مالی سال 20ء کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 44ارب ڈالر تھا اسٹیٹ بینک
مرکزی بینک اور حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3ارب ڈالر سے کم قرار دیا تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گذشتہ مالی سال کا حقیقی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.44ارب ڈالر رہا۔
گزشتہ ہفتے اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کی گئی ادائیگیوں کے توازن کی سمری کے مطابق مالی سال 2019-20 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.44 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کے 1.7 فیصد کے مساوی ہے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ بیانات کے مطابق گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13.4 ارب ڈالر سے کم ہوکر 3ارب ڈالر سے بھی نیچے چلاگیا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی رواں ماہ جاری کردہ رپورٹ میں حکومت کے توسط سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 3 ارب ڈالر ہی بیان کیا ہے۔
توازن ادائیگی کی سمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبل ازیں اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2019-20 کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ غلط رپورٹ کیا تھا۔ اس کی وجہ درآمدات، اور سرکاری قرضوں کے اعدادوشمار درست رپورٹ نہ ہونا تھا۔
ابتدائی اور نظرثانی شدہ اعدادوشمار میں 50فیصد کا فرق غیرمعمولی ہے جوحکومت کے ڈیٹا رپورٹنگ مکینزم پر نظرثانی اور ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
ایک اعلیٰ وفاقی افسر کے مطابق یہ فرق ڈیٹا کو یکجا کرنے کے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ فارن ٹرانزیکشن کی غلط رپورٹنگ کے باعث آیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس معاملے پر اسٹوری فائل کرنے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
گزشتہ ہفتے اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کی گئی ادائیگیوں کے توازن کی سمری کے مطابق مالی سال 2019-20 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.44 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کے 1.7 فیصد کے مساوی ہے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ بیانات کے مطابق گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13.4 ارب ڈالر سے کم ہوکر 3ارب ڈالر سے بھی نیچے چلاگیا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی رواں ماہ جاری کردہ رپورٹ میں حکومت کے توسط سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 3 ارب ڈالر ہی بیان کیا ہے۔
توازن ادائیگی کی سمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبل ازیں اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2019-20 کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ غلط رپورٹ کیا تھا۔ اس کی وجہ درآمدات، اور سرکاری قرضوں کے اعدادوشمار درست رپورٹ نہ ہونا تھا۔
ابتدائی اور نظرثانی شدہ اعدادوشمار میں 50فیصد کا فرق غیرمعمولی ہے جوحکومت کے ڈیٹا رپورٹنگ مکینزم پر نظرثانی اور ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
ایک اعلیٰ وفاقی افسر کے مطابق یہ فرق ڈیٹا کو یکجا کرنے کے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ فارن ٹرانزیکشن کی غلط رپورٹنگ کے باعث آیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس معاملے پر اسٹوری فائل کرنے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔