ایم کیو ایم کو کیوں علیحدہ صوبے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے

موجود حالات میں شہری سندھ میں موجود محرومی میں پیپلز پارٹی کا بڑا حصہ ہے۔


خود پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اپنی “دھرتی ماں” سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کیا۔ فوٹو: ایم کیوایم/فائل

جب سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کے لئے ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا ہے، تب سے مقامی میڈیا اور سیاستدانوں نے ایم کیو ایم کے خلاف بحث شروع کر دی ہے۔

جیسے ہمیشہ ہوتا ہے کہ جب بھی ایم کیوایم کوئی مؤقف اختیار کرتی ہے تو اسے کسی حد تک گھما دیا جاتا ہے اور اسے بطور ریاست مخالف پیش کیا جاتا ہے، اور اس دفعہ بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔

الطاف حسین نے خود کہا ہے کہ ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ کبھی ترجیح یا پسند نہیں رہی۔ تاہم اس مطالبے کے سامنے آنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہمارے زیادہ تر میڈیا اینکرز، سیاستدانوں اور قوم پرست رہنماؤں نے اسے ایم کیو ایم پر حملہ کرنے کے موقع کے طور پر لیا۔

گو کہ قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے اپنایا گیا موقف قابل فہم ہے کیونکہ ان کا سیاسی وجود سندھی قوم پرستی پر مبنی ہے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی جانب سے اپنایا گیا "بے پروا موقف" 1971 کی یاد تازہ کرتا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند جو پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں انہیں بھائی سمجھتا جاتا ہے اور انہیں مذاکرات کی بھی پیشکش کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب سندھ کے شہری عوام کو غدار سمجھا جاتا ہے صرف اس لئے کیونکہ انہوں نے صوبے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کہا ہے۔

جو لوگ ایم کیوایم پر مقامی سندھیوں کے درمیان نفرت کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہیں شاید وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ بنیادی حقوق اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم سے انکار ہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ اس سیاسی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ الطاف حسین 1978 سے مہاجروں کے لئے مساوی حقوق حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اب یہ جاننے کے بعد کہ وہ تمام دیگر آپشنز استعمال کر چکے ہیں تو انہوں نے ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ پیش کیا ہے۔

موجود حالات میں شہری سندھ میں موجود محرومی میں پیپلز پارٹی کا بڑا حصہ ہے۔ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اندرون سندھ میں موجود اپنے اہم ووٹ بینک کو فائدہ پہنچانے کے لئے کوٹا سسٹم متعارف کرایا۔ یہ خود پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اپنی "دھرتی ماں" سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کیا۔

اس لیے عملی طور پر الطاف حسین کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کررہے جس کا وجود نہیں ہے۔ جغرافیائی حدود میں شہری اور دیہی کی تقسیم اور امتیاز پہلے ہی موجود ہے۔ الطاف حسین نے صرف اس جغرافیائی حددود کی تخلیق کے لئے کہا ہے تاکہ سندھ میں کوئی پوشیدہ تقسیم نہ رہے اور دونوں دیہی اور شہری حصے اپنی وسائل کا بہتر استعمال کرسکیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ سندھ کی شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ بہتر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمتوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم ہے۔ پیپلز پارٹی جو کہ قومی سطح کی سیاسی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے ( اگرچہ یہ ایک الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی گزشتہ عام انتخابات میں سندھ کی سطح کی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے) نے کبھی سندھ کی شہری آبادی کے درمیان موجود محرومی اور ناانصافی کے خاتمے کے لئے کوشش نہیں کی۔

صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہری سندھ کی شکایات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کریں۔ پی پی پی کو صحیح طرح وسائل کی تقسیم سے اتفاق اور اس مینڈیٹ کو قبول کرنا چاہیے کہ جو شہری آبادی 1986 کے بعد سے ایم کیو ایم دے رہی ہے، جب کہ اسے مقامی حکومتوں کو خودمختاری بھی دینی چاہئے۔

سچی قیادت وہ ہے جو مشکل حالات کو شناخت کرتی ہے اور اس دوران ملنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ذرا سی لچک اور معاملہ فہمی پیپلز پارٹی کو شہری سندھ میں درپیش تمام مسائل کے ٹھوس، واضح حل کے حصول میں مدد دے سکتی ہے۔

اب تک ایم کیوایم نسبتا ایک نئی جماعت ہے جس نے اپنے پتے بڑی عمدگی کے ساتھ کھیلے ہیں۔ جس طرح ایم کیو ایم نے لچک کا مظاہرہ کیا اور مسائل کے حل کے لئے ایاز لطیف پلیجو سے رابطہ کیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم اب اس عمر سے نکل کر ایک پختہ اور ذمہ دار جماعت بن گئی ہے۔

ایم کیوایم کا پلیجو سے رابطہ کرنے کا سب سے بہترین حصہ یہ تھا کہ اس نے وقتی طور پر پیپلز پارٹی کے سب سے اہم سندھ کارڈ کو بے کار کردیا۔ مجھے یقین ہے یہ ایک بڑی ضرب تھی اور یہ جانتے ہوئے کہ ایم کیو ایم کی توجہ شہری سندھ کو ناانصافیوں سے بچانے پر مرکوز ہے، میں اس فیصلے کی حمایت کرتا ہوں جو ضرورت کے تحت لیا تھا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں