رحمت للعالمین ﷺ

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

نبی پاکؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ فوٹو : فائل

رسول مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات طیبہ میں متعدد نشیب وفراز نظر آتے ہیں۔

دنیا کے اس سب سے بڑے انسانؐ کی سیرت مبارکہ بے شمار خصوصیات سے آراستہ ہے۔ آپ ؐ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے۔ پہلے اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کی کفالت میں رہے، پھر ان کے وصال کے بعد اپنے چچا حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں آئے، مگر یہاں بھی غربت اور ناداری آپؐ کے ساتھ رہی۔ عین جوانی یعنی پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوگئی۔ اس کائنات کے خالق نے آپ ؐ کو اپنا آخری نبیؐ منتخب کرکے نبوت کے منصب سے سرفراز کیا۔ یہ وہ عظیم منصب تھا جس کے سامنے کائنات کی بڑی سے بڑی دولت بھی بیکار تھی۔ مگر اس اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہی ہر طرف سے مخالفین اور دشمنوں نے رسول عربیﷺ کو گھیرلیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قریبی عزیز بھی مخالف ہوگئے۔ لیکن آپؐ اﷲ کے حکم سے ہر تکلیف اور مشکل برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ اﷲ کے حکم پر آپؐ نے دین کی خاطر اپنے عزیز وطن مکے کو چھوڑ کر مدینے کا رخ کیا۔ مدینے میں اﷲ تعالیٰ نے اس منصب کی تکمیل کا سامان مہیا کیا جس کے لیے آپؐ مبعوث فرمائے گئے تھے۔ پھر کیا تھا، ہر طرف اﷲ کی وحدانیت اور رسالت کی حقانیت کا پیغام گونجنے لگا اور اس نعرۂ توحید و رسالت سے قیصر و کسریٰ کے ایوان بھی گونج اٹھے۔

رسول کریمﷺ کی حیات طیبہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ دنیا کے ہر معاملے میں معیار کی آخری اور ناقابل یقین حد پر فائز نظر آتے ہیں۔ رسول عربیؐ کی سیرت مبارکہ کے چند خاص پہلو ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:

٭ عام زندگی
سرور عالم ﷺ کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی تھی، لیکن اس بے مثال زندگی کا سب سے اہم پہلو سادگی تھا۔ غرور اور تکبر آپؐ کو چھوکر بھی نہیں گزرا تھا۔ آپؐ بہ وقت ولادت ہی یتیم تھے، اس لیے ابتداء سے ہی آپؐ میں انکساری تھی۔ بعد میں مکے سے مدینے ہجرت کی تو آپ ؐ کی زندگی میں قدرے سکون ہوا، مگر اس موقع پر بھی آپؐ میں سادگی اور انکساری برقرار رہی۔ آپؐ اسلامی سلطنت کے بانی ہونے کے باوجود اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے تھے۔ اپنے لباس خود سی لیتے، اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے، کسی خادم کو تکلیف نہیں دیتے تھے۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر کے موقع پر آپؐ نے معمولی مزدوروں کی طرح اینٹیں اٹھائی تھیں۔

غزوۂ خندق کے موقع پر آپؐ نے خندق کھودنے میں سب لوگوں کا ساتھ دیا تھا۔ دنیا میں بڑے سے بڑے ملک کے کسی بھی سربراہ کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس نے ایسی سادہ زندگی گزاری ہو۔ حقیقت یہ ہے سادگی کی یہ خصوصیت اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺکی ذات بابرکت کے لیے مخصوص فرمائی تھی جس کی اصل وجہ سخاوت، ایثار و قربانی، ہم دردی اور فراخ دلی تھی۔ نبی کریمؐ کو نہ راحت جسمانی کی پروا تھی اور نہ دنیا سے کوئی رغبت تھی۔

٭ رسولؐ پاکﷺ کی غذا
اﷲ کے نبیﷺ نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں دنیا کے لیے ایک مکمل نمونہ پیش کیا۔ آپؐ کا کھانا بھی سادہ ہوتا تھا۔ ویسے تو اکثر کاشانہ نبوت میں فاقے ہوتے تھے، لیکن جب کھانے کو کچھ ہوتا تو جو کی روٹی ہوتی تھی۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی آخرالزماںؐ نے عمر بھر چھنے ہوئے باریک آٹے کی روٹی تناول نہیں فرمائی تھی۔ تاج دار انبیا ﷺ نے کبھی کسی کھانے کو برُا نہیں کہا، جو کچھ سامنے موجود ہوتا، اﷲ کا شکر ادا کرکے کھالیتے تھے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ''آپؐ کی زندگی میں آپؐ اور آپؐ کے اہل و عیال کو پیٹ بھر کر جو کی روٹی بھی متواتر دو دن تک نہیں ملی۔ بعض دفعہ تو ایک ایک مہینے تک گھر میں چولہا نہیں جلا۔ صرف کھجور اور پانی پر گذارہ ہوتا تھا۔''

٭ اﷲ کے رسولؐ ﷺکا لباس اور بستر
رسول کریمؐ عام طور لباس میں قمیص، چادر، تہبند اور عمامہ استعمال فرماتے تھے۔ یہ لباس بھی معمولی قسم کے کپڑے کا ہوتا تھا۔ تاج دار انبیا ﷺ کا بستر ٹاٹ کا ہوتا تھا جس پر آپؐ آرام فرماتے تھے۔



٭ مال غنیمت میں حصہ
نبی ﷺ کا طریقہ تھا کہ غزوات سے مال غنیمت کے طور پر جو کچھ آتا، اس میں سے خود کچھ نہیں لیتے تھے، بلکہ سب کچھ اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے تھے۔

٭قول و فعل اور رویہ
امام الانبیاءﷺ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ آپؐ بہ ظاہر جو نظر آتے تھے، حقیقتاً وہی اندر سے تھے۔ آپؐ کا جو رویہ گھر سے باہر اپنے صحابہؓ کے ساتھ تھا، وہی گھر کے اندر غلاموں اور اہل خانہ کے ساتھ تھا۔ کہیں کوئی امتیاز اور فرق دکھائی نہیں دیتا تھا۔


٭ایک مہربان اور شفیق ہستی
نبی آخرالزماںﷺکی پوری زندگی رحمت سے عبارت تھی۔ آپؐ نے کبھی اپنے دشمن کو بھی برا بھلا نہیں کہا، نہ کسی کو گالی دی اور نہ لعنت یا ملامت کی۔ اﷲ کے رسولﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی مہربان اور شفیق تھے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، ان پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، انھیں گود میں بٹھاتے۔ شیرخوار بچوں کی تکلیف کے خیال سے اپنی نماز مختصر فرمادیتے تھے۔

نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ میں لمبی نماز پڑھوں، مگر اس دوران نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو میں نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیوں کہ مجھے یہ بات ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ اس کی ماں کو پریشان کیا جائے۔''

نبی مکرمؐﷺ کی طبیعت میں نہ غصہ تھا، نہ سختی اور نہ آپؐ کبھی چیختے تھے۔ آپؐ نے پوری زندگی کبھی بدی کے بدلے میں بدی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ درگزر فرماتے تھے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:''نبی محترمؐﷺ نہایت فراخ دل، حوصلہ مند، صادق البیان، نرم مزاج اور نہایت خوش خلق تھے۔ آپؐ کی عادت تھی کہ جب آپؐ کے گھر والوں یا اصحاب یا احباب میں سے کوئی آپؐ سے کچھ کہنا چاہتا تو آپؐ ہمیشہ لبیک کہتے تھے۔''

٭حوصلہ مند، جری اور اصول پسند
حضور اکرم ﷺ کی ذات میں تمام خوبیاں عمدہ تناسب کے ساتھ جمع تھیں۔ آپؐ نے انتہائی مشکل حالات میں بھی بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ اسلام کے اس پیغام حق کو پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے لیے آپؐ مبعوث ہوئے تھے۔ سخت سے سخت مخالفت بھی آپ ؐ کو اس دعوت و تبلیغ سے نہ روک سکی۔ آپؐ نہایت بہادر اور جری انسان تھے۔ کبھی حق بات کہنے سے نہ ڈرے اور نہ خوف زدہ ہوئے۔ آپؐ نے حق کی خاطر اور اﷲ کے پیغام کو دنیا میں عام کرنے کے لیے ہی متعدد جنگیں لڑیں، مگر ان کے پیچھے نہ تو کوئی توسیع پسندانہ عزائم تھے اور نہ ہی مال و دولت کا حصول تھا۔ آپؐ کی جنگیں دفاعی ہوتی تھیں، آپؐ نے کبھی جارحیت نہیں کی۔ مگر جب کافروں اور مشرکین سے مقابلہ ہوا تو پھر آپؐ نے بھی اصول پسندی کا مظاہرہ کیا اور جم کر داد شجاعت دی۔

٭ ایک صابر اور شاکر راہ نما
نبی کریمﷺ ایک صابر اور شاکر راہ نما تھے۔ صبر ایک ایسی اعلیٰ صفت ہے جس کا تعلق تسلیم و رضا سے ہے۔ مزاج کے خلاف ہونے والی ہر بات کو برداشت کرنا صبر کہلاتا اور صبر کرنے والا شکر جیسی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں صبر و شکر کے ناقابل فراموش واقعات نظر آتے ہیں۔ کفار مکہ نے نبیؐ کو کون کون سے دکھ نہیں پہنچائے، مگر آپؐ نے ہر موقعے پر صبر کیا اور اس کے نتیجے میں شکر کی سعادت پائی۔ نبی رحمتؐ ایک ایثار پسند انسان نظر آتے ہیں۔ آپؐ نے ہر موقع پر اپنی ذات کو نظر انداز کیا اور دوسروں کو آرام اور سکون پہنچایا۔ اپنے دکھ اور پریشانی پر اﷲ کے رسولؐﷺ صبر کرتے تھے، مگر دوسروں کو آرام پہنچانے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ بلاشبہہ یہ رویہ اﷲ کے نبیؐ کو ساری دنیا کے لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔

٭ پیار، در گزر اور امن پسندی
پیار، درگزر اور امن پسندی میں رسول کریمﷺجیسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ آپؐ دوسروں سے پیار کرنے، ان کی غلطیوں پر درگزر کرنے اور ہر موقع پر امن پسندی کا مظاہرہ کرنے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں اور آپؐ کی یہی خصوصیات آپؐ کو دنیا کے دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ بڑے بڑے دشمنوں کو معاف فرمانا آپؐ کے کردار کی اعلیٰ خوبی تھی۔ قریش مکہ سے زیادہ کسی نے آپؐ پر ظلم نہیں کیے، مگر فتح مکہ کے وقت آپؐ نے فراخ دلی کا عظیم مظاہرہ کیا جسے دیکھ کر ساری دنیا حیران رہ گئی۔ آپؐ نے اپنے تمام دشمنوں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا تھا۔

٭کشادہ دلی اور فیاضی
اﷲ کے حبیبؐ کی وسعت قلبی، فیاضی اور کشادہ دلی کا مقابلہ قیامت تک دنیا کا کوئی بھی انسان نہیں کرسکتا۔ ان خصوصیات میں نبی برحقؐ بے مثال تھے۔ حضرت جابرؓ بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ نبی پاکؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ سرور عالمؐ نے کبھی کوئی چیز اگلے وقت کے لیے اٹھا کر نہیں رکھی۔

نبی محترمؐ کا ارشاد پاک ہے:''اگر میرے پاس کوہ احد کے برابر سونا ہو تب بھی مجھے خوشی اس وقت ہوگی کہ تین دن سے پہلے پہلے وہ سب بانٹ دوں اور میرے پاس سوائے اس کے جو میں ادائے قرض کے لیے اٹھا رکھوں، کچھ بھی باقی نہ رہے۔''

رسول عربی ﷺ کی دریا دلی کا یہ حال تھا کہ بعض اوقات آپؐ کے پاس سائل کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا تو آپؐ کسی سے قرض لے کر سوال کرنے والے کی ضرورت پوری کردیتے تھے۔ بعض اوقات حسن عطا کا یہ بھی انداز ہوتا کہ کوئی ضرورت مند آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کوئی چیز فروخت کرنا چاہتا تاکہ اس کی ضرورت پوری ہوسکے تو اﷲ کے نبیؐ اس موقع پر یہ حکمت عملی اختیار کرتے کہ اس سے مذکورہ چیز خریدی اور اسی کو تحفے میں دے دی۔

٭ بے غرضی، الفت و عنایت
بے غرضی، الفت اور عنایت ایسی خوبیاں ہیں جو بہت کم ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ مگر اﷲ کے رسول ﷺ ان خوبیوں سے مالا مال تھے۔ نبی برحقؐ کی بے غرض الفت کی برسات ہر ایک پر یکساں انداز سے ہوتی تھی۔ آپ ؐ کی محبت خواص کے لیے نہیں، بلکہ عوام کے لیے تھی اور ہر ایک کے لیے عام تھی۔ آپؐ اعلیٰ درجے کے شفیق، انصاف کرنے والے اور غریب پرور تھے۔ دشمنوں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی فرماتے تھے۔ رسول کریمﷺ کے کردار کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ آپؐ نے بے غرضی، الفت و عنایت سے دشمنوں کے دل بھی جیت لیے تھے۔ آپ ؐ کی انصاف پسندی کا یہ عالم تھا کہ مدینے کے یہودی بھی تمام اختلافات کے باوجود اپنے تمام جھگڑوں اور تنازعات کے فیصلے آپؐ ہی سے کراتے تھے۔ اس کے بڑھ کر الفت، محبت، پیار، منصف مزاجی اور مہربانی کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ رحمت للعالمین تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
Load Next Story