آزادیٔ اظہار اور مکالمہ کا کلچر
عالمی انسانی حقوق کے معاہدے سمیت ہمارے آئین میں بھی آزادی اظہار کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
اپنی بات کرنے کا حق ہر کسی کا سیاسی ، جمہوری اور قانونی حق ہے ۔ یہ حق اسے ہر صورت ملنا چاہیے کہ وہ اپنی بات کرنے میں نہ صرف آزاد ہو بلکہ اس اظہار پر اسے کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کے دباؤ کا سامنا نہ ہو۔مہذب اور ذمے دار معاشروں کو جانچنے کا ایک بنیادی اشاریہ آزادی اظہار کی آزادی اور اس کے ماحول سے جڑی ہوتی ہے۔
دنیا میں سیاست ، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت انسانی حقوق اورمیڈیا کی آزادی سے جڑے فریقین آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر اپنا سیاسی مقدمہ پیش کرتے ہیں ۔ ایسے معاشرے جو عدم جمہوریت، کمزور جمہوریت یا نیم جمہوری معاشروں پر یقین رکھتے ہیں وہاں آزادی اظہار کا مسئلہ زیادہ سنگین نظر آتا ہے ۔ہمارا معاشرہ جو ابھی جمہوریت کے سفر میں ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اسے آزادی اظہار کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔
دنیا میں آج کی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تناظر میں آزادی اظہار پر جب زور دیا جاتا ہے تو اس میں ایک اور بنیادی نکتہ آپ کی سیاسی ، سماجی ، قانونی اوراخلاقی ذمے داری کا بھی ہوتا ہے ۔ یعنی آزادی اظہار کا حق لیکن ذمے داری کے ساتھ۔کیونکہ دنیا بھر میں اظہار کی آزادی کسی بھی صورت میں مادرپدر آزادی نہیں ہوتی ۔آزادی اظہار کسی سیاسی ، سماجی ، قانونی اوراخلاقی دائرہ کار میں ہی ہوتا ہے اوراس کا اعتراف قانونی یا آئینی سطح پر موجود ہوتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ کی آزادی اظہار اسی نکتہ تک ہوسکتی ہے جب آپ اپنے اس اظہار کی بنیاد پر دوسروں کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ۔ ایک بنیادی نکتہ تنقید اور تضحیک کے درمیان ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر ہم تنقید اورتضحیک کے درمیان جو بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اسے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ تنقیدکرنا ایک جمہوری حق ہے اورا س کا مقصد دوسروں کی اصلاح کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔لیکن ہم تنقید کرتے ہوئے ایشوز کی بجائے ذاتیات کا سہارا لے کر ماحول سمیت آزادی اظہار کو منفی بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں ، جو مناسب نہیں ۔
قومی سطح پرایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہم محض اپنے سچ کو ہی مکمل سچ اور دوسرے کے سچ کو جھوٹ پر مبنی سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ہم خیالات کے تبادلے میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کو بھی قبول نہیں کرتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس معاشرہ میں مکالمہ کا کلچر بہت حد تک کمزور اور منفی بنیادوں کا شکار ہوگیا ہے ۔ہم مکالمہ کے کلچر میں اپنی رائے ، سوچ اورفکر یا خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہی بنیاد بنتی ہے جہاں مکالمہ پیچھے رہ جاتا ہے۔
ہمیں آزادی اظہار کے تناظر میں دوسروں کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، عقیدہ ، برادری ، زبان ، کلچر، رسم و رواج ، رہن سہن، لباس سب کو عزت دینی ہے ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر سطح پر مختلف خیالات ، سوچ اور فکر کے لوگ موجود ہیں ان میں اختلافات کے باوجود احترام کا رشتہ اور ایک دوسرے کی بطور انسان قبولیت لازمی جز ہے ۔
یہ مسئلہ محض مذہبی بنیادوں تک محدود نہیںبلکہ ہمارے سیاسی ، سماجی کلچر میں بھی ایک بڑے مسئلہ کے طور پر موجود ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر ہم ایک ایسی سیاسی اور سماجی محاذ آرائی کا حصہ بن گئے ہیں جو لوگوں کے مابین تعلقات کو خرا ب کرنے کا سبب بنتا ہے ۔اسی طرح ایک مسئلہ ہمیں عالمی دنیا کی سطح پر درپیش ہے ۔ مذہبی معاملات یا مذہبی عقائد یا مذہبی راہنماؤں کو بنیاد بناکر تضحیک کرنا بلاوجہ مسلم دنیا میں اشتعال پیدا کرتا ہے۔
آزادی اظہار سے مراد کسی بھی صورت یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اس آزادی کو بنیاد بنا کر جان بوجھ کر دوسروں کے عقائد پر حملہ کرے اوراشتعال پیدا کرکے عالمی ماحول کو تلخ کرے۔ آزادی اظہار سے جڑے تمام عالمی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں یا میڈیا سے جڑے اداروں سمیت بڑی طاقتوں کو اس آزادی اظہار کے نام پر چلنے والے کلچر کے آگے بندباندھنا ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے معاہدے سمیت ہمارے آئین میں بھی آزادی اظہار کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عمل میں جو بھی ریاستی سطح پر رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنا ریاست اور حکومت کا بنیادی فرض بنتا ہے ۔ہمارے آئین کا آرٹیکل 19ہی اسی نکتہ کی ضمانت کے طور پر موجود ہے ۔البتہ اسی شق میں اس ذمے داری کا احساس بھی دلایا گیا ہے کہ ہم اسلام ، دستور، سیکیورٹی ،قومی سلامتی اورخارجہ پالیسی سمیت دوسرے ممالک سے تعلقات کے تناظر میںآئین کی سطح پر موجود آزادی اظہار کے تناظر میں ذمے داری کا مظاہرہ بھی کریں گے ۔
ایک مسئلہ ہمیں اب سوشل میڈیا کی سطح پر موجود ہے ۔ جہاں آزادی اظہار کی بنیاد پر حد سے زیادہ غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا جاہا ہے ۔یہ کام شعوری بنیادوں پر ہورہا ہے اوراس میں ہمارے مخالفین جو عالمی سطح پر ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں اس ایجنڈا کو بنیاد بناکر منفی مہم چلاتے ہیں ۔اسی کو بنیاد بنا کر ہم نے 2020میں اپنے سوشل میڈیا سے جڑے قانون میں تبدیلی کی اورخاص طو رپر ایسی پوسٹ جو سیاسی اور سماجی بنیادوں پر نفرت،تعصب،لسانی اور علاقائی نفرت پر ہو کے بارے میں پالیسی وضع کی اور لوگوں کو ایسے مواد کی تشہیر پر قانون کے سامنے جوابدہ کیا جارہا ہے ۔
یہ کام محض پاکستان میں ہی نہیں ہورہا بلکہ عالمی دنیا میں بڑے ممالک بھی اسی بحران کے تناظر میں سائبر پالسی ، قانون سازی اور کوڈ آف کنڈکٹ وضع کررہے ہیں تاکہ اس کی مدد سے جو نفرت پھیلائی جارہی ہے اس کے آگے بند باندھا جاسکے ۔دنیا میں آزادی اظہار کے ایک معروف اسکالر ڈاکٹر رابرٹ مینارڈ کے بقول''آزادی اظہار کا براہ راست تعلق ہی عملاً ذمے داری کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔''
اس لیے اگر پاکستان نے ایک سیاسی اور جمہوری یا قانون کی حکمرانی کے تابع سمیت ذمے دار یا مہذب معاشرہ بننا ہے تو اسے آزادی اظہار کو نہ صرف ایک بنیادی اصول یا حق کو قبول کرنا ہوگا بلکہ ا س کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار ذمے داری کے ساتھ کو بنیاد بنا کر ایک بڑے سیاسی ، سماجی اورمذہبی یا علمی وفکری بیانیہ کو طاقت فراہم کرنا ہوگی۔
یہ کام تعلیمی اداروں اوربالخصوص نوجوانوں کی سطح پر کرنا ہوگا اوران میں ہر سطح پر یہ احساس دینا ہوگا کہ وہ اپنے کردار اور طرز عمل سے ذمے دار قومی سفیر کے طور پر اپنا کردار ادا کریں ۔میڈیا جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی سطح پر پالیسیوں میں بہتری لانا اوراس کی مدد سے اس بیانیہ کو مضبوط بنانا ہمارا ترجیحی ایجنڈا ہونا چاہیے ۔