زمبابوے کے ہاتھوں بدترین شکست
پاکستان کرکٹ کی لیبارٹری میں بیشتر تجربات ناکام۔
قومی کرکٹ ٹیم ایک ایسی لیبارٹری ہے جس میں تجربات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کی وجہ سے کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آتا۔
سلیکٹرز کی مرضی ہے کہ پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے یا ڈومیسٹک کرکٹ پرفارمرز وکو نظر انداز کرکے پی ایس ایل کے ایک یا دو میچز میں کارکردگی دکھانے والوں کو مواقع دیدیں، سوشل میڈیا پر مقبول فیصلوں کی روایت ڈالنے والے چیف سلیکٹر محمد وسیم کا بطور کرکٹر اپنا پس منظر قابل رشک نہیں، مختصر کیریئر میں کوئی ایسے کارنامے نہیں جو لوگوں کو یاد ہوں۔
انہوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کو سیڑھی بنا کر کرکٹ کے بارے میں تبصرے جھاڑے تو پی سی بی نے ان کو بقراط سمجھ لیا،بورڈ کی امپورٹڈ مینجمنٹ سوشل میڈیا کو خاص اہمیت دیتی ہے،اپنے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر ذریعہ ہو بھی نہیں سکتا، لوگوں کو وہی دیکھنے کو ملتا ہے جو آپ دکھانا چاہتے ہیں، شاید اس پالیسی میں محمد وسیم زیادہ فٹ بیٹھتے تھے، لیپ ٹاپ چیف سلیکٹر کی ہوا میں قلابازیاں اپنی جگہ قومی اسکواڈ کا انتخاب کرتے ہوئے تو کم از کم کنڈیشنز اور حریف ٹیموں کی قوت کو سامنے رکھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے سوشل میڈیا فیورٹس کی ٹیم بنائی۔
مثال کے طور پر آصف علی جیسا ''بریڈمین'' تو اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا مگر طویل عرصہ ٹاپ بولرز کی فہرست میں رہنے کیساتھ بیٹ سے بھی کئی مشکل لمحات میں میچ جتوانے والے عماد وسیم کو محدود صلاحیتوں کا حامل کرکٹر قرار دیکر باہر کردیا گیا، لامحدود صلاحیتوں کے مالک محمد نواز نے بھی ایک آدھ میچ کے سوا سب میں مایوس کیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ میزبان ٹیم ابتدائی دو میچز کے بعد ہی اپنی اصل قوت سے محروم ہوگئی، بہرحال اہم کرکٹرز کی آئی پی ایل کے لیے رخصتی کے باوجود پروٹیز نے مڈل آرڈر اور بولنگ سمیت کئی مسائل آشکار کر دیے، ان میچز میں پاکستان کی فتوحات میں بابر اعظم محمد رضوان اور فخر زمان کے سوا شاید ہی ایک یا دو مواقع ایسے ہوں گے جب دیگر کھلاڑیوں میں سے کسی نے بڑا حصہ ڈالا ہو۔
جنوبی افریقہ کی تیز اور باؤنسی پچز پر فلاپ ہونے والی مڈل آرڈر کے لیے زمبابوے میں کارکردگی بہتر بنانے کا موقع تھا، کنڈیشنز پاکستان سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے امید کی جا رہی تھی کہ بیٹسمین عالمی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں 12ویں نمبر کی ٹیم کے کمزور ترین بولنگ اٹیک کا سامنا کرتے ہوئے اپنا اعتماد بحال کریں گے، چوکے چھکے چھڑاتے ہوئے رنز کے انبار لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اکتوبر، نومبر میں بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے ممکن کمبی نیشن کے حوالے سے بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد ملے گی مگر ٹی ٹوئنٹی سیریز شروع ہوتے ہی ڈھول کا پول کھل گیا۔
زمبابوے کے غیر معروف پیسرز گلین میگرا اور اسپنرز شین وارن نظر آنے لگے،پہلے میچ میں تو محمد رضوان نے لاج رکھ لی، پوری اننگز میں ساتھیوں کی کمی کا شکار رہنے والے اوپنر اگر کسی موقع پر خود بھی ہمت ہار جاتے تو پاکستان ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پاتی،بولرز نے ابتدا میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اچھی لائن و لینتھ کی مدد سے ناتجربہ کار میزبان بیٹنگ لائن پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان بمشکل جیت بھی گیا، دوسرے میچ میں زمبابوے نے گرتے پڑتے 118 رنز کا مجموعہ حاصل کیا۔
پاکستانی شائقین کی بڑی تعداد روزہ افطار کرنے سے قبل قومی ٹیم کی جیت کے لیے دعاؤں کی بجائے اس بحث میں پڑی ہوئی تھی کہ ہدف10 اوورز میں حاصل کرنا چاہیے یا 12میں، بابر اعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا محتاط انداز کیا تو سب منتظر تھے کہ ابھی پچ کو سمجھ رہے ہیں جلد ہی چھکے چھڑانا شروع کردیں گے لیکن یہ موقع کبھی نہیں آیا، وکٹیں گرنا شروع ہوئیں تو کئی نام نہاد میچ ونرز آتے اور جاتے نظر آئے، صرف 6 کے قریب رن ریٹ برقرار رکھنا ہی محال ہوگیا۔
اگر ڈبل باؤنس تھا تو بڑے اور اونچے اسٹروکس کھیلنے کا خطرہ مول لیے بغیر بھی رنز آسانی سے بنائے جاسکتے تھے، بابر اعظم نے یہی انداز اختیار کر رکھا تھا مگر ساتھی بیٹسمینوں نے ٹیسٹ بیٹنگ کرکے ہدف کو پہاڑ بنا لیا، کپتان کی میدان سے رخصتی کے غم میں سب نے وکٹیں گنوادیں، مڈل آرڈر ہو یا آل راؤنڈرز سب نے غیر ذمہ دارانہ اسٹروکس کھیلے، آج پاکستان میچ جیت بھی جائے تو 15مقابلوں کے بعد زمبابوے کے ہاتھوں پہلی شکست کی تلخ یادیں ختم نہیںہوں گی۔
سلو پچ پر کلب سطح کے بولرز کے سامنے جدوجہد کرنے والے یہ بیسٹمین بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بڑی ٹیموں کیخلاف کیا کارکردگی دکھائیں گے، ان سوالوں کے جواب چیف سلیکٹر محمد وسیم کو تلاش کرنا ہیں، زیادہ وقت نہیں بچا، امید ہے کہ وہ اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر ریسرچ شروع کر چکے ہوں گے۔
سلیکٹرز کی مرضی ہے کہ پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے یا ڈومیسٹک کرکٹ پرفارمرز وکو نظر انداز کرکے پی ایس ایل کے ایک یا دو میچز میں کارکردگی دکھانے والوں کو مواقع دیدیں، سوشل میڈیا پر مقبول فیصلوں کی روایت ڈالنے والے چیف سلیکٹر محمد وسیم کا بطور کرکٹر اپنا پس منظر قابل رشک نہیں، مختصر کیریئر میں کوئی ایسے کارنامے نہیں جو لوگوں کو یاد ہوں۔
انہوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کو سیڑھی بنا کر کرکٹ کے بارے میں تبصرے جھاڑے تو پی سی بی نے ان کو بقراط سمجھ لیا،بورڈ کی امپورٹڈ مینجمنٹ سوشل میڈیا کو خاص اہمیت دیتی ہے،اپنے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر ذریعہ ہو بھی نہیں سکتا، لوگوں کو وہی دیکھنے کو ملتا ہے جو آپ دکھانا چاہتے ہیں، شاید اس پالیسی میں محمد وسیم زیادہ فٹ بیٹھتے تھے، لیپ ٹاپ چیف سلیکٹر کی ہوا میں قلابازیاں اپنی جگہ قومی اسکواڈ کا انتخاب کرتے ہوئے تو کم از کم کنڈیشنز اور حریف ٹیموں کی قوت کو سامنے رکھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے سوشل میڈیا فیورٹس کی ٹیم بنائی۔
مثال کے طور پر آصف علی جیسا ''بریڈمین'' تو اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا مگر طویل عرصہ ٹاپ بولرز کی فہرست میں رہنے کیساتھ بیٹ سے بھی کئی مشکل لمحات میں میچ جتوانے والے عماد وسیم کو محدود صلاحیتوں کا حامل کرکٹر قرار دیکر باہر کردیا گیا، لامحدود صلاحیتوں کے مالک محمد نواز نے بھی ایک آدھ میچ کے سوا سب میں مایوس کیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ میزبان ٹیم ابتدائی دو میچز کے بعد ہی اپنی اصل قوت سے محروم ہوگئی، بہرحال اہم کرکٹرز کی آئی پی ایل کے لیے رخصتی کے باوجود پروٹیز نے مڈل آرڈر اور بولنگ سمیت کئی مسائل آشکار کر دیے، ان میچز میں پاکستان کی فتوحات میں بابر اعظم محمد رضوان اور فخر زمان کے سوا شاید ہی ایک یا دو مواقع ایسے ہوں گے جب دیگر کھلاڑیوں میں سے کسی نے بڑا حصہ ڈالا ہو۔
جنوبی افریقہ کی تیز اور باؤنسی پچز پر فلاپ ہونے والی مڈل آرڈر کے لیے زمبابوے میں کارکردگی بہتر بنانے کا موقع تھا، کنڈیشنز پاکستان سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے امید کی جا رہی تھی کہ بیٹسمین عالمی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں 12ویں نمبر کی ٹیم کے کمزور ترین بولنگ اٹیک کا سامنا کرتے ہوئے اپنا اعتماد بحال کریں گے، چوکے چھکے چھڑاتے ہوئے رنز کے انبار لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اکتوبر، نومبر میں بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے ممکن کمبی نیشن کے حوالے سے بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد ملے گی مگر ٹی ٹوئنٹی سیریز شروع ہوتے ہی ڈھول کا پول کھل گیا۔
زمبابوے کے غیر معروف پیسرز گلین میگرا اور اسپنرز شین وارن نظر آنے لگے،پہلے میچ میں تو محمد رضوان نے لاج رکھ لی، پوری اننگز میں ساتھیوں کی کمی کا شکار رہنے والے اوپنر اگر کسی موقع پر خود بھی ہمت ہار جاتے تو پاکستان ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پاتی،بولرز نے ابتدا میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اچھی لائن و لینتھ کی مدد سے ناتجربہ کار میزبان بیٹنگ لائن پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان بمشکل جیت بھی گیا، دوسرے میچ میں زمبابوے نے گرتے پڑتے 118 رنز کا مجموعہ حاصل کیا۔
پاکستانی شائقین کی بڑی تعداد روزہ افطار کرنے سے قبل قومی ٹیم کی جیت کے لیے دعاؤں کی بجائے اس بحث میں پڑی ہوئی تھی کہ ہدف10 اوورز میں حاصل کرنا چاہیے یا 12میں، بابر اعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا محتاط انداز کیا تو سب منتظر تھے کہ ابھی پچ کو سمجھ رہے ہیں جلد ہی چھکے چھڑانا شروع کردیں گے لیکن یہ موقع کبھی نہیں آیا، وکٹیں گرنا شروع ہوئیں تو کئی نام نہاد میچ ونرز آتے اور جاتے نظر آئے، صرف 6 کے قریب رن ریٹ برقرار رکھنا ہی محال ہوگیا۔
اگر ڈبل باؤنس تھا تو بڑے اور اونچے اسٹروکس کھیلنے کا خطرہ مول لیے بغیر بھی رنز آسانی سے بنائے جاسکتے تھے، بابر اعظم نے یہی انداز اختیار کر رکھا تھا مگر ساتھی بیٹسمینوں نے ٹیسٹ بیٹنگ کرکے ہدف کو پہاڑ بنا لیا، کپتان کی میدان سے رخصتی کے غم میں سب نے وکٹیں گنوادیں، مڈل آرڈر ہو یا آل راؤنڈرز سب نے غیر ذمہ دارانہ اسٹروکس کھیلے، آج پاکستان میچ جیت بھی جائے تو 15مقابلوں کے بعد زمبابوے کے ہاتھوں پہلی شکست کی تلخ یادیں ختم نہیںہوں گی۔
سلو پچ پر کلب سطح کے بولرز کے سامنے جدوجہد کرنے والے یہ بیسٹمین بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بڑی ٹیموں کیخلاف کیا کارکردگی دکھائیں گے، ان سوالوں کے جواب چیف سلیکٹر محمد وسیم کو تلاش کرنا ہیں، زیادہ وقت نہیں بچا، امید ہے کہ وہ اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر ریسرچ شروع کر چکے ہوں گے۔