میرا پیار اس کے والد اور’غیرت‘ نے ہمیں جدا کردیا
ہم اپنی زندگیاں دوبارہ حاصل کرنے اور اسے اپنی خواہشات اور آرزو کے مطابق گزارنے کی جنگ کے درمیان پھنس گئے تھے۔
ہماری آزمائش شروع ہوگئی تھی۔
اس نے مجھ سے کہا،
اگر کچھ غلط ہوگیا تو؟ ہم برباد ہوجائیں گے،میری پوری زندگی تباہ ہوجائے گی اور شاید وہ مجھے مار دیں گے۔
اگرچہ میں ڈرا ہوا تھا مگر میں نے بہادری سے جواب دیا،
ڈرو مت، اپنا بھروسہ رکھو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
ہم اپنی زندگیاں دوبارہ حاصل کرنے اور اسے اپنی خواہشات اور آرزو کے مطابق گزارنے کی جنگ کے درمیان پھنس گئے تھے۔ دوسرا راستہ جو ہمارے پاس تھا وہ یہ کہ ہم ان قدیم روایات جہاں واحد خواتین ثقافت اور روایت کے نام پر متاثرین تھیں کے نام پر اپنی امیدیں ترک کردیں۔
اس کے والد نے اس کی منزل پر مہر لگا دی تھی، انہوں نے نئی موٹر سائیکل اور نقد رقم کے بدلے میں اسے ایک بدنام زمانہ رشتے دار کو دینے کا وعدہ کیا تھا جو منشیات اور بری حرکتوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔
میں نے تمام طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے مہذب انداز میں اپنے والدین کو اس کا ہاتھ مانگنے کے لئے اس کے گھر بھیجا لیکن اس کے والد اس کی مزاحمت کی کیونکہ گاؤں یا اس کے خانادان میں سے کچھ بدنیت لوگوں نے اس کے والد کو ہماری ٹیلی فون پر بات چیت کے بارے میں بتا دیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ پر میرے والدین کو مسترد کر دیا۔
ہم اب بے چین ہوتے جارہے تھے، وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جارہا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری بے چینی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ہم انتظار کرسکتے تھے اور دیکھ سکتے تھے کہ کیا اس مشکل سے نکلنے کے لئے کوئی قدرتی راستہ ہے یا کوئی ایسا راستہ اختیار کرسکتے تھے کہ جو جانے اور انجانے خطرات سے بھرا ہو۔ ہم جانتے تھے کہ وہاں خاندان کے وقار، خاندانوں کے درمیان تنازعات اور سب سے زیادہ اہم ہماری اپنی جانوں کو لاحق خطرے سمیت ہر طرح کے خطرات موجود تھے۔
ایک دن اس نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے رونا شروع کردیا اور اپنا سارا غبار مجھ پر نکالتے ہوئے مجھ قابل عمل حل نہ نکالنے کا الزام عائد کردیا۔
اس چیز نے مجھے ایک ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کیا جو کہ ہماری زندگیوں کو تبدیل کردے گا۔
ہم نے گاؤں سے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔
ہمارا منصوبہ تھا کہ میں اسے اپنے گاؤں سے دور ایک گاؤں لے جاؤں گا اور ہم وہاں شادی کرکے بعد اپنے خاندان کے ساتھ رہیں گے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ تجویز خطرناک ہے اور جیسے جیسے دن قریب آ رہے تھے ہم دونوں درحقیقت کانپ رہے تھے۔ صرف ایک غلطی، حادثہ، وقت کا غلط حساب یا اگر کسی کا ہمیں بھاگتے ہوئے دیکھ لینے کا مطلب تھا کہ ہم برباد ہوجائیں گے۔
صرف اس کی ماں اور اس کے بھائی کے دل میں میرے لئے نرم گوشہ موجود تھا اور وہ مجھے اس کی دیکھ بھال کرنے کے قابل سمجھتے تھے۔ لیکن وہ اس کے والد جو ایک بے لچک انسان تھا کے خلاف نہیں جاسکتے تھے۔ اس کے والد کی صرف گھر میں آمد اور موجودگی ان کے گھر میں خطرناک خاموشی پیدا کر دیتی تھی ۔
ان کے کاندھے پر ہمیشہ کلاشنکوف لٹکی ہوئی ہوتی اور وہ ایک خانادانی جھگڑے میں 2 معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی بدنام تھے۔
ہم نے اس دن بھاگنے کی منصوبہ بندی کی جس دن انہیں گھر پر نہیں ہونا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تیار ہے اور بلآخر اسے اس کی ماں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی۔
جب میں نے اپنی موٹرسائیکل اس کے گھر کی جانب موڑی اس وقت تقریبا شام ہورہی تھی، میں نے روایتی شال سے میں نے اپنا چہرہ بھی ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کے گھر کے سامنے اپنی موٹرسائیکل روک کر میں نے سکون کا سانس لیا کیونکہ منصوبے کا پہلا قدم مکمل ہوچکا تھا۔ اس کی ماں اس کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھیں اور وہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، آنسوؤں اور سسکیوں کے دمیان اس کی ماں نے مجھ سے اپنی بیٹھی کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کا کہا۔
اور میں نے ان سے اس کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا اور ہم نے انہیں الودع کہا، میں نے اپنی موٹرسائیکل موڑ کر آگے بڑھائی تو ہم نے دیکھا کہ اس کے والد ہماری جانب اے کے 47 تانے کھڑے تھے۔
انہوں نے ہمیں رکنے کا حکم دیا کہا کہ اگر ہم نہیں رکے تو وہ گولی چلا دے گا۔
میں نے خود اپنی جگہ منجمد محسوس کیا لیکن پھر جوش میں تیزی سے یہ سوچ کر اپنی موٹرسائیکل بڑھائی کہ وہ گولی نہیں چلائیں گے۔
بلآخر ایک باپ کس طرح اپنی بیٹی کو گولی مار سکتا ہے؟
وہ مجھے مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے اور میں نےموٹر سائیکل کو تیز سے آگے بڑھا دیا، لیکن ابھی ہم صرف 10 میٹر دور ہی گئے تھے کہ جب میں نے کلاشنکوف سے گولیاں چلنے کی آواز سنی، پھر مجھے اپنی موٹرسائیکل سے کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا۔
مجھے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا، اسے گولی لگی تھی اور وہ موٹرسائیکل سے گر گئی تھی۔
میرا دماغ خوف، افسوس اور درد سے سُن تھا۔
کچھ سوچے بغیر میں موٹرسائیکل چلاتا رہا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا میں اپنے جسم پر موجود اس کا خون محسوس کر سکتا تھا جو کہ میرے کپڑوں پر لگا ہوا تھا۔ اس کا خون ایک بے احساس قاتل کے ہاتھوں بہا جس نے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔
میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ میں نے اپنا سب سے بڑا خواب کھو دیا تھا۔ ایسا شخص جس سے میں اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتا تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مر گئی تھی اور میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں تھا۔
اس واقعے کو گزرے 6 سال ہوچکے ہیں۔ اب میں فرنٹیئر کانسٹیبلری میں ہوں اور اپنی بیوی اور 2 بچوں سمیت بلوچستان میں فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔
مجھے اب بھی وہ یاد ہے، اس کی امیدوں اور خوابوں سے بھری چمکدار آنکھیں تھیں اور اس کی وہ جوشیلی آواز جس سے اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ مجھے اکثر بتاتی تھی کہ وہ ہمارے گھر کو کس طرح سجانا چاہتی تھی، ہمارے کمرے میں وہ کس طرح کا فرنیچر رکھے گی اور میری تنخواہ سے بچت کر کے وہ کون سا بجلی کا سامان خریدے گی۔
یہ وہ چھوٹے چھوٹے خواب تھے جو وہ میرے ساتھ مل کر حقیقت میں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے روایات پرست اور متعصب والد نے اسے اپنی زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا جو یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس کے بچوں کی خوشی صدیوں پرانے معیار اور اصولوں سے زیادہ اہم ہے۔
اس کی ماں، بھائی اور باپ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس دن کیا ہوا اور ان سب لوگوں نے اس کہانی کو راز میں رکھا۔ گاؤں کے تمام لوگ یہ جانتے تھے کہ اس کے والد نے کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے اسے گولی مار دی۔
کسی کی جانب سے اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا، اس کے ماں اب بھی اس درد کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، اس کا بھائی آگے بڑھ گیا ہے اور اس کے باپ نے منافقت سے ایک عورت سے شادی کر لی جو کہ اس کے ساتھ دوسرے گاؤں سے بھاگ کر آئی۔
جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں ایک ڈرپوک اور بھاگ جانے والے انسان کے طور پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔
میں خود کو اس کی موت کا مجرم محسوس کرتا ہوں، لیکن پھر یہی خطرہ تھا جو کہ ہم نے مول لیا تھا۔ وہ اپنی خواہشات اور خوابوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ بدقسمتی سے روایت پرستانہ اور متعصبانہ دور سے آزادی کے حصول کے مقصد کے لئے اس نے اپنی زندگی قربان کردی اور میں نے اپنی محبت کھو دی۔
اس طرح کے حالات میں مذہب آپ کو اپنے بچوں کی پسند اور ترجیحات پر غور کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ درحقیقت یہ اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ بچوں سے مشورہ کرنا چاہئے اور اس طرح کے زندگی کے اہم فیصلوں میں ان کے خیالات کو اہمیت دی جانی چاہئے۔
مجھے تعجب ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بزرگوں اور والدین کی جانب سے غیرت کے نام پر پاکستان میں کتنی ہی خواتین کو خاموش کرایا جاچکا ہے۔ جب کسی کا گناہ صرف محبت میں مبتلا ہوجانا اور اپنی پسند کے کسی فرد سے شادی کرنا ہو تو کتنے ہی جرگے، پنچایتیں اور والدین قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے ہی خون کو موت کی سزا سنا دیتے ہیں؟
یہ پاگل پن کب ختم ہوگا؟
(غیرت کے نام پر قتل پاکستان میں بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین ظالمانہ قبائی روایات اور رسم و رواج کا شکار ہیں۔ یہ کہانی ایک ذاتی واقعے پر مبنی ہے جو میں نے اپنے آبائی علاقے لکی مروت کے مقامی لوگوں سے سنی، بعد میں اسے میں نے اس افسانوی کہانی کے انداز میں تبدیل کیا۔)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس نے مجھ سے کہا،
اگر کچھ غلط ہوگیا تو؟ ہم برباد ہوجائیں گے،میری پوری زندگی تباہ ہوجائے گی اور شاید وہ مجھے مار دیں گے۔
اگرچہ میں ڈرا ہوا تھا مگر میں نے بہادری سے جواب دیا،
ڈرو مت، اپنا بھروسہ رکھو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
ہم اپنی زندگیاں دوبارہ حاصل کرنے اور اسے اپنی خواہشات اور آرزو کے مطابق گزارنے کی جنگ کے درمیان پھنس گئے تھے۔ دوسرا راستہ جو ہمارے پاس تھا وہ یہ کہ ہم ان قدیم روایات جہاں واحد خواتین ثقافت اور روایت کے نام پر متاثرین تھیں کے نام پر اپنی امیدیں ترک کردیں۔
اس کے والد نے اس کی منزل پر مہر لگا دی تھی، انہوں نے نئی موٹر سائیکل اور نقد رقم کے بدلے میں اسے ایک بدنام زمانہ رشتے دار کو دینے کا وعدہ کیا تھا جو منشیات اور بری حرکتوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔
میں نے تمام طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے مہذب انداز میں اپنے والدین کو اس کا ہاتھ مانگنے کے لئے اس کے گھر بھیجا لیکن اس کے والد اس کی مزاحمت کی کیونکہ گاؤں یا اس کے خانادان میں سے کچھ بدنیت لوگوں نے اس کے والد کو ہماری ٹیلی فون پر بات چیت کے بارے میں بتا دیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ پر میرے والدین کو مسترد کر دیا۔
ہم اب بے چین ہوتے جارہے تھے، وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جارہا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری بے چینی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ہم انتظار کرسکتے تھے اور دیکھ سکتے تھے کہ کیا اس مشکل سے نکلنے کے لئے کوئی قدرتی راستہ ہے یا کوئی ایسا راستہ اختیار کرسکتے تھے کہ جو جانے اور انجانے خطرات سے بھرا ہو۔ ہم جانتے تھے کہ وہاں خاندان کے وقار، خاندانوں کے درمیان تنازعات اور سب سے زیادہ اہم ہماری اپنی جانوں کو لاحق خطرے سمیت ہر طرح کے خطرات موجود تھے۔
ایک دن اس نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے رونا شروع کردیا اور اپنا سارا غبار مجھ پر نکالتے ہوئے مجھ قابل عمل حل نہ نکالنے کا الزام عائد کردیا۔
اس چیز نے مجھے ایک ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کیا جو کہ ہماری زندگیوں کو تبدیل کردے گا۔
ہم نے گاؤں سے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔
ہمارا منصوبہ تھا کہ میں اسے اپنے گاؤں سے دور ایک گاؤں لے جاؤں گا اور ہم وہاں شادی کرکے بعد اپنے خاندان کے ساتھ رہیں گے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ تجویز خطرناک ہے اور جیسے جیسے دن قریب آ رہے تھے ہم دونوں درحقیقت کانپ رہے تھے۔ صرف ایک غلطی، حادثہ، وقت کا غلط حساب یا اگر کسی کا ہمیں بھاگتے ہوئے دیکھ لینے کا مطلب تھا کہ ہم برباد ہوجائیں گے۔
صرف اس کی ماں اور اس کے بھائی کے دل میں میرے لئے نرم گوشہ موجود تھا اور وہ مجھے اس کی دیکھ بھال کرنے کے قابل سمجھتے تھے۔ لیکن وہ اس کے والد جو ایک بے لچک انسان تھا کے خلاف نہیں جاسکتے تھے۔ اس کے والد کی صرف گھر میں آمد اور موجودگی ان کے گھر میں خطرناک خاموشی پیدا کر دیتی تھی ۔
ان کے کاندھے پر ہمیشہ کلاشنکوف لٹکی ہوئی ہوتی اور وہ ایک خانادانی جھگڑے میں 2 معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی بدنام تھے۔
ہم نے اس دن بھاگنے کی منصوبہ بندی کی جس دن انہیں گھر پر نہیں ہونا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تیار ہے اور بلآخر اسے اس کی ماں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی۔
جب میں نے اپنی موٹرسائیکل اس کے گھر کی جانب موڑی اس وقت تقریبا شام ہورہی تھی، میں نے روایتی شال سے میں نے اپنا چہرہ بھی ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کے گھر کے سامنے اپنی موٹرسائیکل روک کر میں نے سکون کا سانس لیا کیونکہ منصوبے کا پہلا قدم مکمل ہوچکا تھا۔ اس کی ماں اس کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھیں اور وہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، آنسوؤں اور سسکیوں کے دمیان اس کی ماں نے مجھ سے اپنی بیٹھی کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کا کہا۔
اور میں نے ان سے اس کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا اور ہم نے انہیں الودع کہا، میں نے اپنی موٹرسائیکل موڑ کر آگے بڑھائی تو ہم نے دیکھا کہ اس کے والد ہماری جانب اے کے 47 تانے کھڑے تھے۔
انہوں نے ہمیں رکنے کا حکم دیا کہا کہ اگر ہم نہیں رکے تو وہ گولی چلا دے گا۔
میں نے خود اپنی جگہ منجمد محسوس کیا لیکن پھر جوش میں تیزی سے یہ سوچ کر اپنی موٹرسائیکل بڑھائی کہ وہ گولی نہیں چلائیں گے۔
بلآخر ایک باپ کس طرح اپنی بیٹی کو گولی مار سکتا ہے؟
وہ مجھے مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے اور میں نےموٹر سائیکل کو تیز سے آگے بڑھا دیا، لیکن ابھی ہم صرف 10 میٹر دور ہی گئے تھے کہ جب میں نے کلاشنکوف سے گولیاں چلنے کی آواز سنی، پھر مجھے اپنی موٹرسائیکل سے کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا۔
مجھے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا، اسے گولی لگی تھی اور وہ موٹرسائیکل سے گر گئی تھی۔
میرا دماغ خوف، افسوس اور درد سے سُن تھا۔
کچھ سوچے بغیر میں موٹرسائیکل چلاتا رہا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا میں اپنے جسم پر موجود اس کا خون محسوس کر سکتا تھا جو کہ میرے کپڑوں پر لگا ہوا تھا۔ اس کا خون ایک بے احساس قاتل کے ہاتھوں بہا جس نے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔
میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ میں نے اپنا سب سے بڑا خواب کھو دیا تھا۔ ایسا شخص جس سے میں اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتا تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مر گئی تھی اور میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں تھا۔
اس واقعے کو گزرے 6 سال ہوچکے ہیں۔ اب میں فرنٹیئر کانسٹیبلری میں ہوں اور اپنی بیوی اور 2 بچوں سمیت بلوچستان میں فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔
مجھے اب بھی وہ یاد ہے، اس کی امیدوں اور خوابوں سے بھری چمکدار آنکھیں تھیں اور اس کی وہ جوشیلی آواز جس سے اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ مجھے اکثر بتاتی تھی کہ وہ ہمارے گھر کو کس طرح سجانا چاہتی تھی، ہمارے کمرے میں وہ کس طرح کا فرنیچر رکھے گی اور میری تنخواہ سے بچت کر کے وہ کون سا بجلی کا سامان خریدے گی۔
یہ وہ چھوٹے چھوٹے خواب تھے جو وہ میرے ساتھ مل کر حقیقت میں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے روایات پرست اور متعصب والد نے اسے اپنی زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا جو یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس کے بچوں کی خوشی صدیوں پرانے معیار اور اصولوں سے زیادہ اہم ہے۔
اس کی ماں، بھائی اور باپ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس دن کیا ہوا اور ان سب لوگوں نے اس کہانی کو راز میں رکھا۔ گاؤں کے تمام لوگ یہ جانتے تھے کہ اس کے والد نے کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے اسے گولی مار دی۔
کسی کی جانب سے اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا، اس کے ماں اب بھی اس درد کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، اس کا بھائی آگے بڑھ گیا ہے اور اس کے باپ نے منافقت سے ایک عورت سے شادی کر لی جو کہ اس کے ساتھ دوسرے گاؤں سے بھاگ کر آئی۔
جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں ایک ڈرپوک اور بھاگ جانے والے انسان کے طور پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔
میں خود کو اس کی موت کا مجرم محسوس کرتا ہوں، لیکن پھر یہی خطرہ تھا جو کہ ہم نے مول لیا تھا۔ وہ اپنی خواہشات اور خوابوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ بدقسمتی سے روایت پرستانہ اور متعصبانہ دور سے آزادی کے حصول کے مقصد کے لئے اس نے اپنی زندگی قربان کردی اور میں نے اپنی محبت کھو دی۔
اس طرح کے حالات میں مذہب آپ کو اپنے بچوں کی پسند اور ترجیحات پر غور کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ درحقیقت یہ اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ بچوں سے مشورہ کرنا چاہئے اور اس طرح کے زندگی کے اہم فیصلوں میں ان کے خیالات کو اہمیت دی جانی چاہئے۔
مجھے تعجب ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بزرگوں اور والدین کی جانب سے غیرت کے نام پر پاکستان میں کتنی ہی خواتین کو خاموش کرایا جاچکا ہے۔ جب کسی کا گناہ صرف محبت میں مبتلا ہوجانا اور اپنی پسند کے کسی فرد سے شادی کرنا ہو تو کتنے ہی جرگے، پنچایتیں اور والدین قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے ہی خون کو موت کی سزا سنا دیتے ہیں؟
یہ پاگل پن کب ختم ہوگا؟
(غیرت کے نام پر قتل پاکستان میں بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین ظالمانہ قبائی روایات اور رسم و رواج کا شکار ہیں۔ یہ کہانی ایک ذاتی واقعے پر مبنی ہے جو میں نے اپنے آبائی علاقے لکی مروت کے مقامی لوگوں سے سنی، بعد میں اسے میں نے اس افسانوی کہانی کے انداز میں تبدیل کیا۔)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔