کورونا فرشتوں کا انتظار نہ کیجئے

ہماری لاپرواہیوں کی بدولت قدرتی نظام حرکت میں آچکا ہے، اور کورونا کی تیسری لہر زیادہ شدت سے حملہ آور ہے


کورونا کے پھیلاؤ میں حکومت اور عوام دونوں ہی قصوروار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خلفائے راشدین کے دور میں ایک چور کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ صورت حال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب چور فیصلہ سننے کے بعد منت سماجت کرنے لگا کہ جناب میں نے پہلی بار چوری کی ہے اس لیے مجھے معاف کردیا جائے۔

جب چور کا اصرار حد سے بڑھا تو موقع پر موجود ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ آپ نے پہلی بار چوری نہیں کی، آپ اس سے قبل بھی تین بار چوری کرچکے ہیں۔ چور یہ بات سن کر حیران ہوکر بولا جناب آپ کی بات درست ہے لیکن آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہے؟ وہ صاحب بولے اللہ رب العزت کسی بھی انسان کو پہلی بار غلطی پر نہیں پکڑتے، اسے اپنی اصلاح کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی غلطی پر شرمندہ نہ ہو، اصلاح احوال کی کوشش نہ کرے اور مسلسل غلطی کرتا رہے تو پھر قدرتی نظام حرکت میں آتا ہے اور اس پر پکڑ آتی ہے۔

ایسی ہی کچھ صورت حال اس وقت وطن عزیز میں کورونا کے حوالے سے ہونے جارہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہماری لاپرواہیوں کی بدولت قدرتی نظام حرکت میں آچکا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کو پہلے دن ہی سے سنجیدہ لیا گیا۔ لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے، ماسک کا استعمال، جہازوں کی بندش وغیرہ، الغرض ہر وہ کام کیا گیا جس سے کورونا کے پھیلاؤ کا خاتمہ یا اس میں ہر ممکن کمی لائی جاسکتی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں معاشی مجبوریوں، کم علمی، جہالت اور توکل کے غلط مفہوم کی بدولت سوائے ابتدائی چند دنوں کے حفاظتی اقدامات کا فقدان رہا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج کورونا سے متاثر ہونے والے ابتدائی پانچ ممالک میں ہمارا شمار کیا جارہا ہے۔

اس جرم میں ہم سب برابر کے حصہ دار ہیں۔ کیونکہ معلومات کے ہوتے ہوئے ہم نے احتیاط نہ کی۔ حقیقت کو دیکھتے ہوئے ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں۔ دنیا میں ویکسین کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی تھی اور ہم زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ ''نہ بنانے کی فکر، نہ حصول کا غم... بنائے گی دنیا استعمال کریں گے ہم''۔

اور تو اور ہم نے وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری جو اس حوالے سے متحرک نظر آتے تھے، ان کو بھی تبدیل کردیا، حالانکہ جب تک وہ موجود رہے قوم کو ایسے لگ رہا تھا کہ ہم نہ صرف وینٹی لیٹر بنانے میں خود کفیل ہونے والے ہیں، بلکہ اسے بھارت کو بھی ایکسپورٹ کریں گے۔ ویکسین کے حوالے سے بھی پیش رفت ہورہی تھی۔ نئے آنے والے وزیر موصوف یہ کہہ کر دنیا بھر میں خبروں کی زینت بن گئے کہ ہمارے وینٹی لیٹر کارآمد ہی نہیں ہیں۔

بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان دیر سے ہی سہی ایکشن میں آچکے ہیں اور انھوں نے پولیس کی معاونت کےلیے فوج کو بھی طلب کرلیا ہے۔ پاک فوج ملک بھر میں کورونا کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کےلیے متحرک ہوچکی ہے۔ قانون کی دھجیاں اڑانے والے افراد کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ مارکیٹیں، دکانیں سیل کی جارہی ہیں، ماسک لگوائے جارہے ہیں۔ تاکہ ہم بھارت جیسی صورت حال سے بچ سکیں۔

کچھ نیوز چینل نے تو گویا وینٹی لیٹرز کی سیل لگائی ہوئی ہے۔ ہر خبرنامے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ بس اتنے فیصد بیڈز خالی رہ گئے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ بھائیو بچ جاؤ کورونا سے، اور اگر ایسا ارادہ نہیں ہے تو بروقت اسپتال میں آجاؤ۔ لیکن اس سب کے باوجود وطن عزیز میں بہت سی جگہوں پر کورونا کے حوالے سے حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اگر ہماری یہی حالت رہی کہ دنیا بھر بالخصوص بھارت کی عبرت ناک صورتحال کو دیکھنے کے باوجود ہم نے حفاظتی اقدامات پر عمل نہ کیا تو اب پھر فرشتوں کی آمد ہی باقی رہ گئی ہے۔ اور اگر فرشتوں کی آمد ہوگئی تو یاد رکھیے کہ فرشتے آپ کو کچھ نہیں کہیں گے بلکہ خاموشی سے ساتھ لے جائیں گے۔

آئیے ہم عہد کریں کوئی کورونا کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر عمل کرے نہ کرے، ہم ضرور کریں گے، اور ابھی سے کریں گے۔ کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ معاشی مجبوریوں کو پس پشت ڈال کر سخت ترین اقدامات کیے جائیں، قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف سخت تریں کارروائی کی جائے تاکہ وطن عزیز کورونا سے پاک ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں