علما نے پنجاب کے نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات نکالنے کی سفارشات مسترد کردیں
اقلیتوں کو اسلامی تعلیمات پڑھنا لازمی نہیں، ایسی سفارشات کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، متحدہ علما بورڈ
متحدہ علماء بورڈ حکومت پنجاب نے نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام نکالنے کی سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی اقلیتی طلباء پر اسلامی مواد پڑھنا اور اس کا امتحان دینا ضروری ہے۔
متحدہ علماء بورڈ کے فل بورڈ اجلاس کے بعد چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ممبران علماء بورڈ علامہ محمد حسین اکبر، ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی، مولانا عبد الحق مجاہد، مولانا عبد الکریم ندیم، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، پروفیسر ذاکر الرحمن، مولانا اسد اللہ فاروق، علامہ زبیر احمد ظہیر، مولانا محمد خان لغاری اور دیگرعلما کرام کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔
علما نے کہا کہ ایک رکنی اقلیتی کمیشن کی سفارشات پر سپریم کورٹ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا اور نہ ہی ان سفارشات کو پنجاب کابینہ میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان سفارشات پر متحدہ علماء بورڈ، اسلامی نظریاتی کونسل یا علماء اسلام کی رائے لی گئی، یہ سفارشات آئین پاکستان اور پاکستان کی اساس کے خلاف ہیں لہذا ان سفارشات پر عمل ممکن ہی نہیں اور ان سفارشات سے ملک میں فتنہ وفساد پیدا ہونے کا خطرہ اور پاکستان کا عالمی سطح پر وقار اور تشخص خراب ہو گا۔
علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ ان سفارشات کو قومی اقلیتی کمیشن بھی مسترد کر چکا ہے اور پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو آئین پاکستان کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں، تاریخ اسلام اور شریعت اسلامیہ سے متعلق نصاب میں موجود مواد کسی بھی صورت کسی بھی اقلیت کی دل آزاری کا سبب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ علماء بورڈ نے ہر لمحہ کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا تحریری یا تقریری مواد جس سے نفرت پھیلتی ہو اور اس سے اسلامی تعلیمات اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہو اس کو نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے، پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا آئین پاکستان اور پاکستان کے مسلمان محافظ ہیں، گزشتہ چھ ماہ کے دوران اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے ہر سطح پر مؤثر کوششیں کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبری مذہب کی تبدیلی سے لے کر توہین ناموس رسالت ؐ کے قانون کے غلط استعمال تک کے معاملات کو دیکھا گیا ہے، الحمدللہ ملک میں کہیں بھی توہین ناموس رسالت ؐ کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے، ایک رکنی اقلیتی کمیشن کی سفارشات پر اقلیتوں کے نمائندے بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
متحدہ علماء بورڈ کے فل بورڈ اجلاس کے بعد چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ممبران علماء بورڈ علامہ محمد حسین اکبر، ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی، مولانا عبد الحق مجاہد، مولانا عبد الکریم ندیم، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، پروفیسر ذاکر الرحمن، مولانا اسد اللہ فاروق، علامہ زبیر احمد ظہیر، مولانا محمد خان لغاری اور دیگرعلما کرام کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔
علما نے کہا کہ ایک رکنی اقلیتی کمیشن کی سفارشات پر سپریم کورٹ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا اور نہ ہی ان سفارشات کو پنجاب کابینہ میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان سفارشات پر متحدہ علماء بورڈ، اسلامی نظریاتی کونسل یا علماء اسلام کی رائے لی گئی، یہ سفارشات آئین پاکستان اور پاکستان کی اساس کے خلاف ہیں لہذا ان سفارشات پر عمل ممکن ہی نہیں اور ان سفارشات سے ملک میں فتنہ وفساد پیدا ہونے کا خطرہ اور پاکستان کا عالمی سطح پر وقار اور تشخص خراب ہو گا۔
علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ ان سفارشات کو قومی اقلیتی کمیشن بھی مسترد کر چکا ہے اور پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو آئین پاکستان کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں، تاریخ اسلام اور شریعت اسلامیہ سے متعلق نصاب میں موجود مواد کسی بھی صورت کسی بھی اقلیت کی دل آزاری کا سبب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ علماء بورڈ نے ہر لمحہ کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا تحریری یا تقریری مواد جس سے نفرت پھیلتی ہو اور اس سے اسلامی تعلیمات اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہو اس کو نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے، پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا آئین پاکستان اور پاکستان کے مسلمان محافظ ہیں، گزشتہ چھ ماہ کے دوران اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے ہر سطح پر مؤثر کوششیں کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبری مذہب کی تبدیلی سے لے کر توہین ناموس رسالت ؐ کے قانون کے غلط استعمال تک کے معاملات کو دیکھا گیا ہے، الحمدللہ ملک میں کہیں بھی توہین ناموس رسالت ؐ کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے، ایک رکنی اقلیتی کمیشن کی سفارشات پر اقلیتوں کے نمائندے بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔