پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ سیاسی نہیں کورونا اعداد و شمار ہیں برطانیہ
ہم نے کورونا سے جنگ کیلئے پاکستان کیلئے 20ملین پاونڈ مختص کیے ہیں، برطانوی ہائی کمشنر
برطانیہ نے پاکستان میں کورونا کیسوں میں اضافے پر 3 اپریل کواسے سفری پابندیوں کی سرخ فہرست میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو نیشنل کمانڈ اینڈآپریشن سینٹرکے سربراہ اسدعمرنے ٹوئٹر پر استفسارکیا کہ کیا یہ فیصلہ سائنس یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پرکیاگیا؟حتی کہ مسلمان برطانوی ارکان پارلیمینٹ نے قراردیا کہ فیصلہ امتیازی ہے نہ کہ اعدادوشمارپرمبنی۔تنقید کی وجہ بھارت ( جسے اب سرخ فہرست میں ڈالا گیا ہے)اور چند دیگریورپی ممالک بنے جہاں کورونا کیسوں کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
اس بنا پر یہ شک پیدا ہوا کہ برطانوی حکومت کے فیصلے کے پیچھے غالباً دیگر مقاصد ہیں۔اس پابندی کے دوہفتوں بعد برطانوی ہائی کمشنر کرسچیئن ٹرنر نے ایکسپریس ٹربیون کو انٹرویو میں بتایا کہ یہ سیاسی فیصلہ نہیں تھا ،اس کی بنیادپاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں موجود اعداد و شمار اور شواہد ہیں ۔انھوں نے وضاحت کی کہ ہم تمام ممالک سے آنے والی پروازوں کے ٹیسٹ کر رہے ہیں ،جس کے ہردوسرے اورآٹھویں روز ہمیں اعدادوشمار میسرآتے ہیں۔
انھوں نے پاکستان کوسرخ فہرست میں ڈالنے کی 3 وجوہات بتائیں۔ پہلی یہ کہ برطانیہ میں مارچ کے دوران سب سے زیادہ پروازیں پاکستان سے آئیںِ،دوسری یہ کہ ان میں کورونا کیسوں کی شرح انتہائی زیادہ تھی جبکہ پاکستان اورجنوبی افریقہ سے آنے والوں کامتغیروائرس زیادہ باعث فکر ہے۔
برطانوی ہائی کمشنر نے زور دیا کہ کسی ملک کو کورونا صورتحال کے باعث سرخ فہرست میں نہیں ڈالا جاتا ''میں صومالیہ ، بھارت اور پاکستان میں کیسوں کی تعداد دیکھ سکتاہوں تاہم سوال برطانیہ آنے والے مسافروں پر ہے۔انھوں نے یہ تاثر رد کردیا کہ فیصلے کا مقصدپاکستان کوسزادینا ہے ۔ انھوں نے یقین دلایا کہ اس کا مطلب پاک ،برطانوی دوستی اور محبت گھٹانا نہیں بلکہ ہم نے کورونا سے جنگ کیلئے پاکستان کیلئے 20ملین پاونڈ مختص کیے ہیں۔
اس بنا پر یہ شک پیدا ہوا کہ برطانوی حکومت کے فیصلے کے پیچھے غالباً دیگر مقاصد ہیں۔اس پابندی کے دوہفتوں بعد برطانوی ہائی کمشنر کرسچیئن ٹرنر نے ایکسپریس ٹربیون کو انٹرویو میں بتایا کہ یہ سیاسی فیصلہ نہیں تھا ،اس کی بنیادپاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں موجود اعداد و شمار اور شواہد ہیں ۔انھوں نے وضاحت کی کہ ہم تمام ممالک سے آنے والی پروازوں کے ٹیسٹ کر رہے ہیں ،جس کے ہردوسرے اورآٹھویں روز ہمیں اعدادوشمار میسرآتے ہیں۔
انھوں نے پاکستان کوسرخ فہرست میں ڈالنے کی 3 وجوہات بتائیں۔ پہلی یہ کہ برطانیہ میں مارچ کے دوران سب سے زیادہ پروازیں پاکستان سے آئیںِ،دوسری یہ کہ ان میں کورونا کیسوں کی شرح انتہائی زیادہ تھی جبکہ پاکستان اورجنوبی افریقہ سے آنے والوں کامتغیروائرس زیادہ باعث فکر ہے۔
برطانوی ہائی کمشنر نے زور دیا کہ کسی ملک کو کورونا صورتحال کے باعث سرخ فہرست میں نہیں ڈالا جاتا ''میں صومالیہ ، بھارت اور پاکستان میں کیسوں کی تعداد دیکھ سکتاہوں تاہم سوال برطانیہ آنے والے مسافروں پر ہے۔انھوں نے یہ تاثر رد کردیا کہ فیصلے کا مقصدپاکستان کوسزادینا ہے ۔ انھوں نے یقین دلایا کہ اس کا مطلب پاک ،برطانوی دوستی اور محبت گھٹانا نہیں بلکہ ہم نے کورونا سے جنگ کیلئے پاکستان کیلئے 20ملین پاونڈ مختص کیے ہیں۔