پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی
پی ڈی ایم کے حامیوں کے نزدیک پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کو نوٹس دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی اور اے این پی سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں، ہم ان کی واپسی کا انتظار کریں گے۔ پی ڈی ایم سے دونوں جماعتوں کے عہدیداروں کے استعفے مولانا فضل الرحمن کو پہنچا دیے گئے ہیں اور پی ڈی ایم کے واٹس ایپ گروپ سے پی پی پی اور اے این پی کے رہنماؤں کو خارج کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل اپنے اجلاس میں بلاول زرداری نے جب پی ڈی ایم کا جاری کردہ شوکاز نوٹس جس کو مولانا نے فیصلوں کی خلاف ورزی پر وضاحت قرار دیا ہے اور اسے آئینی تقاضا کہا تھا کو جب پھاڑا تھا تو وہاں موجود پی پی رہنماؤں نے تالیاں بجا کر اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ 35 سال اور 70 سال کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔
یہ طنز انھوں نے بلاول زرداری کی طرف سے وضاحت طلبی پر پی ڈی ایم سے معافی کے مطالبے پرکیا ، جس کا پی پی رہنماؤں نے برا بھی منایا۔ یوسف رضاگیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کے لیے پی پی قیادت نے بلوچستان عوامی پارٹی سے جو چار ووٹ لیے تھے۔
اس پر پی ڈی ایم کی طرف سے کہا گیا کہ پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے وعدہ خلافی کی اگرگیلانی کے لیے ووٹ لینے تھے میاں نواز شریف سے رابطہ کرکے لیے جاسکتے تھے مگر باپ نے باپ کے کہنے پر یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دیے اور باپ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ چار ووٹ ملنے پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہونے والے یوسف رضاگیلانی نے جواب میں کہا کہ حکومت کو جہاں ہماری مدد کی ضرورت ہوگی وہاں ہم مدد فراہم کریں گے۔
ممکن تھا کہ اگر یوسف رضاگیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہو جاتے تو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو مل جاتا اور پی ڈی ایم سے پی پی کو شوکاز نوٹس جاری ہوتا نہ پی ڈی ایم میں ایک عہدے پر جھگڑا شروع ہوتا۔ چیئرمین شپ نہ ملنے پر پی پی کو دکھانا تھا کہ وہ اپوزیشن کی سینیٹ میں بڑی جماعت ہے۔
اس لیے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرکا عہدہ پی پی کو ملنا چاہیے کیونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جو پی پی کی حمایت سے مسلم لیگ (ن) کو ملا تھا۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) یوسف رضاگیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نہیں مانتی تو ہم قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور حکومتی حلقے خوش ہیں کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے والے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر لڑ پڑے ہیں اور اپوزیشن میں اپوزیشن بن گئی ہے اور حکومت کے خلاف بیان بازی کرنے والے اب ایک دوسرے کے خلاف گولا باری کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک پی ڈی ایم ختم ہوگئی ہے۔
پی ڈی ایم کے حامیوں کے نزدیک پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کو نوٹس دینا ہی نہیں چاہیے تھا بلکہ یہ مسئلہ اپنے کسی اجلاس میں طے کر لینا چاہیے تھا تاکہ یہ جھگڑا ہی شروع نہ ہوتا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں پی ٹی آئی کے ایک مہمان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن)، پی پی یا جے یو آئی کے مہمان حکومت کے خلاف ایک زبان بولتے تھے جس سے پی ٹی آئی کا گھیراؤ ہوتا تھا اور ان کے مقابلے میں پی ڈی ایم کو بولنے کا موقعہ بھی زیادہ ملتا تھا۔ پی ڈی ایم کے لڑنے سے پی ٹی آئی کو درپیش یہ مسئلہ خود ہی حل ہو گیا اور حکومتی حلقے اس پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
شوکاز نوٹس کو اب آئینی وضاحت قرار دینا پی ڈی ایم کے بھی گلے پڑ گیا ہے اور پی پی کو بھی ان پر تنقید کا موقعہ مل گیا ہے اور اب پی پی پی اور پی ڈی ایم کے رہنما بچوں کی طرح بیان بازی کر رہے ہیں۔ پی پی رہنما قمر زمان کائرہ کو سنجیدہ رہنما سمجھا جاتا ہے، اب ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف بغیر بتائے باہر گئے جس پر ہم نے تو نوٹس نہیں دیا۔
پی پی رہنما بھول گئے کہ اس وقت تو پی ڈی ایم وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ کائرہ کو اب پی ڈی ایم کے جنرل سیکریٹری شاہد خاقان عباسی پر بھی اعتراض ہے جو اپنی پارٹی کے سینئر نائب صدر بھی ہیں۔ پی پی کے رویے پر شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے بیانات بھی غیر ذمے دارانہ ہیں جنھوں نے مولانا کی طرح دانش مندی نہیں دکھائی، شاید وہ چاہتے ہی یہی تھے۔ اب پی پی تنہا پرواز کرے گی، حکومت کا بھی ساتھ دے گی، فائدے اٹھائے گی اور پی ڈی ایم میں واپس نہیں آئے گی۔