محمد حنیف رامے کی یاد میں
لاہور سمن آباد موڑسے ملتان روڈ کی طرف تھوڑا سا آگے جائیں، تو تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پردائیں طرف ایک...
لاہور سمن آباد موڑسے ملتان روڈ کی طرف تھوڑا سا آگے جائیں، تو تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پردائیں طرف ایک شکستہ سی بلڈنگ ہوتی تھی۔ یہ سابق وزیر ِاعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے کا ''دفتر''بھی تھا اور ''اسٹوڈیو'' بھی۔ اس کااندرونی منظر یہ تھا کہ ایک طرف سادہ سا صوفہ تھا ،دوسری طرف لکڑی کی میز کرسی تھی ۔ یہیں ایک اور چھوٹی سی میز بھی نظر آ رہی تھی ،جس سے متعلق ان کا کہنا تھا ، '' یہ میز میرے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔ یوں ہے کہ جب میرے چھوٹے بھائی محمد حفیظ چوہدری کی شادی ہو گئی ، تو ماں نے چاہا کہ وہ اپنا الگ گھر بسا لیں اور مشترکہ گھر میں جو برا بھلا سامان سال ہا سال سے جمع ہو گیا تھا ، ہم دونوں بھائیوں میں تقسیم ہو جائے ۔ میں نے عرض کی ، مناسب یہی ہے کہ سب چیزیں حفیظ صاحب کو دے دی جائیں۔ ماں نے ایک لحظے کے لیے سوچا اور کہا ،' اچھا ، تم ان میں سے ایک چیز رکھ لو۔' بزرگان ِ دین سے سنا تھا کہ صبر کرنے سے شکر کرنا بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے شکریے کے ساتھ یہ ایک چھوٹی سی میز اپنے پاس رکھ لی۔
محمد حنیف رامے سے یاد اللہ تو بہت پرانی تھی، لیکن ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ، جب یہاں سمن آباد موڑ پر واقع اس بلڈنگ کے ، اس'' آفس کم اسٹوڈیو'' میں بار ِدگر ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا یہ ان کے بیٹے ابراہیم کی'' فیکٹری'' ہے ، کہ وہ ہر روز صبح اس کے ہمراہ یہاں آجاتے ہیں،لکھنے پڑھنے اور مصوری میں مشغول رہتے ہیں، اور دن ڈھلنے پر اس کے ساتھ ہی واپس لوٹ جاتے ہیں ، تو طبیعت بڑی اداس ہو گئی۔ یہ وہی محمد حنیف رامے ہیں ، ایک زمانہ میں جن کی سیاست ، صحافت اور خطابت کا ڈنکا بجتا تھا، اور جنہوں نے بطور وزیر ِاعلیٰ پنجاب ، ہزاروں لاکھوں بے گھرلوگوں کو گھر بنا کر دیے تھے ، لیکن خود ایک انچ زمین کا ٹکڑا بھی اپنے نام پر الاٹ نہیں کرایا تھا، اور جنہوں نے سب سے پہلے نہ صرف یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ''پیپلز پارٹی'' بنانے کا مشورہ دیا تھا ، بلکہ ان کو اس کا تنظیمی خاکہ بناکے دیا تھا۔ انھی کا کہا ایک جملہ یاد آیاکہ '' عروج بھی بہت دیکھا ہے ، اور زوال بھی بہت سہا ہے۔'
یہاں رامے صاحب سے باردگر ملاقات کا پس ِمنظر یہ تھا کہ میں نے ایک معاصر اخبار کے لیے ان کا تفصیلی انٹرویوکرنا تھا۔ انٹرویو کی پانچ اقساط چھپ گئیں کہ ایک روز طلب کیا اور کہا ،'' اصغر ، اخبار کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔'' میں نے کہا ، ''سر، لیکن آپ ایک بار اپنا مکمل انٹرویو ریکارڈ ضرور کر ا دیں، یہ بعد کو الگ سے بھی شایع ہو سکتا ہے۔'' کہنے لگے ، ''ہاں یہ ٹھیک ہے۔ '' اور اس طرح ان کے اس '' آفس کم اسٹوڈیو'' میں، میں نے ان کی یادداشتیں ریکارڈ کرنا شروع کر دیں۔ یہ سلسلہ تین چار ماہ تک چلتا رہا ، تا آنکہ ریکارڈنگ مکمل ہو گئی۔ ان سے آخری ملاقات، چائنہ چوک پر واقع ایک پریس انسٹی ٹیوٹ کے سیمینار میں ہوئی تھی۔ وہ صدر ِمجلس تھے ۔ سہیل وڑائچ اور میں ، بطور ِمقرر مدعو تھے۔ بڑی شفقت سے ملے ۔ واپسی پر میرا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں اُتر رہے تھے، تو کہنے لگے ،'' کمر کی تکلیف عود کر آگئی ہے۔ آیندہ چند روز تک امریکا جا رہا ہوں ۔ واپسی پر یادداشتوں پر ازسر ِنو کام شروع کریں گے۔'' میں نے کہا ،'' ان شاللہ ،سر۔'' ہمیشہ کی طرح شفقت آمیز مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر ابھری اورکہا ،''ہاں، ان شاللہ۔''میں ان کی یادداشتیں لکھ رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ ان سے کہوں گا کہ ایک بار ان پر نظر ڈال لیں، لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔ محمد حنیف رامے چپکے سے رحلت فرما گئے۔( انا للہ و اناالیہ راجعون)۔
محمد حنیف رامے کی زندگی جدوجہد ِمسلسل کی داستان ہے ، اور ، حیرت انگیز طور پر اس جانگسل جدوجہد میں ان کے لیے سب سے بڑا جذباتی سہارا ، ان کی کمزور ماں تھیں۔ ''میں غور کرتا ہوں تو میری سیاست کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا، جب میں اپنی کمزور ماں کی حمایت میں اپنے طاقت ور باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔''ماں کو یاد کرکے رامے صاحب کی چہرے پر ایک طمانیت طاری ہو گئی تھی ، جیسے وہ اب بھی یہیں ان کے آس پاس ہوں۔ '' میں بمشکل بارہ سال کا ہوں گا کہ ایک روز میرے باپ نے میری ماں پر ہاتھ اٹھایا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ وہ ماں اور میرے ساتھ ایسا کرتے رہتے تھے ۔ لیکن اس روز نہ جانے کیا ہوا کہ میں نے کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی انھی کی لاٹھی اٹھائی، اور ماں اور ان کے درمیان ڈٹ کے کھڑا ہو گیا اور چیخ کر بولا ، 'میری ماں پر ہاتھ اٹھا کر دیکھیں۔' میرا باپ ہکا بکا رہ گیا ۔ انھوں نے میرے بھائیوں کو آواز دی اور کہا ، ' اس اُلو کے پٹھے کو ہٹاو یہاں سے ، میں نے ایک تھپڑ رسید کیا تو یہ دودفعہ مر جائے گا۔
'میں دوبارہ چلایا ، ' آپ مجھے جان سے مار سکتے ہیں، لیکن خبر دار ، اگر آپ نے میری ماںکو مارا۔' عجیب بات ہے ، میری اس للکار کا ایسا اثر ہوا کہ میرے باپ کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا ، وہ دن اور ان کی زندگی کا آخری دن، اس کے بعد انھوں نے کبھی میری ماں پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اور،یہ اسی دن کی بات ہے کہ میرے اندر اس سوال نے جنم لیا کہ میں کس کے ساتھ ہوں، طاقت ور کے ساتھ ، یا کمزور کے ساتھ ؟ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اس سوال نے اس اعلان کی شکل اختیار کرلی کہ 'میں چوہدری نہیں، میں رامے ہوں۔' رامے میری ماں کی ذات تھی۔ یہ ارائیں قوم کی ایک کمزور گھوت ہے ۔ ماں کے نام سے پہچاناجانا عام تو نہیں، لیکن کم یاب بھی نہیں۔ ابن ِ مریم سے ابن ِ تیمیہ تک بے شمار لوگ اپنی ماوںکے حوالے سے پہچانے گئے ۔ میرے سارے بھائی بند آج بھی 'چوہدری' کہلاتے ہیں، لیکن میں نے کہا ،' نہیں، میں 'چوہدری' نہیں، میں اپنی ماں کی طرف ہوں، میں 'رامے' ہوں۔ '' رامے صاحب خاموش ہو گئے ، اور پھر بڑی دیر تک خاموش رہے ۔
محمد حنیف رامے کی ایک اورمنفرد پہچان ، ان کے لمبے بال تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا ، ''سر ، یہ آپ اتنے لمبے بال کیوں رکھتے ہیں۔'' مسکرائے اور کہا ، ''یہ بھی ماں کی یاد میں ہیں۔'' میں حیران ہوا ،'' سر ، وہ کیسے؟ '' کہنے لگے ، '' بچپن کی بات ہے ۔ میں گھر سے باہر بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہوں ۔ ایک ملازم مجھے لینے کے لیے آتا ہے ۔ میں دور ہی سے پکار اٹھتا ہوں ، '' مجھے معلوم ہے ، ماں بلا رہی ہو گی کہ آکر دودھ پی لوں ، جاو ، جا کر کہہ دو ، مجھے نہیں پینا، دودھ وودھ ! '' ملازم اصرار کرکے مجھے گھر لے جاتا ہے ۔ اب ماں نے ایک ہاتھ سے دودھ کا پیالہ میرے منہ سے لگا رکھا ہے اور دوسرے ہاتھ سے انتہائی پیار کے ساتھ میرے سر کے بال پکڑ رکھے ہیں، اور کہہ رہی ہے ، ' جیسے جیسے میرا بیٹا دودھ پی رہا ہے ، اس کے بال لمبے ہوتے جا رہے ہیں ۔ ' بال لمبے کرنے کے چاؤ میں ، چاہتے نہ چاہتے ہوئے ،میں دودھ سے بھرا ہوا پیالہ پی جاتا ہوں ۔لوگ حیران ہوتے ہیں کہ میرے بال شریفانہ حد سے چند انچ زیادہ لمبے کیوں ہو جاتے ہیں۔ اب میں کس کس کو بتاوں کہ مجھے توآج بھی ہرسانس میں اپنی ماں کے دودھ کی خوشبو آتی ہے ، میرے بال کیونکر چھوٹے ہو سکتے ہیں۔''موت کی دہلیز پر کھڑے رامے صاحب کے چہرے پر سکون طاری تھا ، جیسے ان کی ماں ان کے پہلو میں کھڑی ہیں، اوران کا بلا رہی ہیں۔
نئے اور پرانے سال کے سنگم پر بچھڑنے کے موسم میں، یکم جنوری کو محمد حنیف رامے کی برسی آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ سمن آباد موڑ پر وہ شکستہ سی بلڈنگ، وہ ویران سا احاطہ ، وہ تنگ سی راہداری ، وہ سادہ سا کمرہ ، وہ'' آفس کم اسٹوڈیو'' اوروہ ماں کی نشانی میز، اب بھی موجود ہیں ، یا معدوم ہو چکے ہیں ، یہ تو معلوم نہیں ، لیکن آج بھی جب کبھی اس راہ سے گزرتا ہوں ، تو رامے صاحب کی شفیق یادوں سے دل بھر آتا ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ؎
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے ، لیکن اب بھی
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرش نومیدی ِ دیدار بچھا ہے اب بھی