مسلم پاکستانی
شرفو پان والے کی دکان پر میلا سا لگا ہوا تھا، شام کے وقت ہمیشہ یہی ہوتا تھا، دونوں بینچوں پر لوگ تھے اور کچھ ادھر ...
شرفو پان والے کی دکان پر میلا سا لگا ہوا تھا، شام کے وقت ہمیشہ یہی ہوتا تھا، دونوں بینچوں پر لوگ تھے اور کچھ ادھر ادھر کھڑے تھے، ان میں جوان بھی تھے، ادھیڑ عمر اور بوڑھے بھی، وہ لوگ بھی تھے جو کام سے واپس آئے تھے اور تھکن اتارنے کے لیے گپ شپ کی غرض سے پان سگریٹ کے بہانے رک گئے تھے۔ اسکول اور کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے بھی تھے اور وہ لڑکے بھی جنھیں کوئی کام نہیں ہوتا۔ پان کی دکان کسی بستی میں ہو تو بستی کے تھرمامیٹر کی حیثیت رکھتی ہے، سرکاری سطح پر کسی بھی قسم کا سروے کرنیوالے اگر ہر بستی میں شام کے وقت کسی پان کی دکان پر ایک گھنٹہ گزار لیں تو بستی کے تمام کوائف سے واقف ہوجائیں۔ مزاج، درجہ حرارت، تعلیم اور بیروزگاری کا تناسب، منشیات استعمال کرنیوالوں کی تعداد، ان کے سدھرنے یا نہ سدھرنے کے امکانات، غرض سبھی کچھ پان کی دکان پر طشت ازبام ہوجاتا ہے۔ اس وقت انسانی شناخت کے اس اسٹاک ایکسچینج میں ملا جلا ردعمل چل رہا تھا، کچھ لڑکے شوبز پر تبصرہ کررہے تھے تو دوسری طرف سنجیدہ قسم کے لوگ سیاست پر گفتگو کررہے تھے۔
اچانک موضوع بدلا اور کسی نے قدرت اﷲ کے نئے کرائے دار کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ ایک نے کہا بستی میں نیا آنے والا کرائے دار بے حد وجیہہ ہے، اس کے چہرے بشرے اور انداز و اطوار سے شرافت ٹپکتی ہے، انداز میں تمکنت اور وقار ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ نہ جانے کیوں وہ جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے۔ اتنے میں وہ شخص نمودار ہوا جس کے متعلق گفتگو ہورہی تھی، وہ خوش رو آدمی تھا، لباس قیمتی نہیں تھا مگر اس کو خوش ذوق ثابت کرتا تھا، چال ڈھال اور انداز و اطوار سے وقار اور متانت جھلکتی تھی، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اختلاف کرنا آسان نہ تھا۔ اس نے دکان پر پہنچ کر باآواز بلند سلام کیا، لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ ایک بزرگ نے پوچھا ''میاں، تمہارا نام کیا ہے؟'' نوجوان نے کہا، مسلم پاکستانی۔ سب نے حیرت سے کہا یہ کیا نام ہوا؟ مسلم پاکستانی تو سبھی ہیں۔ نوجوان نے کہا سبھی ہوں گے، مگر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور یہ بات عمل سے ثابت بھی نہیں کرتے، اتنا کہہ کر نوجوان سب کو حیران و ششدر چھوڑ کر چلاگیا۔
مذکورہ بالا درس دراصل مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہماری قوم کے لیے ہے، جو 1947 سے پہلے ایک قوم تھی، جسے ایک ملک کی ضرورت تھی، اس قوم نے ایمان، یقین، محکم کے بل بوتے پر ایک تاریخ ساز جدوجہد کی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ایک آزاد، خود مختار ریاست ابھری۔ دنیا کے نقشے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریاست تھی جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا، پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو بیان کرنا شروع کریں تو الفاظ کا برتن ناکافی پڑجاتا ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جس میں کسی کا باپ بچھڑگیا تو کسی کی ماں کا کچھ پتہ نہیں چلا، کوئی ماں اپنے لخت جگر سے محروم ہوئی تو کوئی باپ اپنی بیٹیوں کی آبرو بچانے کے لیے انھیں موت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور ہوگیا، قصہ مختصر دلوں کو دہلا دینے والی داستانوں کو سینوں میں دبائے ایک لٹا پٹا قافلہ وطن عزیز پہنچا اور ان گنت قربانیوں کے صلے میں ملنے والی آزاد ریاست کے استحکام و سالمیت کے لیے جت گیا۔ جوں جوں وقت کا دھارا بہتا گیا اپنے پیچھے بہت سی تبدیلیاں چھوڑتا گیا اور آج 66 سال کے بعد وطن عزیز کے حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمارے پاس ایک ملک تو ہے مگر اس ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے۔
آج وطن عزیز میں بسنے والے خود کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پختون، بلوچ، پٹھان، پنجابی، سندھی، مہاجر کہلاتے ہیں، خود کو پاکستانی کہلانے اور عمل سے پاکستانی ثابت کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور بے شک یہی وہ لوگ ہے جن کے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں کیونکہ یہ لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آزادی کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، آگ و خون کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے جب کہیں جاکر آزادی نصیب ہوتی ہے۔ ایک جانب بلوچستان میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے تو دوسری جانب سندھ میں جئے سندھو دیش کے نعرے گونج رہے ہیں اور پنجاب میں سرائیکستان کی داغ بیل ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہزارے وال میں بھی لوگ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے حقوق کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ بلوچستان کے بعض نامور قوم پرستوں نے پاکستان کو کبھی ایک خودمختار ریاست تسلیم نہیں کیا، بلوچستان کے مختلف مقامات پر آج بھی قومی پرچم نہیں لہرایا جاتا۔ ارباب اختیار فرماتے ہیں کہ یہ ناراض لوگ ہیں، انھیں منانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
سندھ میں جئے سندھو دیش کے نعرے لگا کر لوٹ مار، قتل و غارت گیری، اغوا برائے تاوان اور ریلوے ٹریک پر بم دھماکے کرنے کی وارداتوں میں ملوث عناصر کے متعلق اقتدار کے مسند نشینوں کا موقف ہے کہ یہ احساس محرومی کا شکار ہوکر اس طرح کی حرکتیں کرنے پر مجبور ہیں، سندھ کے وسائل کے حق پر خود مختاری کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان کی شکایات دور کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں قیام پاکستان کی خاطر بیش بہا قربانیاں دینے والوں کی نمایندہ جماعت کی جانب سے جب الگ صوبے کا موقف سامنے آتا ہے تو حکمران سیخ پا ہوجاتے ہیں، قوم پرست مرنے کٹنے اور کشت و خون کے دریا بہادینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اس وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، ملازمتوں میں ناانصافی، ہر شعبہ زندگی میں حقوق سے محروم رہنے والوں کے دل کی آواز ہے۔ جنھیں بیٹھے بٹھائے بغیر کسی قربانی کے اپنے آقاؤں سے آزادی ملی، آج وہ اس آزادی کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور وطن عزیز کو توڑنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، مگر ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بھٹکے ہوئے ہیں، گمراہ لوگ ہیں، ناراض ہوگئے ہیں، اس لیے ایسا کہنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا کر آنے والوں کو آج بھی اپنا نہیں بلکہ غیر سمجھتے ہوئے سندھی کہنے کے بجائے مہاجر کہہ کر حقارت سے دھتکارنے والے الگ صوبے کا نعرہ بلند کریں تو انھیں غدار کہا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ذہن نشین رہے اس طبقے نے الگ صوبے کا مطالبہ کیا ہے، الگ ریاست کا نہیں جب کہ ہمارے ارباب اختیار تو ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
نئے صوبے بنانا وطن عزیز کو تقسیم کرنا نہیں ہے بلکہ وطن عزیز کے استحکام و سالمیت کے لیے وقت کی ضرورت ہے کہ نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبوں کے قیام کی بنیاد تعصب پرستی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملکی استحکام، ترقی و خوشحالی اور پسے ہوئے طبقوں کو ان کے حقوق دینا ہی صوبوں کے قیام کی بنیاد ہونی چاہیے۔ سندھ ایک بار پھر آتش فشاں کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے، اسے ہم اس صوبے کے عوام اور اس کے سیاستدانوں کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صوبہ زبان، نسل، قومیت، فقہہ وغیرہ کے حوالے سے اس طرح بٹ گیا ہے یا بانٹ دیا گیا ہے کہ ہر جگہ غریب ہی غریب کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور غریبوں کو آپس میں لڑانے والوں کی چاندی ہورہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ماضی کے غلط تصورات سے جان چھڑاکر معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مثبت اور دیرپا ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاریخی حقائق کو صحیح تناظر میں پیش کیا جائے، قائداعظم کے تصور کر عملی جامہ پہناکر عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان کو سمجھا جائے اور اس کو عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے، اس کے علاوہ اس ملک کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں۔ کراچی آپریشن کی طرح اس معاملے میں بھی وفاقی حکومت کو خلوص نیت سے اپنا غیر جانبدارانہ اور مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
اچانک موضوع بدلا اور کسی نے قدرت اﷲ کے نئے کرائے دار کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ ایک نے کہا بستی میں نیا آنے والا کرائے دار بے حد وجیہہ ہے، اس کے چہرے بشرے اور انداز و اطوار سے شرافت ٹپکتی ہے، انداز میں تمکنت اور وقار ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ نہ جانے کیوں وہ جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے۔ اتنے میں وہ شخص نمودار ہوا جس کے متعلق گفتگو ہورہی تھی، وہ خوش رو آدمی تھا، لباس قیمتی نہیں تھا مگر اس کو خوش ذوق ثابت کرتا تھا، چال ڈھال اور انداز و اطوار سے وقار اور متانت جھلکتی تھی، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اختلاف کرنا آسان نہ تھا۔ اس نے دکان پر پہنچ کر باآواز بلند سلام کیا، لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ ایک بزرگ نے پوچھا ''میاں، تمہارا نام کیا ہے؟'' نوجوان نے کہا، مسلم پاکستانی۔ سب نے حیرت سے کہا یہ کیا نام ہوا؟ مسلم پاکستانی تو سبھی ہیں۔ نوجوان نے کہا سبھی ہوں گے، مگر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور یہ بات عمل سے ثابت بھی نہیں کرتے، اتنا کہہ کر نوجوان سب کو حیران و ششدر چھوڑ کر چلاگیا۔
مذکورہ بالا درس دراصل مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہماری قوم کے لیے ہے، جو 1947 سے پہلے ایک قوم تھی، جسے ایک ملک کی ضرورت تھی، اس قوم نے ایمان، یقین، محکم کے بل بوتے پر ایک تاریخ ساز جدوجہد کی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ایک آزاد، خود مختار ریاست ابھری۔ دنیا کے نقشے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریاست تھی جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا، پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو بیان کرنا شروع کریں تو الفاظ کا برتن ناکافی پڑجاتا ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جس میں کسی کا باپ بچھڑگیا تو کسی کی ماں کا کچھ پتہ نہیں چلا، کوئی ماں اپنے لخت جگر سے محروم ہوئی تو کوئی باپ اپنی بیٹیوں کی آبرو بچانے کے لیے انھیں موت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور ہوگیا، قصہ مختصر دلوں کو دہلا دینے والی داستانوں کو سینوں میں دبائے ایک لٹا پٹا قافلہ وطن عزیز پہنچا اور ان گنت قربانیوں کے صلے میں ملنے والی آزاد ریاست کے استحکام و سالمیت کے لیے جت گیا۔ جوں جوں وقت کا دھارا بہتا گیا اپنے پیچھے بہت سی تبدیلیاں چھوڑتا گیا اور آج 66 سال کے بعد وطن عزیز کے حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمارے پاس ایک ملک تو ہے مگر اس ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے۔
آج وطن عزیز میں بسنے والے خود کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پختون، بلوچ، پٹھان، پنجابی، سندھی، مہاجر کہلاتے ہیں، خود کو پاکستانی کہلانے اور عمل سے پاکستانی ثابت کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور بے شک یہی وہ لوگ ہے جن کے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں کیونکہ یہ لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آزادی کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، آگ و خون کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے جب کہیں جاکر آزادی نصیب ہوتی ہے۔ ایک جانب بلوچستان میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے تو دوسری جانب سندھ میں جئے سندھو دیش کے نعرے گونج رہے ہیں اور پنجاب میں سرائیکستان کی داغ بیل ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہزارے وال میں بھی لوگ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے حقوق کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ بلوچستان کے بعض نامور قوم پرستوں نے پاکستان کو کبھی ایک خودمختار ریاست تسلیم نہیں کیا، بلوچستان کے مختلف مقامات پر آج بھی قومی پرچم نہیں لہرایا جاتا۔ ارباب اختیار فرماتے ہیں کہ یہ ناراض لوگ ہیں، انھیں منانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
سندھ میں جئے سندھو دیش کے نعرے لگا کر لوٹ مار، قتل و غارت گیری، اغوا برائے تاوان اور ریلوے ٹریک پر بم دھماکے کرنے کی وارداتوں میں ملوث عناصر کے متعلق اقتدار کے مسند نشینوں کا موقف ہے کہ یہ احساس محرومی کا شکار ہوکر اس طرح کی حرکتیں کرنے پر مجبور ہیں، سندھ کے وسائل کے حق پر خود مختاری کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان کی شکایات دور کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں قیام پاکستان کی خاطر بیش بہا قربانیاں دینے والوں کی نمایندہ جماعت کی جانب سے جب الگ صوبے کا موقف سامنے آتا ہے تو حکمران سیخ پا ہوجاتے ہیں، قوم پرست مرنے کٹنے اور کشت و خون کے دریا بہادینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اس وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، ملازمتوں میں ناانصافی، ہر شعبہ زندگی میں حقوق سے محروم رہنے والوں کے دل کی آواز ہے۔ جنھیں بیٹھے بٹھائے بغیر کسی قربانی کے اپنے آقاؤں سے آزادی ملی، آج وہ اس آزادی کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور وطن عزیز کو توڑنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، مگر ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بھٹکے ہوئے ہیں، گمراہ لوگ ہیں، ناراض ہوگئے ہیں، اس لیے ایسا کہنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا کر آنے والوں کو آج بھی اپنا نہیں بلکہ غیر سمجھتے ہوئے سندھی کہنے کے بجائے مہاجر کہہ کر حقارت سے دھتکارنے والے الگ صوبے کا نعرہ بلند کریں تو انھیں غدار کہا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ذہن نشین رہے اس طبقے نے الگ صوبے کا مطالبہ کیا ہے، الگ ریاست کا نہیں جب کہ ہمارے ارباب اختیار تو ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
نئے صوبے بنانا وطن عزیز کو تقسیم کرنا نہیں ہے بلکہ وطن عزیز کے استحکام و سالمیت کے لیے وقت کی ضرورت ہے کہ نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبوں کے قیام کی بنیاد تعصب پرستی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملکی استحکام، ترقی و خوشحالی اور پسے ہوئے طبقوں کو ان کے حقوق دینا ہی صوبوں کے قیام کی بنیاد ہونی چاہیے۔ سندھ ایک بار پھر آتش فشاں کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے، اسے ہم اس صوبے کے عوام اور اس کے سیاستدانوں کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صوبہ زبان، نسل، قومیت، فقہہ وغیرہ کے حوالے سے اس طرح بٹ گیا ہے یا بانٹ دیا گیا ہے کہ ہر جگہ غریب ہی غریب کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور غریبوں کو آپس میں لڑانے والوں کی چاندی ہورہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ماضی کے غلط تصورات سے جان چھڑاکر معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مثبت اور دیرپا ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاریخی حقائق کو صحیح تناظر میں پیش کیا جائے، قائداعظم کے تصور کر عملی جامہ پہناکر عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان کو سمجھا جائے اور اس کو عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے، اس کے علاوہ اس ملک کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں۔ کراچی آپریشن کی طرح اس معاملے میں بھی وفاقی حکومت کو خلوص نیت سے اپنا غیر جانبدارانہ اور مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔