ذہانت کی بدولت ہم اپنی ذاتی تصویرکشی کرسکتے ہیں۔ یہ ذہانت ہمیں اپنی خوبیوں، خامیوں، کمزوریوں، خواہشات اور ضروریات کو پہچاننے اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیتی ہے۔ اس ذہانت سے بھرپور افراد ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے مقاصد کا تعین کرتے ہیں۔ وہ ڈائری لکھتے ہیں، ٹائم ٹیبل بناتے ہیں، مختلف قسم کی لسٹیں تیار کرتے ہیں، خود کی مدد کے موضوع پر لکھی گئی کتب اور رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں، سوانح عمری لکھتے ہیں اور عموماً تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ ماہرنفسیات، سراغ رساں، مصنف، شاعر، اداکار، مشیر اور لیڈر وغیرہ اس گروپ میں شامل ہیں۔

 
عوامی ذہانت

عوامی ذہانت سے مالامال افراد دوسروں کے موڈ، ضروریات اور خواہشات کو باآسانی پڑھ سکتے ہیں اور ان کے مطابق مناسب ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ چہرے کے تاثرات، آواز کے اتار چڑھاؤ اور حرکات و سکنات کو محسوس کرسکتے ہیں اور دوسروں کے نکتہ نظر سے چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے طلبا انتظامی امور میں دلچسپی لیتے ہیں اور گروپس میں رہ کر خوب سیکھتے ہیں۔ استاد، ذہنی صحت کے پروفیشنل، سیلز پرسن، ثالث، معالج، ماہرنفسیات اور سیاستدان وغیرہ عوامی ذہانت کے حامل افراد میں شامل ہیں۔

 
فطری ذہانت

فطری ذہانت کا تعلق پودوں اور جانوروں کی پہچان اور درجہ بندی اور عالم فطرت میں پائے جانے والے قدرتی پیٹرنز کو سمجھنے کی اہلیت سے ہے۔ ایسے افراد قدرتی ماحول کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں، یعنی نیچر اسمارٹ ہوتے ہیں اور قدرتی مظاہر مثلاً بادلوں کا بننا یا پہاڑوں کی ساخت وغیرہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ زمانہ قدیم میں فطری ذہانت کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ انسانوں کو پیٹ بھرنے کےلیے شکار کرنے اور فصلیں اگانے کی ضرورت تھی۔ علاج معالجے کےلیے درکار ادویہ کی تیاری کےلیے پودوں کی ضرورت تھی۔ اور یہ سب کچھ قدرتی ماحول سے متعلق مناسب معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کسان، باغبان، شکاری، ماہر ماحولیات، ماہر نباتیات، ماہر فلکیات اور ماہر موسمیات وغیرہ فطری ذہانت سے لیس افراد کی جماعت میں شامل ہیں۔

یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہاورڈ گارڈنر کے متعدد ذہانتوں کے تصور کو مختلف حلقوں خصوصاً سائنسی کمیونٹی میں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس پر کئی قسم کے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس نظریے نے ماہرین تعلیم اور اساتذہ کی سوچ اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ذہانت کے تصور کو وسعت بخشی ہے۔ اس تصور سے آگاہی کا تقاضا یہ ہے کہ تدریسی عمل کی منصوبہ بندی اور انجام دہی میں طلبا میں پائے جانے والے انفرادی اختلافات کو لازمی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہر بچہ مختلف ہوتا ہے، ہر بچہ خاص ہوتا ہے اور ہر بچہ توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ معلم کو ان کی مدد کرنی چاہیے اور ہر بچے کو اس کی ضروریات کے مطابق توجہ ملنی چاہیے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں روایتی طریقہ تدریس میں عام طور پر لسانی اور منطقی ریاضیاتی اہلیتوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور انہیں کسی طالب علم کی قابلیت اور کامیابی کا اہم ترین جزو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن تدریس کا عمل صرف درسی کتب سے ریڈنگ کرنے اور بلیک/ وائٹ بورڈ پر سوال و جواب لکھنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ جب بھی کسی موضوع کی تدریس کرنی ہو تو تدریس کے مختلف طریقوں کو اپنایا جائے۔ صرف الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ تصاویر، چارٹس، ملٹی میڈیا اور حرکات و سکنات وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے اور طلبا کو تدریس کا مرکز و محور مانتے ہوئے کلاس روم کے اندر اور باہر مناسب درسی سرگرمیوں کی تشکیل بھی کی جائے۔ یوں مختلف ذہانتوں کے حامل طلبا کی مدد کی جاسکتی ہے اور ہر طالب علم سے انفرادی طور پر جڑا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ ہر سبق کی تدریس میں بیک وقت آٹھ قسم کی ذہانتوں کو استعمال کرنے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ تکنیکی اعتبار سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

ہاورڈ گارڈنر کا متعدد ذہانتوں کا نظریہ والدین کےلیے بچے کی اہلیتوں کی معلومات کے سلسلے میں ایک بہترین آلہ ہے۔ اساتذہ کرام کو بھی تدریس کے عمل کو مؤثر اور جامع بنانے اور اس میں جدت اور لچک لانے کےلیے اس نظریے کو استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہمارے ہاتھ میں صرف ہتھوڑی ہوگی تو ہمیں آس پاس کی ساری چیزیں میخ کی مانند نظر آنے لگیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں