مشرف ٹرائل

نہ جانے غداری کے مقدمے کا کیا انجام ہو مگر ہمیں آزاد و شفاف ٹرائل کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں بہت جانکاری دے گیا۔

Jvqazi@gmail.com

نہ جانے غداری کے مقدمے کا کیا انجام ہو مگر ہمیں آزاد و شفاف ٹرائل کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں بہت جانکاری دے گیا۔ کون سی حقیقتیں سیاسی ہوتی ہیں اور کون سی قانونی، ہمیں اس کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح کچھ لوگ اس کی سیاسی حوالے سے تشریح کرتے ہیں اور کس طرح کچھ لوگ اس کو صرف قانون کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حکومت یہ سمجھ ہی نہیں سکی جو شکایت انھوں نے 1976 کے قانون کے تحت بنی ہوئی ٹریژن ٹرائل کورٹ میں داخل کرائی ہے اس کے اندر جو جھول موجود ہیں ان سے حکومت کے مخالفین نہ جانے کتنے سیاسی فائدے لے گئے۔ الطاف حسین کو بھی ان میں ایک مہاجر نظر آگیا۔ چوہدری شجاعت نے بھی کہا کہ مقدمہ تو مجھ پر بھی چلنا چاہیے۔ عمران خان بھی قدرے چپ نظر آئے۔

زرداری صاحب کو ڈر لگا کہ کہیں سسٹم نہ چلا جائے اور حکومت کو اس طرح لینے کے دینے پڑ گئے تو کیا ہوگا؟ ریاضیات کے بعد دوسری بڑی سائنس جو منطقی ڈگر پر آگے چلتی ہے وہ قانون ہے۔ وہ کیا جانے مشرف آمر ہے۔ اس نے یہ کہا وہ کہا، اور غرض کہ کیا کیا نہیں کہا مگر اس وقت تک وہ ملزم ہی ہے جب تک عدالت ان پر مجرم ہونے کا ٹھپہ نہیں لگاتی۔یہی وہ باریکیاں ہیں جو حکمران سمجھ نہیں پائے اور نہ ہی بعض قانون دان اور دوسری طرف ہوں آمر مشرف۔ یوں لگتا ہے سیاسی پس منظر میں جیسے ضیاء الحق، مشرف کا ٹرائل کر رہے ہوں۔ آج ملک کی لبرل فورسز کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ وہ مشرف کی وکالت کرتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ ضیا ء الحق کی وکالت تو کب سے یہاں پر دائیں بازو کی سوچ والے کر رہے تھے اور اس طرح بھی یہ چھوٹی سی غلطی کمپلینٹ میں ٹریژن ٹرائل کورٹ میں داخل کرنے کی ہے۔ حکومت کی غلطی مشرف کو آمر سے عامل بنا گئی۔

میں تو یہاں تک بھی کہوں گا کہ حکمرانوں نے پوری جمہوریت کی کشتی کو سوالیہ کردیا اور یوں لگا کہ ان کے ذہن پر صرف ذاتی رنجش سوار ہے۔ ابھی حکومتی وزراء کے قدم ڈگمگاتے ڈالر کی خبروں سے نکلے تھے اور یہ سمجھتے رہے کہ قوم بے تاب ہے کہ مشرف پر مقدمہ چلے اور کچھ دن لوگوں کو اس میں مصروف رکھتے ہیں کہ افراط زر پر خبر ہی دبی رہے ۔ سب ٹھیک تھے، جب مشرف عدالتوں کے دھکے کھاتے ہوئے نظر آئے اور جوتے بھی ان پر آکر گرے۔ لیکن جب پشاور ہائی کورٹ نے ان پر ساری عمر کے لیے الیکشن میں نہیں کھڑے ہوسکنے والا فیصلہ صادر کیا تب کچھ لوگوں نے تنقید کی کہ یہ کورٹ کیسے کرسکتی ہے کہ سزا تو پارلیمنٹ قانون سازی کرکے پانچ سال بناتی ہے اس کو پچیس سال کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ مگر سقراط نے اپنے شاگردکو بھی کہا تھا جب وہ جیل سے فرار ہونے کے لیے سارے انتظام کر آیا تھا، اس لیے کہ عدالت نے تعصب رکھ کر سقراط پر فیصلہ صادر کیا تھا تو سقراط نے اپنے شاگرد Crito کو کہا کہ قانون مجھ سے بڑا ہے اور اگر میں بھاگوں گا تو یونان کا قانون گرجائے گا۔ تو یہ بھی منطق ہے۔

قانون کا اصول تو یہ ہے کہ فیصلے انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں اور اگر نہیں بھی کرتے تو وہ کتنے بھی غلط فیصلے کیوں نہ ہوں ان پر عملدرآمد ہونا لازم ہے۔ کیونکہ قانون کا منطق یہ جانتا ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو انارکی آسکتی ہے اور اگر انارکی آئی تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔آج اس ملک میں انارکی(انتشار) کے بادل منڈلا رہے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم Rule of Lawقانون کی حکمرانی پر نہیں چل سکے۔ رول آف لاء کا آدھا سچ تو پورا شفاف و آزاد ٹرائل کی سائنس پر پھیلا ہوا ہے۔ دور کیوں جائیں، ہم صرف آئین کے آرٹیکل چھ کے گرد ہی گھومتے ہیں اور وہ آرٹیکل 6 جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد اور واضح ہوکر سامنے آیا اور کہا کہ کیوں صرف ایک شخص ، جو اس جرم میں شامل تھے مطلب یہ سب کو لاؤ تاکہ ایک ایک کو ایسی سزا سنائی جائے کہ آیندہ کسی کے جائزاقتدار پر قبضہ کرنے کی کسی کو جرأت ہی نہ ہو۔


حکومت نے جو کمپلینٹ داخل کی اس میں صرف ایک ہی فرد تھا باقی سب غائب۔ یہ نہ صرف آرٹیکل چھ کی روح اور قانون کی منطق کے خلاف تھا بلکہ عام مروج آنکھ جس کو کرمنل evidence کے اصولوں کے تحت reasonable men test کہا جاتا ہے، سے بھی سمجھ نہ آیا۔ تو کیا مشرف Octopus تھے؟ ان کی پندرہ ٹانگیں تھیں اور پندرہ ہاتھ؟ مطلب یہ کہ انھوں نے خود ہی حکم صادر کیا، خود ٹرک چلائی، خود ہی دروازہ توڑا، ججوں کو باہر نکالا اور ان کو گرفتار بھی کیا، پھر ان کی گرفتاری کی چوکیداری بھی کی۔ یہ کب ہوا تھا کہ کمپلینٹ فیصلہ خود کرے کہ ایک ہی مجرم ہے۔ یہ فیصلہ تو عدالت کرتی۔ کمپلینٹ میں تو صرف ملزم ہوتے ہیں۔ اور یہ کام پراسیکیوٹر کا ہوتا ہے کہ وہ ثابت کرے اور ملزمان اپنا دفاع کریں تاکہ سچ عدالت تک کھل سکے۔ اور کون کہتا ہے کہ ملزم ہونے سے آپ کا حق مجروح ہوتا ہے ۔

ملزم شفاف و آزاد ٹرائل کی نظر میں معصوم ہوتا ہے جب تک کہ اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ اور سب سے بڑی بات کہ یہ کیا کہ سب کو ایسے مقدمات میں جس میں سے غداری کی بو آتی ہو بھلا اس میں خاص ایک شخص کیوں پراسیکیوٹر ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ قانون دان قانون کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جس طرح مولوی مشتاق بھٹو کو دیکھتے تھے؟قانون کی منطق کو دیکھنا ہو تو پھر سقراط کی آنکھ سے دیکھیے ۔ اس حد تک کہ وہ کیوں نہ آپ کے گلے تک پہنچے۔ اگر سو لوگوں کے قاتل کو پولیس مقابلے میں ٹانگ میں گولی لگے تو کیا سرجن اس کا یہ کہہ کر علاج نہ کرے کہ ''مرنے دو اسے کیوں کہ وہ سیکڑوں لوگوں کا قاتل ہے'' مشرف آمر ہے، بے نظیر بھٹو کا قاتل ہے۔ میرے محسن نواب بگٹی کا قاتل ہے تو کیا اس سے شفاف ٹرائل کا حق بھی چھین لیا جائے؟ !270 AA اٹھارہویں ترمیم کرکے مسلم لیگ ن نے دوسری جماعتوں سے مل کے شامل کیا تھا اور آرٹیکل چھ کو اور واضح کیا گیا تھا،آرٹیکل 10 A ڈال کر شفاف و آزاد ٹرائل کو یقینی بنایا گیا تھا کہ ججوں کا صوابدیدی discretionary پاور ختم ہو اور تشریح کرتے وقت material Justice جیسے مبہم مفروضوں کے محتاج نہ ہوں۔

اگر اس سارے تناظر میں ایک نہیں بلکہ دو مقدمے ہوجاتے، ایک بارہ اکتوبر کا ایک تین نومبر کا، تو کسی کی مجال نہیں کہ کوئی انگلی اٹھاتا۔ حکومت نے ایک سنہری موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ اگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے آج ٹریژن ٹرائل کی کمپلینٹ صحیح طرح داخل کی ہوتی اور یہ بار ہم پر بھی نہیں گرتا کہ مشرف جیسے آمر کی وکالت ہم گنہگار بھی کرتے۔

جاتے جاتے میر غوث بخش بزنجو کے ان سنہری الفاظ کو بھی رقم کرتا چلوں کہ آپ MKD کی میٹنگ میں جو کورٹ میں ہوئی ٹکا خاں کے ساتھ پہنچے تھے ۔وہ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ میٹنگ سے باہر نکلے تو صحافیوں کو کہا کہ ہماری بدنصیبی تو دیکھیے کہ جن کے بازو کہنیوں تک بنگالیوں کے خون سے بھرے ہوئے ہیں آج بحالی جمہوریت کے لیے ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان کا اشارہ ٹکا خاں کی طرف تھا۔ قانون کی منطق کا شاگرد ہونے کے ناتے میرے ساتھ بھی آج کچھ اس طرح کی مجبوریاں ہیں۔ محض اس لیے کہ آئین کے آرٹیکل 10 A کا بھرم رہ جائے اور انصاف کا زیاں misscarrage of justice نہ ہو ۔
Load Next Story