شمسی توانائی بجلی کے بحران کا آسان حل

وطن عزیز کو اس وقت جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے توانائی کا بحران ان میں سر فہرست ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے...


Shakeel Farooqi January 14, 2014
[email protected]

KARACHI: وطن عزیز کو اس وقت جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے توانائی کا بحران ان میں سر فہرست ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب نے عوام کی زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں جب کہ ملکی صنعتیں بھی اس سے بری طرح متاثر ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب صنعت کا پہیہ جام ہوگا تو پیدا وار میں کمی آئے گی اور بے روزگاری کا مسئلہ جو پہلے ہی بے حد سنگین ہے مزید سنگین ہوجائے گا۔

پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر تیل پر انحصار کرتاہے جب کہ گزشتہ چند برسوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان زور پکڑ رہاہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک جانب بجلی مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہے وہاں دوسری طرف اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

ہم اﷲ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کیوں کہ اس نے ہمارے پیارے ملک کو بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے اپنی کوتاہی کی وجہ سے ان وسائل سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے کی جانب سنجیدگی کے ساتھ کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سورج سارا سال پوری آب و تاب سے چمکتا رہتا ہے۔ جس کے باعث شمسی توانائی نہایت آسانی کے ساتھ اور بلا تعطل وافر مقدار میں ہر وقت دستیاب ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں نے توانائی کے اس اہم ذریعے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق اس سمت میں کام کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اس کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ ایسے شدید بحران میں جب کہ قوم گرمی اور سردی سمیت ہر موسم میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ شمسی توانائی کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے۔

شمسی توانائی کا حصول نہ صرف قومی سطح پر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے انفرادی سطح پر انجام دینے میں بھی کوئی زیادہ قباحت نہیں ہے۔

لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ عام آدمی اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی کو کیونکر بروئے کار لاسکتا ہے؟ اس کا نہایت آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر تقریباً پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے کی لاگت آتی ہے اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ پنکھا بھی چلانا چاہیں تو اس لاگت میں اسی تناسب سے تھوڑا سا اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن سولر انرجی کایہ خرچہ صرف ایک بار ہوگا جس کے نتیجے میں بجلی کے بار بار آنے والے اور بلبلادینے والے بھاری بھاری بلوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ ایک اور قابل ذکر اور توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ جنریٹر سے حاصل کی جانے والی بجلی اور سولر سسٹم سے حاصل کی جانے والی بجلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سولر سسٹم کی تنصیب کا کام کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی عام آدمی اس سسٹم کو بہ آسانی انسٹال کرسکتاہے۔

اگر یہ پینل بڑی تعداد میں گھروں میں استعمال کیے جائیں تو اس سے اجتماعی طورپر بہت بڑا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی مثال ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے جہاں کی حکومت ایک ملین سے بھی زیادہ سولر پینلز انسٹال کرچکی ہے اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس سے دہرا فائدہ حاصل ہوا ہے کیوںکہ ایک جانب دیہاتوں کو نیشنل گرڈ کے ساتھ جوڑنے میں کئی ملین ڈالرز کی بچت ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب مقامی لوگوں کو روزگار کے ہزاروں مواقعے میسر آئے ہیں۔ گویا آم کے آم، گٹھلیوں کے دام، پاکستان بھی بنگلہ دیش کی تقلید سے بہت بڑا فائدہ اٹھاسکتا ہے کیوں کہ اس آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہات پر مشتمل ہے اگرچہ وطن عزیز میں شمسی توانائی کے متبادل ذریعے کی جانب بہت تاخیر اور سست روی کے ساتھ توجہ دی گئی ہے تاہم یہ بات نہایت خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ اس سلسلے میں ایک جانب عوامی شعور بیدار ہورہاہے جب کہ دوسری جانب حکومت بھی اس معاملے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کررہی ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک کلو واٹ یا اس سے کچھ کم یا زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات کی در آمد پر حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کردی ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ توانائی کے شدید بحران کو حل کرنے کے لیے شمسی توانائی کے متبادل ذریعے کے فروغ اور حوصلہ افزائی کے لیے حکومت بڑے بڑے سولر پلانٹس کے لیے بھی حکومت مکمل چھوٹ دے دے اور عوام میں اس کی افادیت اور اہمیت کا شعور بیدار کرنے کے لیے تمام مطلوبہ عملی اقدامات کرے۔

ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوئی کہ وطن عزیز کا نجی شعبہ بھی شمسی توانائی کے شعبے میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں اس میں کراچی کی مرکزی سڑک شاہراہ فیصل پر واقع پاک اوئسیس پارک کے آگے سے گزرنے کا اتفاق ہوا جہاں شمسی توانائی سے نہ صرف قمقمے روشن تھے بلکہ ٹیوب ویل کے ذریعے خوبصورت اور دلکش فوارے بھی عوامی دلچسپی اور کشش کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ ایف ٹی سی کی عمارت سے متصل اس پارک میں جہاں کچھ عرصہ قبل صحرائے تھر کی تھیم چل رہی تھی اب سولر انرجی کے جلوے دکھائی دے رہے تھے۔ مقامی کمپنی نے شمسی توانائی کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے کا بہترین مظاہرہ پیش کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے طریقہ کار کو اختیار کرکے پاکستان میں شمسی توانائی کے متبادل نظام کو کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جاسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کا یہ بہترین ذریعہ ہے، ہمارا حکومت کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ جن علاقوں کے لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سب سے زیادہ شکار ہیں وہاں سولر پینلز کو رعایتی قیمتوں پر فراہم کیاجائے تاکہ لوگوں کی زندگیوں میں آرام اور سکون میسر آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں