آم کے باغات کٹنے کی ’’اصل‘‘ کہانی
آم کے باغات کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کے بعد ان کو کاٹ دیا جاتا ہے
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر مختلف کلپس شیئر کیے جارہے تھے جن میں دیکھا جاسکتا تھا کہ مختلف ٹرالیوں پر لکڑی کے بڑے بڑے تنے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جارہے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا کہ یہ درحقیقت آموں کے درخت ہیں اور یہ ڈی ایچ اے ملتان کےلیے کاٹے گئے ہیں۔
کسی ستم ظریف نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ 90 ہزار درخت کاٹے گئے ہیں۔ اس پر ہمسایہ ملک کی سوشل میڈیا ٹیم بھی ایکٹیو ہوئی اور یوں ہمارے اداروں کی بدنامی بھی ہوئی۔ عموماً یہ معاملات ایک یا دو دن تک رہتے ہیں اور پھر یہ خود ہی دفن ہوجاتے ہیں۔ ایک دن کے بعد تو یہ ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈ میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن میں اس وقت حیران ہوا جب یہ معاملہ کئی دن ٹویٹر کے ٹرینڈز میں رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر کون کیا بات کر رہا ہے؟ میرا ماتھا تب بھی ٹھنکا جب وقتاً فوقتاً یہ فیس بک پر دکھائی دیا جانے لگا۔ خاکسار و ہم خیال تب ہی سمجھ گئے تھے کہ یہ معاملہ وہ نہیں ہے جو کہ نظر آرہا ہے بلکہ یہ معاملہ بالکل الگ ہے اور یہ تحقیقات میں نظر بھی آیا ہے۔
سب سے پہلے یہ بات جان لیجیے کہ آم کے باغات کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کے بعد ان کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ پاکستانی چونسہ آم کی دنیا بھر میں مانگ ہے، کیونکہ یہ بے انتہا میٹھا ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ بھی بہت لذیذ ہوتا ہے۔ لیکن یہ جس خطے میں پیدا ہورہا تھا وہاں پر نمی کا تناسب بگڑنے کی وجہ سے یہ اب اُس طرح سے نہیں ہوگا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ یہ ہم تک یعنی مقامی صارف تک پہنچتے پہنچتے گٹھلیوں کے اطراف سے گلنا شروع ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو کیمیکل لگائے بغیر محفوظ نہیں کیا جاسکتا، اور اگر کیمیکل لگے گا تو پھر اس کا ذائقہ ختم ہوجائے گا یا وہ نہیں رہے گا جس کےلیے اس کی وجہ شہرت ہے۔
جب ایک مرتبہ باغ کی ایسی حالت ہوجاتی ہے تو اگلی مرتبہ اس کو ٹھیکے پر اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے، کیونکہ اس کے حوالے سے خبر پھیل چکی ہوتی ہے کہ اس باغ کا پھل ٹھیک نہیں ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں باغبان کے پاس اپنے باغ کو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے جب ہم خانیوال سے آگے جاتے تھے تو دونوں جانب آموں کے باغات ہوتے تھے جو کہ اب تیزی سے کم ہورہے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ یہاں محکمہ زراعت کیا کررہا ہے؟ وہ کیوں فصل کو بچانے کےلیے اقدامات نہیں کررہا ہے؟ اس پر ابھی ہم بات نہیں کریں گے۔ چونسہ کیسے بچ سکتا ہے؟ اگر اس کی پیوند کاری کی جائے یا اس کو کسی اور قسم کے ساتھ بدل دیا جائے لیکن اگر ہم آج اس کام کا آغاز کرتے ہیں تو بھی ہمیں 5 سے 7 سال چاہئے ہوں گے۔ اس دوران میں کاشتکار کیا کرے گا؟ اس کا جواب بھی حکومت اور محکمہ زراعت کے پاس ہی ہے۔
سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ ''یہ درخت ڈی ایچ اے ملتان میں نہیں کاٹے گئے''۔ میں پورے وثوق سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ راقم کو کچھ عرصہ پہلے ڈی ایچ اے ملتان میں ایک نجی معاملے کے حوالے سے جانا پڑا تھا۔ وہاں تو سڑکیں بن چکی ہیں اور کاٹے جانے والے درختوں کی جگہ درخت لگائے جارہے ہیں بلکہ ڈی ایچ اے ملتان میں تو لوگ بھی رہائش اختیار کرنا شروع کرچکے ہیں۔ یہ ایک اور نجی ہاوسنگ اسکیم کےلیے کاٹے گئے تھے۔ یہ ہاؤسنگ اسکیم اس شخص کی ملکیت ہے جو فائلوں کے نیچے پہیے لگانے کا ماہر ہے اور علی الاعلان رشوت لینے اور دینے کا اعتراف بھی کرتا ہے اور جس پر کراچی کے رہائشی منصوبے کے حوالے سے لوگوں کو قتل کروانے کا الزام بھی ہے۔ اس کے ملتان میں دوسرے نام سے منصوبے کو اس کا داماد دیکھ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے قصے میں ڈی ایچ اے کا نام کیوں آیا؟ کیونکہ ڈی ایچ اے کی فائلز ابھی بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اور ایک مافیا کو یہ فائلیں انڈر پرائسنگ میں چاہیے تھی، لہٰذا انہوں نے ڈی ایچ اے کو بدنام کیا تاکہ پریشر میں آکر انہیں یہ فائلیں فراہم کردی جائیں۔ سادہ سی بات ہے کہ سستے داموں فائلیں خرید کر مہنگے داموں بیچنے کا ارادہ ہے۔ لیکن کیا ایسے کمایا جانے والا منافع حلال ہوگا؟
آخر میں مجھے آپ لوگوں سے بھی دو باتیں کرنی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ہر مصالحے دار خبر کو بغیر کسی تصدیق کے فاروڈ کرنا، لائیک، شیئر اور ری ٹویٹ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر یہ خبر جھوٹی ہوئی تو ہم آگہی نہیں بلکہ گمراہی پھیلانے کے موجب ہوں گے۔ اسی سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے 2018 میں ہم نے جابر حکومت خود پر مسلط کرلی ہے۔ لیکن حرام ہے کہ ہم اس نقطے کو سمجھ سکیں اور اپنے قبلے درست کریں۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کسی ستم ظریف نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ 90 ہزار درخت کاٹے گئے ہیں۔ اس پر ہمسایہ ملک کی سوشل میڈیا ٹیم بھی ایکٹیو ہوئی اور یوں ہمارے اداروں کی بدنامی بھی ہوئی۔ عموماً یہ معاملات ایک یا دو دن تک رہتے ہیں اور پھر یہ خود ہی دفن ہوجاتے ہیں۔ ایک دن کے بعد تو یہ ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈ میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن میں اس وقت حیران ہوا جب یہ معاملہ کئی دن ٹویٹر کے ٹرینڈز میں رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر کون کیا بات کر رہا ہے؟ میرا ماتھا تب بھی ٹھنکا جب وقتاً فوقتاً یہ فیس بک پر دکھائی دیا جانے لگا۔ خاکسار و ہم خیال تب ہی سمجھ گئے تھے کہ یہ معاملہ وہ نہیں ہے جو کہ نظر آرہا ہے بلکہ یہ معاملہ بالکل الگ ہے اور یہ تحقیقات میں نظر بھی آیا ہے۔
سب سے پہلے یہ بات جان لیجیے کہ آم کے باغات کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کے بعد ان کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ پاکستانی چونسہ آم کی دنیا بھر میں مانگ ہے، کیونکہ یہ بے انتہا میٹھا ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ بھی بہت لذیذ ہوتا ہے۔ لیکن یہ جس خطے میں پیدا ہورہا تھا وہاں پر نمی کا تناسب بگڑنے کی وجہ سے یہ اب اُس طرح سے نہیں ہوگا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ یہ ہم تک یعنی مقامی صارف تک پہنچتے پہنچتے گٹھلیوں کے اطراف سے گلنا شروع ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو کیمیکل لگائے بغیر محفوظ نہیں کیا جاسکتا، اور اگر کیمیکل لگے گا تو پھر اس کا ذائقہ ختم ہوجائے گا یا وہ نہیں رہے گا جس کےلیے اس کی وجہ شہرت ہے۔
جب ایک مرتبہ باغ کی ایسی حالت ہوجاتی ہے تو اگلی مرتبہ اس کو ٹھیکے پر اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے، کیونکہ اس کے حوالے سے خبر پھیل چکی ہوتی ہے کہ اس باغ کا پھل ٹھیک نہیں ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں باغبان کے پاس اپنے باغ کو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے جب ہم خانیوال سے آگے جاتے تھے تو دونوں جانب آموں کے باغات ہوتے تھے جو کہ اب تیزی سے کم ہورہے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ یہاں محکمہ زراعت کیا کررہا ہے؟ وہ کیوں فصل کو بچانے کےلیے اقدامات نہیں کررہا ہے؟ اس پر ابھی ہم بات نہیں کریں گے۔ چونسہ کیسے بچ سکتا ہے؟ اگر اس کی پیوند کاری کی جائے یا اس کو کسی اور قسم کے ساتھ بدل دیا جائے لیکن اگر ہم آج اس کام کا آغاز کرتے ہیں تو بھی ہمیں 5 سے 7 سال چاہئے ہوں گے۔ اس دوران میں کاشتکار کیا کرے گا؟ اس کا جواب بھی حکومت اور محکمہ زراعت کے پاس ہی ہے۔
سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ ''یہ درخت ڈی ایچ اے ملتان میں نہیں کاٹے گئے''۔ میں پورے وثوق سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ راقم کو کچھ عرصہ پہلے ڈی ایچ اے ملتان میں ایک نجی معاملے کے حوالے سے جانا پڑا تھا۔ وہاں تو سڑکیں بن چکی ہیں اور کاٹے جانے والے درختوں کی جگہ درخت لگائے جارہے ہیں بلکہ ڈی ایچ اے ملتان میں تو لوگ بھی رہائش اختیار کرنا شروع کرچکے ہیں۔ یہ ایک اور نجی ہاوسنگ اسکیم کےلیے کاٹے گئے تھے۔ یہ ہاؤسنگ اسکیم اس شخص کی ملکیت ہے جو فائلوں کے نیچے پہیے لگانے کا ماہر ہے اور علی الاعلان رشوت لینے اور دینے کا اعتراف بھی کرتا ہے اور جس پر کراچی کے رہائشی منصوبے کے حوالے سے لوگوں کو قتل کروانے کا الزام بھی ہے۔ اس کے ملتان میں دوسرے نام سے منصوبے کو اس کا داماد دیکھ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے قصے میں ڈی ایچ اے کا نام کیوں آیا؟ کیونکہ ڈی ایچ اے کی فائلز ابھی بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اور ایک مافیا کو یہ فائلیں انڈر پرائسنگ میں چاہیے تھی، لہٰذا انہوں نے ڈی ایچ اے کو بدنام کیا تاکہ پریشر میں آکر انہیں یہ فائلیں فراہم کردی جائیں۔ سادہ سی بات ہے کہ سستے داموں فائلیں خرید کر مہنگے داموں بیچنے کا ارادہ ہے۔ لیکن کیا ایسے کمایا جانے والا منافع حلال ہوگا؟
آخر میں مجھے آپ لوگوں سے بھی دو باتیں کرنی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ہر مصالحے دار خبر کو بغیر کسی تصدیق کے فاروڈ کرنا، لائیک، شیئر اور ری ٹویٹ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر یہ خبر جھوٹی ہوئی تو ہم آگہی نہیں بلکہ گمراہی پھیلانے کے موجب ہوں گے۔ اسی سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے 2018 میں ہم نے جابر حکومت خود پر مسلط کرلی ہے۔ لیکن حرام ہے کہ ہم اس نقطے کو سمجھ سکیں اور اپنے قبلے درست کریں۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔