کراچی کے طلبہ نے ملک کا پہلا مائیکرو پراسیسر ڈیزائن کرلیا
مائیکروپراسیسرعثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے انڈر گریجویٹ طلبہ نے ڈیزائن کیے ہیں
ISLAMABAD:
پاکستان نے مائیکروپراسیسرز کی 500ارب ڈالر سے زائد کی گلوبل مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ملک کا پہلا مائیکرو پراسیسر ڈیزائن کرلیا ہے۔
گوگل کے اشتراک سے اوپن سورس ٹیکنالوجیز کو بروئے کارلاتے ہوئے 2 سسٹم آن چپ مائکرو پراسیسرز سوئیٹزرلینڈ میں واقع عالمی ادارے کے تشکیل کردہ اوپن اسٹینڈرڈ انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکٹ RISC-V پر مشتمل ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں پاکستان کی خود انحصاری کی جانب اہم پیش رفت ہے۔
یہ مائیکروپراسیسر پاکستان کی آئی ٹی انجینئرنگ کے تدریسی ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پاکستان کی پہلی مائکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجیز پر ہونے والی تحقیق کا نتیجہ ہے اور پی ایچ ڈی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کی نگرانی میں انڈر گریجویٹ طلبہ نے ڈیزائن کیے ہیں۔ پاکستان میں ڈیزائن کیے گئے یہ مائیکرو پراسیسرز گوگل کے ایک فنڈڈ پروگرام کے تحت ڈیزائن کیے گئے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیزائن ہونے والے 40 اوپن سروس پراسیسرز میں منتخب کیے گئے جو آئندہ ماہ تک چپ کی شکل میں تیار ہوکر پاکستان آجائیں گے اور پاکستان کے پہلے RISC-V مائیکرو پراسیسر ہوں گے۔ اس پراسیسر کو براق کا نام دیا گیا ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے ایک کو ابتداء اور دوسرے کو غازی کا نام دیا گیا ہے یہ پراسیسرز انٹرنیٹ آف تھنگز پر مشتمل سلوشنز کے لیے کار آمد ہوں گے اور مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے طریقوں سے انسانی زندگی آسان بنانے والی برقی مصنوعات، گاڑیوں اور مشینوں میں نصب کیے جاسکیں گے۔
کراچی کے ڈاکٹر علی احمد انصاری
پاکستان میں پہلے مائیکروپراسیسرز کی تیاری کا سہرا کراچی کے نوجوان آئی ٹی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کے سر ہے جنہوں نے دنیا کے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرنے کے مواقع ٹھکراتے ہوئے پاکستان آکر اپنی صلاحیتیں ملک و قوم کے لیے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر علی احمد انصاری نے سندھ ٹیکنیکل بورڈ سے ریڈیو الیکٹرانکس میں صوبہ بھر میں میٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی، ڈی جے سائنس کالج سے پری انجینئنرنگ کرکے این ای ڈی کا رخ کیا جہاں الیکٹرانکس ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی ای الیکٹرانکس کرنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ پر جنوبی کوریا سے الیکٹرانکس اور کمیونی کیشن انجینئرنگ میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ ڈاکٹر علی احمد انصاری ہیلتھ کیئر ایڈوانس سائنس پر تحقیق کے عالمی ادارے Elsevier کے ایڈوائزری پینل کا حصہ ہیں، انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران دو ایجادات اپنے نام کیں اور ٹی وی ایل ایس آئی اور ٹی سی اے ایس جیسی فیلڈز میں ان کے تحقیقی مقابلے عالمی جریدوں کا حصہ بنے۔ انہیں یورپ کے بہترین ٹیلنٹ انویسٹمنٹ کمپنی انٹرپرنیورز فرسٹ کے کو ہورٹ ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا اور برطانیہ نے انہیں گلوبل ٹیلنٹ قرار دیتے ہوئے برطانیہ کا ویزا جاری کیا۔
نئے باب کا آغاز
سیمی کنڈکٹر یا مائیکروپراسیسرز کی عالمی مارکیٹ کا حجم 500ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو آئندہ پانچ سال میں دگنا ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ سے پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز کے لیے اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے کے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز مائکروپراسیسرز کی ویری فکیشن اور ڈیزائننگ کے ذریعے مائکرو پراسیسرز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو خدمات فراہم کرتے ہوئے ماہانہ 3 سے 6لاکھ روپے معاوضہ حاصل کرسکیں گے تاہم آئی ٹی انجینئرز میں یہ پشہ ورانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مکمل ایکو سسٹم کی تشکیل اور موثر ٹولز کے ذریعے تربیت کی فراہمی ناگزیر ہے جس کا آغاز عثمان انسٹی ٹیوٹ کی مائیکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں کیا جاچکا ہے۔
مائیکرو پراسیسرز کی تیاری سرمایہ طلب صنعت
مائیکرو پراسیسرز کی مینوفیکچرنگ ایک کثیر سرمایہ طلب صنعت ہے اس کے برعکس پاکستان کے لیے "فیب لیس ماڈل" زیادہ موزوں ہے جس میں سافٹ ویئر انجینئرز مائیکرو پراسیسرز کی ویریفکیشن اور ڈیزائننگ کرتے ہیں، پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ اور ویری فکیشن کی افرادی مہارت عام ہونے کے بعد دنیا کی مائکروپراسیسرز بنانے والی کمپنیاں پاکستان کا رخ کرسکتی ہیں۔ مائیکرو پراسیسرز کی فیب لیس ماڈل مینوفیکچرنگ ہارڈ ویئر ڈیوائسز اور سیمی کنڈکٹر چپس کی ڈیزائننگ اور فروخت کا وہ طریقہ ہے جس کے تحت مائیکرو پراسیسرز ڈیزائن سیمی کنڈکٹر مینوفیکچررز کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں فاؤنڈری کہا جاتا ہے۔ عموماً فیب لیس کمپنیاں ایپل، ایچ پی، ڈیل اور فیس بک وغیرہ کی اپنی فاؤنڈری یا فیبریکیشن فیسلیٹی نہیں ہے یہ تمام کمپنیاں عالمی لیڈر کا درجہ رکھنے والی تائیوان کی فیکبریکیشن سروس کمپنی ٹی ایس ایم سی اور کوریا کی سام سنگ جیسی کمپنیوں سے استفادہ کرتی ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے بھی یہی طریقہ موزوں ہوگا۔
دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب
دنیا بھر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال گھریلو سطح پر بھی عام ہورہا ہے اب اسمارٹ برقی آلات بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسمارٹ فون سے آپریٹ ہونے والے ایئر کنڈیشنز، مائیکرو ویو اور کنیکٹیڈ ریفریجریٹرز عام ہوچکے ہیں، اسمارٹ ہوم کا تصورگھروں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے محفوظ اور بجلی کے استعمال کے لحاظ سے کفایت بخش بنارہا ہے جبکہ آٹو انڈسٹری میں بھی اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز عام ہورہی ہیں۔ جدید سینسرز سے لیس گاڑیاں مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ یہ تمام اسمارٹ آلات اور مشینری مائکرو پراسیسرز کے بغیر ادھورے ہیں اس لیے دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب بڑھ رہی ہے تاہم اس کے ساتھ سائبر سیکیوریٹی کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں گھروں کے آلات میں نصب مائکرو پراسیسرز کب کسے ڈیٹا ارسال کررہے ہیں کوئی نہیں جانتا اس لیے بیرون ملک سے درآمد ہونیو الے مائکروپراسیسرز جو پاکستان میں استعمال ہورہے ہیں پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں اس لحاظ سے پاکستان میں مقامی سطح پر مائکروپراسیسرز کی ڈیزائننگ سے پاکستان کی ڈیجیٹل سیکیوریٹی کو یقینی بنانے میں مدد ملیگی اس لحاظ سے اس پیش رفت کو پاکستان کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں خود کفالت اور داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی جانب اہم قدم قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
آئی ٹی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ
ڈاکٹر علی احمد انصاری کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے تاہم ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اکیڈمیا اور انڈسٹری میں گہرے اشتراک عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اکیڈمیا کہتی ہے کہ پاکستان میں انڈسٹری نہیں ہے جبکہ انڈسٹری اکیڈمیا پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں آئی ٹی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اس بداعتمادی کے دائرے کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کے طریقے کو بھی تبدیل کرنا ہوگا پاکستان میں روزمرہ زندگی کے مسائل پر مبنی تدریسی طریقے کو فروغ دینا ہوگا اور کورسز کو نتیجہ خیز بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں عالمی سطح پر اوپن سروس پلیٹ فارمز اہم کردار ادا کررہے ہیں ہمیں اپنے طلبہ کو جلد سے جلد ان اوپن سروس ٹیکنالوجیز سے منسلک کرنا ہوگا۔ انہوں نے مستقبل کے انجینئنرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک انجینئر کو مسئلے کا حل فراہم کرنیو الی سوچ اختیار کرنا چاہیے ایک انجینئر کسی مسئل کو انجینئرنگ کے اصولوں پر پرکھتے ہوئے جتنا وقت اس کے حل کے لیے دے گا اتنا ہی اس کا کریئر مضبوط ہوگا خواہ انجینئرز اپنی کمپنی بناکر کام کریں یا کسی دوسری کمپنی میں کام کریں انہیں ہمیشہ مسئلے کو حل کرنے کی اپروچ اختیار کرنا ہوگی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔ انجینئنرز خود کو ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس یا کمپیوٹر تک ہی محدود نہ کریں کیونکہ اب تمام شعبہ باہم منسلک ہوچکے ہیں۔
پاکستان نے مائیکروپراسیسرز کی 500ارب ڈالر سے زائد کی گلوبل مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ملک کا پہلا مائیکرو پراسیسر ڈیزائن کرلیا ہے۔
گوگل کے اشتراک سے اوپن سورس ٹیکنالوجیز کو بروئے کارلاتے ہوئے 2 سسٹم آن چپ مائکرو پراسیسرز سوئیٹزرلینڈ میں واقع عالمی ادارے کے تشکیل کردہ اوپن اسٹینڈرڈ انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکٹ RISC-V پر مشتمل ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں پاکستان کی خود انحصاری کی جانب اہم پیش رفت ہے۔
یہ مائیکروپراسیسر پاکستان کی آئی ٹی انجینئرنگ کے تدریسی ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پاکستان کی پہلی مائکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجیز پر ہونے والی تحقیق کا نتیجہ ہے اور پی ایچ ڈی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کی نگرانی میں انڈر گریجویٹ طلبہ نے ڈیزائن کیے ہیں۔ پاکستان میں ڈیزائن کیے گئے یہ مائیکرو پراسیسرز گوگل کے ایک فنڈڈ پروگرام کے تحت ڈیزائن کیے گئے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیزائن ہونے والے 40 اوپن سروس پراسیسرز میں منتخب کیے گئے جو آئندہ ماہ تک چپ کی شکل میں تیار ہوکر پاکستان آجائیں گے اور پاکستان کے پہلے RISC-V مائیکرو پراسیسر ہوں گے۔ اس پراسیسر کو براق کا نام دیا گیا ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے ایک کو ابتداء اور دوسرے کو غازی کا نام دیا گیا ہے یہ پراسیسرز انٹرنیٹ آف تھنگز پر مشتمل سلوشنز کے لیے کار آمد ہوں گے اور مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے طریقوں سے انسانی زندگی آسان بنانے والی برقی مصنوعات، گاڑیوں اور مشینوں میں نصب کیے جاسکیں گے۔
کراچی کے ڈاکٹر علی احمد انصاری
پاکستان میں پہلے مائیکروپراسیسرز کی تیاری کا سہرا کراچی کے نوجوان آئی ٹی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کے سر ہے جنہوں نے دنیا کے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرنے کے مواقع ٹھکراتے ہوئے پاکستان آکر اپنی صلاحیتیں ملک و قوم کے لیے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر علی احمد انصاری نے سندھ ٹیکنیکل بورڈ سے ریڈیو الیکٹرانکس میں صوبہ بھر میں میٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی، ڈی جے سائنس کالج سے پری انجینئنرنگ کرکے این ای ڈی کا رخ کیا جہاں الیکٹرانکس ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی ای الیکٹرانکس کرنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ پر جنوبی کوریا سے الیکٹرانکس اور کمیونی کیشن انجینئرنگ میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ ڈاکٹر علی احمد انصاری ہیلتھ کیئر ایڈوانس سائنس پر تحقیق کے عالمی ادارے Elsevier کے ایڈوائزری پینل کا حصہ ہیں، انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران دو ایجادات اپنے نام کیں اور ٹی وی ایل ایس آئی اور ٹی سی اے ایس جیسی فیلڈز میں ان کے تحقیقی مقابلے عالمی جریدوں کا حصہ بنے۔ انہیں یورپ کے بہترین ٹیلنٹ انویسٹمنٹ کمپنی انٹرپرنیورز فرسٹ کے کو ہورٹ ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا اور برطانیہ نے انہیں گلوبل ٹیلنٹ قرار دیتے ہوئے برطانیہ کا ویزا جاری کیا۔
نئے باب کا آغاز
سیمی کنڈکٹر یا مائیکروپراسیسرز کی عالمی مارکیٹ کا حجم 500ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو آئندہ پانچ سال میں دگنا ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ سے پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز کے لیے اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے کے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز مائکروپراسیسرز کی ویری فکیشن اور ڈیزائننگ کے ذریعے مائکرو پراسیسرز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو خدمات فراہم کرتے ہوئے ماہانہ 3 سے 6لاکھ روپے معاوضہ حاصل کرسکیں گے تاہم آئی ٹی انجینئرز میں یہ پشہ ورانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مکمل ایکو سسٹم کی تشکیل اور موثر ٹولز کے ذریعے تربیت کی فراہمی ناگزیر ہے جس کا آغاز عثمان انسٹی ٹیوٹ کی مائیکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں کیا جاچکا ہے۔
مائیکرو پراسیسرز کی تیاری سرمایہ طلب صنعت
مائیکرو پراسیسرز کی مینوفیکچرنگ ایک کثیر سرمایہ طلب صنعت ہے اس کے برعکس پاکستان کے لیے "فیب لیس ماڈل" زیادہ موزوں ہے جس میں سافٹ ویئر انجینئرز مائیکرو پراسیسرز کی ویریفکیشن اور ڈیزائننگ کرتے ہیں، پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ اور ویری فکیشن کی افرادی مہارت عام ہونے کے بعد دنیا کی مائکروپراسیسرز بنانے والی کمپنیاں پاکستان کا رخ کرسکتی ہیں۔ مائیکرو پراسیسرز کی فیب لیس ماڈل مینوفیکچرنگ ہارڈ ویئر ڈیوائسز اور سیمی کنڈکٹر چپس کی ڈیزائننگ اور فروخت کا وہ طریقہ ہے جس کے تحت مائیکرو پراسیسرز ڈیزائن سیمی کنڈکٹر مینوفیکچررز کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں فاؤنڈری کہا جاتا ہے۔ عموماً فیب لیس کمپنیاں ایپل، ایچ پی، ڈیل اور فیس بک وغیرہ کی اپنی فاؤنڈری یا فیبریکیشن فیسلیٹی نہیں ہے یہ تمام کمپنیاں عالمی لیڈر کا درجہ رکھنے والی تائیوان کی فیکبریکیشن سروس کمپنی ٹی ایس ایم سی اور کوریا کی سام سنگ جیسی کمپنیوں سے استفادہ کرتی ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے بھی یہی طریقہ موزوں ہوگا۔
دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب
دنیا بھر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال گھریلو سطح پر بھی عام ہورہا ہے اب اسمارٹ برقی آلات بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسمارٹ فون سے آپریٹ ہونے والے ایئر کنڈیشنز، مائیکرو ویو اور کنیکٹیڈ ریفریجریٹرز عام ہوچکے ہیں، اسمارٹ ہوم کا تصورگھروں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے محفوظ اور بجلی کے استعمال کے لحاظ سے کفایت بخش بنارہا ہے جبکہ آٹو انڈسٹری میں بھی اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز عام ہورہی ہیں۔ جدید سینسرز سے لیس گاڑیاں مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ یہ تمام اسمارٹ آلات اور مشینری مائکرو پراسیسرز کے بغیر ادھورے ہیں اس لیے دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب بڑھ رہی ہے تاہم اس کے ساتھ سائبر سیکیوریٹی کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں گھروں کے آلات میں نصب مائکرو پراسیسرز کب کسے ڈیٹا ارسال کررہے ہیں کوئی نہیں جانتا اس لیے بیرون ملک سے درآمد ہونیو الے مائکروپراسیسرز جو پاکستان میں استعمال ہورہے ہیں پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں اس لحاظ سے پاکستان میں مقامی سطح پر مائکروپراسیسرز کی ڈیزائننگ سے پاکستان کی ڈیجیٹل سیکیوریٹی کو یقینی بنانے میں مدد ملیگی اس لحاظ سے اس پیش رفت کو پاکستان کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں خود کفالت اور داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی جانب اہم قدم قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
آئی ٹی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ
ڈاکٹر علی احمد انصاری کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے تاہم ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اکیڈمیا اور انڈسٹری میں گہرے اشتراک عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اکیڈمیا کہتی ہے کہ پاکستان میں انڈسٹری نہیں ہے جبکہ انڈسٹری اکیڈمیا پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں آئی ٹی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اس بداعتمادی کے دائرے کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کے طریقے کو بھی تبدیل کرنا ہوگا پاکستان میں روزمرہ زندگی کے مسائل پر مبنی تدریسی طریقے کو فروغ دینا ہوگا اور کورسز کو نتیجہ خیز بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں عالمی سطح پر اوپن سروس پلیٹ فارمز اہم کردار ادا کررہے ہیں ہمیں اپنے طلبہ کو جلد سے جلد ان اوپن سروس ٹیکنالوجیز سے منسلک کرنا ہوگا۔ انہوں نے مستقبل کے انجینئنرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک انجینئر کو مسئلے کا حل فراہم کرنیو الی سوچ اختیار کرنا چاہیے ایک انجینئر کسی مسئل کو انجینئرنگ کے اصولوں پر پرکھتے ہوئے جتنا وقت اس کے حل کے لیے دے گا اتنا ہی اس کا کریئر مضبوط ہوگا خواہ انجینئرز اپنی کمپنی بناکر کام کریں یا کسی دوسری کمپنی میں کام کریں انہیں ہمیشہ مسئلے کو حل کرنے کی اپروچ اختیار کرنا ہوگی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔ انجینئنرز خود کو ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس یا کمپیوٹر تک ہی محدود نہ کریں کیونکہ اب تمام شعبہ باہم منسلک ہوچکے ہیں۔