کورونا کی سنگین صورت حال

وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے سنگین حالات سے دوچار پڑوسی ملک بھارت کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔


Editorial April 25, 2021
وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے سنگین حالات سے دوچار پڑوسی ملک بھارت کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

MOSCOW: ملک میں کورونا کی صورتحال بے حد تشویشناک ہوگئی ہے، عوام کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے حکومت نے وبائی تاریخ کے فیصلہ کن اقدامات کا اعلان کر دیا ہے اور بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے حکومت نے ایس اوپیز پر عملدرآمد کے لیے فوج طلب کر لی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز قومی رابطہ کمیٹی اجلاس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن افسوس کوئی این سی او سی کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہا، حکومت اب کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی کرے گی، ہم نے پولیس و رینجرز کے علاوہ فوج سے بھی کہا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور عوام سے ایس او پیز پر عمل کرائیں۔

وزیر اعظم نے قوم سے اپیل کی ہے کہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، ماسک ضرور پہنیں بصورت دیگر سخت لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔ ہم بار بار عوام سے کہتے رہے ہیں کہ وہ ایس او پیز پر عمل کریں لیکن لوگ توجہ نہیں دیتے، ماسک پہننے سے آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے، اب وہ اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو بھارت اٹھا رہا ہے، خدانخواستہ اگر بھارت جیسے حالات ہوگئے تو شہروں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔

لاک ڈاؤن سے دکاندار اور فیکٹری مالکان سمیت ہر کوئی متاثر ہوتا ہے لیکن دیہاڑی دار اور غریب طبقہ بالکل پس کر رہ جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے مشورے دیے جا رہے ہیں لیکن ابھی ہم یہ نہیں کر رہے کیونکہ ہمیں معاشرے کے کمزور طبقے کی مشکلات کا احساس ہے، اگر کورونا کیسز بڑھتے گئے تو آخر ہم کب تک لاک ڈاؤن سے بچا سکیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا گزشتہ رمضان المبارک کے دوران عوام نے احتیاط کی جس کی وجہ سے صورتحال بہتر تھی، علما اور آئمہ کرام نے عوام میں ایس او پیز کے حوالے سے شعور اجاگر کیا لیکن اب لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، ہماری معیشت جو کورونا وائرس کے باوجود بہتری کی جانب گامزن تھی ۔

انھوں نے کہا کہ حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے جن جن ملکوں سے ویکسین مل سکتی ہے حاصل کی جائے۔ چین سے بھی ویکسین مانگی ہے لیکن چین پر اور بھی کئی ملکوں کی طرف سے ویکسین فراہمی کے لیے بہت دباؤ ہے اور ویکسین آ بھی جائے تو شہریوں کی ویکسینیشن میں ایک سال کا عرصہ لگے گا، سب سے بہتر اور آسان کام یہ ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں اور ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ عوام میں بھی بیداری کی مہم کا فوری طور پر آغاز کیا جائے، کوئی ہراسمنٹ نہ پھیلے، لوگ پیدا شدہ صورتحال کا اسی جذبہ اور نظم و ضبط کے ساتھ مقابلہ کریں جس کا مظاہرہ وہ اس سے قبل کرچکے ہیں، تاجر برادری کو بتایا تھا کہ ملک سنگین حالات سے گزر رہا ہے، سب کو مل کر اس آفت سے نمٹنا ہے، عید شاپنگ ہو جائے گی، لیکن اس وقت قومی یکجہتی، اتفاق رائے، جذبہ اور قومی ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک بھر کی سماجی تنظیموں کی آزمائش کا وقت ہے، وہ سرکاری اداروں سے زیادہ محنت، جفاکشی اور عوام کی خدمت میں اپنا کردار نبھا سکتے ہیں، حکومت اداروں میں یکجہتی کی مثال پیش کرے، فوج، پولیس رینجرز اور میڈیکل ٹیمیں عوام کی صحت اور ملک کے لیے ایک بہترین ٹیم ورک کا منظرنامہ دنیا کے سامنے پیش کریں، وقت اتحاد، دور اندیشی اور ایثار و رحمدلی اور سخاوت کا ہے، عوام سے رابطہ بڑھایا جائے، حکومت پارٹی کیڈر کو میدان میں لائے۔

وزرا، مشیر اور سیاسی کارکن اداروں کے ساتھ اشتراک اور عملی کاموں میں بے مثال ہم آہنگی کو یقینی بنائیں، کسی قسم کی بھگدڑ، بدنظمی نہیں ہونی چاہیے اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بھرپور اظہار اور والہانہ سخاوت و ہمدردی کے تاریخی کردار کی تصویر پیش کریں، قوم کی توقعات پر پیش آنے کے لیے وقت نے حکومت اور دکھی انسانوں کے مسیحاؤں کو بہترین پرفارمنس کا لازوال موقع دیا ہے، زندگی کے تمام شعبوں کو کھل کر اس خوفناک کورونا سے نمٹنے کی کوششوں میں سرکاری، ریاستی اور سماجی خدمات کے اداروں کا ہاتھ بٹانا چاہیے، اور یہ کام جنگی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے کہا ہے کہ 5 فیصد سے زائد کیسز والے علاقوں میں نویں سے بارہویں جماعت کے لیے بھی اسکولز عید تک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ملک بھر میں تمام مارکیٹیں شام 6 بجے تک کھلیں گی، اس کے بعد صرف انتہائی ضروری اشیا کے کاروبار کی اجازت ہوگی جس کی فہرست جاری کی جائے گی۔

انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر بیماری بڑھتی ہے تو لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے، لوگ ابھی سے عید شاپنگ کرلیں، آخری دنوں کا انتظار نہ کریں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ہم پچھلی کورونا لہر سے بہت زیادہ اُوپر جا چکے ہیں، متاثرہ مریضوں کی شرح10 فیصد سے زیادہ ہے۔ بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں وبا کا پھیلاؤ 20 فیصد تک ہے، اس سے ہیلتھ سسٹم پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔

اس وقت پورے ملک میں 562 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں، بہرحال ضرورت عوام میں شعور بیدار کرنے کی ہے، قوم کو جو مصیبت درپیش ہے اس کا سبب حکومتی ذرایع کے مطابق عوامی افسوسناک طرز عمل ہے، اگر پابندیوں کا ادراک کیا جاتا، لوگ کم از کم ماسک، سماجی فاصلے اور بھیڑ سے گریز کرتے تو ہم ڈینجر زون میں داخلؒ نہ ہوتے، اب بھی وقت ہے کہ قومی ذمے داریوں کی ادائیگی میں کسی تساہل سے کام نہ لیا جائے، عوام کے فہمیدہ حلقوں کا کردار مزید بڑھا ہے، سیاست میں ٹھہراؤ ناگزیر ہے، ملک پر ہولناک حالات ہیں۔

شراکت دار سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنے کی کثیر جہتی کوششوں کو تیز کریں، کوئی سیاسی تناؤ پیدا نہیں ہونا چاہیے، سیاسی اجتماعات کی ممانعت صائب فیصلہ ہے، اجتماعات کم سے کم ہوں، بچوں کو بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے دیں، کورونا ہے یا نہیں ہے کی بحث اب بند ہونی چاہیے، انسانیت ایک آزمائش سے دوچار ہے، غریبوں کو مشکلات کا سامنا ہے، سماجی سطح پر قوم کو جو امداد درکار ہے اس کی فراہمی میں حکومت سے ہر ممکن تعاون کا یہی وقت ہے، ایک ملک گیر ہمدردانہ ماحول کی ضرورت ہے۔

ہم مل کر کورونا کا راستہ روک سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا، جو ادارے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں ان کو کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے، حکومت اپنے لہجہ اور الزام تراشیوں پر بھی کنٹرول کرے، ملک میں تہذیبی فضا کے فروغ کی سخت ضرورت ہے، ٹکراؤ، تناؤ، کشیدگی اور محاذ آرائی کا خاتمہ قومی یکجہتی کے لیے لازمی ہے۔

ماسک کی فراہمی رضاکارانہ طور پر ملک گیر ہونی چاہیے، بجائے سختی اور پولیس کو مضبوط ہونا پڑے کہ وہ ڈنڈا استعمال کرتے ہوئے ہر شہری کو ماسک پہنائے عوام کو خود اس ضرورت کا احساس کرنا چاہیے۔ اسی میں ان کا مفاد اور زندگی کی ضمانت ہے، باہر کورونا کی بلا منہ کھولے پوری دنیا کو چیلنج کر رہی ہے، کوئی محفوظ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیا ہے کہ کورونا کے مریض کا دوسرے سے ملنا حرام ہے۔

بھارت میں کورونا کی نئی لہر نے نظام زندگی مفلوج کر دیا، یومیہ نئے کیسز اور ہلاکتیں ریکارڈ بنا رہی ہیں، جمعہ کو 332730 نئے کیسز اور2263 ہلاکتیں سامنے آئیں جو کہ یومیہ کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آنے کا ریکارڈ ہے، کم رپورٹنگ سے یہ خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، بھارت میں اب تک کورونا سے کل 186920 ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور 2428616 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

دو ماہ قبل وزیر اعظم مودی اور اس کے وزراء عوام کو کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کی نویدیں سنا رہے تھے، دنیا کو اپنی مثال پیش کر رہے تھے، دنیا بھر کو ویکسین کی فروخت کے ریکارڈ سودے کیے جار ہے تھے۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ آنا فاناً ہندوستان کورونا وبا کا گڑھ بن گیا۔ دنیا بھر کے مؤقر جرائد اور اخبارات بھارت میں کورونا کی صورت حال پر تجزیے کر رہے ہیں، ان کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس ڈراؤنا خواب بن گیا ہے، مارچ میں حکومت نے نئے وائرس کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کی گمبھیر صورت حال سے خبر دار کر دیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کورونا سے دنیا بھر میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں کیونکہ لوگوں کو ویکسین نہیں لگائی جا رہی، ان کے ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے اور ان کا مناسب علاج نہیں کیا جا رہا۔ بھارت میں صورت حال انتہائی تشویش خیز ہے یہ تباہ کن یاد دہانی ہے کہ وائرس کیا کر سکتا ہے۔ طبی جریدے ''دی لینسیٹ'' کے مطالعے میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر بھارت میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو جون تک یومیہ 23 سو ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

موجودہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے ناقدین ایک حد تک نئی دہلی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، حکومت نے اقدامات میں سستی دکھائی، حالانکہ ان کے علم میں تھا کہ گزشتہ برس کے آخر سے کورونا کی نئی اور مہلک دوسری لہر ممکن ہے۔ واضح طور پر کہا بھی گیا کہ بھارت صحت عامہ کی کسی ہنگامی صورتحال کی طرف گامزن ہے۔ صحت عامہ کی صورتحال پہلے ہی سنگین ہے اب وہ بیماری اور موت کے بوجھ تلے درہم برہم ہو رہا ہے۔ اسپتالوں میں خطرناک طور پر آکسیجن کم ہے اور مریض بستر بانٹ رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے سنگین حالات سے دوچار پڑوسی ملک بھارت کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ میں عمران خان نے بھارتی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عوام کو کورونا کی خطرناک لہر کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں کورونا متاثرین کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں، جب کہ ہمیں انسانیت کو درپیش عالمی چیلنج کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔