ایل او سی پرفائر بندی کی خلاف ورزی کی لیکن اس کا ذمہ دار پاکستان ہے بھارتی آرمی چیف کی سینہ زوری

2014 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مقبوضہ وادی میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے، سربراہ بھارتی فوج


ویب ڈیسک January 13, 2014
مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور یہاں فوج بھی قومی مفاد کے تحت موجود ہے، بکرم سنگھ فوٹو: فائل

بھارتی میڈیا ہو، سیاستدان یاپھر عسکری قیادت، پاکستان کے خلاف واویلا مچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور اگر کبھی ان کا پول کھل جائے تو چوری پر سینہ زوری سے بھی باز نہیں آتے اور یہی کچھ کیا بھارت کے موجودہ آرمی چیف نے جنہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ شوشا بھی چھوڑ دیا کہ پہل پاکستان کی جانب سے کی جاتی ہے۔

نئی دہلی میں سالانہ نیوز بریفنگ کے دوران جنرل بکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا جس کے بعد ایل او سی پر دونوں ممالک کی فوج کے درمیان کشیدگی کافی کم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بہت زیادہ ہوگئی تھی تاہم پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کے بعد صورتحال ایک بار پھر نارمل ہوگئی ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بھارتی فوج جنیوا کنونشن اور انسانی حقوق پر عمل درآمد کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہ ہو۔

جنرل بکرم سنگھ نے علاقے کا چوہدری بنتے ہوئے کہا کہ بھارت سرحدوں پر کشیدگی نہیں چاہتا لیکن پڑوسیوں کی جانب سے غیر قانونی کارروائیوں کو بھی برداشت نہیں کرے گا اور انہیں اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نےلائن آف کنٹرول پر دو روز قبل بھارتی فوج کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر بھی یہ االزام ددھر دیا کہ فوجی اہلکاروں نے کنٹرول لائن پر 3 مبینہ دہشتگردوں کو دیکھا جو سرحد پار کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ایسا جب بھی ہوا بھارتی فوج جواب دے گی۔

جنرل بکرم سنگھ نے وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے مقبوضہ وادی کو بھارت کا حصہ قراردیتے ہوئے کہا کہ یہاں فوج قومی مفاد کے تحت موجود ہے، وادی سے فوجی انخلا کے لئے صحیح وقت کا انتظار کیا جائے تو بہتر ہوگا اور ان کا خیال ہے کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مقبوضہ وادی میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں