یوم یتامیٰ
15 رمضان کو اسے خاص طور پر منانے کا آئیڈیا اچھا ہے کہ فی زمانہ یہ ایک معقول اور مقبول طریقہ ہے۔
آج کل عالمی سطح پر بہت سے یوم منائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ ایک تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتے جب کہ بیشتر اپنے ساتھ ایک سوالیہ نشان بھی لیے پھرتے ہیں البتہ پندرہ بیس فیصد کی وجہ انتخاب نہ صرف سمجھ میں آتی ہے بلکہ دل بھی اُن کی تائید کرتا ہے لیکن عملی طور پر کم از کم وطنِ عزیز میں ان کو بہت رسمی انداز میں منایا جاتا ہے اور بات خانہ پُری سے آگے نہیں جاتی۔
ان حالات میں چند برس قبل جب OIC اور ترکی نے 15رمضان المبارک کو یوم یتامیٰ قراردے کر ساری دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کی توجہ اس بہت اہم انسانی مسئلے کی طرف دلوائی تو اس کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پذیرائی پاکستان میں ہوئی کہ یہاں بہت پہلے سے یتیموں کی حفاظت اور کفالت کے لیے بہت سے رفاحی اور خدمتِ خلق سے متعلق ادارے کام کر رہے تھے لیکن عمومی طور پر ان کا ماحول، طریقِ کار، بچوں کے ساتھ سلوک اور اُن کی تعلیم سے چشم پوشی سمیت بہت سے مسائل تھے۔
جنھیں حل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور موثر کوشش بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی جس کی وجہ سے بہت سے نیک دل اور مخیر لوگ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ زیادہ تعاون نہیں کرتے تھے اور یہ صورتِ حال بیسویں صدی کے آخری سالوں تک اسی طرح سے رواں اور قائم رہی اور سوائے ایدھی صاحب مرحوم کے کسی شخص یا ادارے نے اسے بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
اُن کی تحریک پر انفرادی سطح پر کچھ نیک دل لوگوں نے یتیم بچوں کی روٹی پانی کے انتظام کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ دی مگر یہ سہولت چالیس لاکھ میں سے تقریباً پندرہ لاکھ اُن بے سہارا یتیم بچوں کے لیے بہت ہی کم اور محدود تھی اور اس کا دائرہ بھی زیادہ تر شہری بچوں کے اِرد گرد ہی تھا کہ ساٹھ فیصد دیہاتوں میں رہنے والی آبادی کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں بن پاتا تھا۔
اس تاریک صورتِ حال میں روشنی کی پہلی کرن اُن تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ آئی جو مختلف NGO's نے قائم کیے اور ان کا دائرہ قصبوں اور گاؤں تک پھیلا دیا، ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ وہ بہت ہی کم فیس کے ساتھ دور دراز اور دیہی علاقوں میں اچھے اور معیاری اسکول قائم کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں اور یوں غربت اور جہالت کے اندھیروں کو کم کیا جاسکے مگر بہت جلد انھیں اندازہ ہوگیا کہ بے شمار بچے اپنی یتیمی کے باعث اُن کی واجبی اور بعض صورتوں میں علامتی فیس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں کہ اُن بے چاروںکے گھروں میں فاقوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے برادرم وقاص اور عامر جعفری اور الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے بانی میاں عبدالشکور وہ پہلے لوگ تھے جن کی معرفت مجھے اس مسئلے کی سنگینی اورتفصیل سے آگاہی ہوئی کہ یہ تینوں دوست عملی طور پر اس مسئلے کے حل میں کوشاں تھے اور اپنے ہر اسکول میں بیس سے چالیس فیصد بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم دیتے تھے بلکہ یتیم بچوں کے لیے خاص طور پر یونیفارم اور کتابوں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے جب کہ الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے تحت میاں عبدالشکور میٹرک اور ایف اے میں نمایاں نمبر حاصل کرنے والے غریب، بے وسیلہ اور یتیم بچوں کو حسبِ استطاعت مزید اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ایسے وظیفے دیتے تھے کہ جن سے اُن کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے رہیں اور اس سلسلے میں یہ لوگ مختلف فنڈ ریزرز کا انتظام کیا کرتے تھے اور یہ احساس کہ معاشرے کی ذرا سی توجہ سے کتنے باصلاحیت بچے نہ صرف برباد ہونے سے بچ گئے بلکہ اُن میں سے کئی اب ڈاکٹر ، انجینئر ، آئی ٹی اور دیگر اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہوچکے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ میں نے اور انور مسعود نے ان دوستوں کے ساتھ بیرونِ وطن مقیم پاکستانیوں میں فنڈ ریزنگ کے لیے دنیا بھر میں جانا شروع کیا۔
میاں عبدالشکور چند برس قبل الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر منتخب ہوئے تو اُن کا دائرہ عمل اور زیادہ وسیع ہوگیا اور اس دوران میں بہت سی اور ایسی NGO's سے بھی تعارف کاموقع ملا جو خصوصی طور پر یتیم بچوں کی تعلیم اور کفالت کا کام کررہی تھیں۔
TCF،سائٹ فاؤنڈیشن، دارارقم اور پاکستانی امریکیوں کی قائم کردہ تنظیم Helping Handsکے کام کو قریب سے دیکھنے اور بعض صورتوں میں اُن کا ہاتھ بٹانے کا بھی موقع ملا ۔کووڈ 19 کی وجہ سے یہ سب دوست ان دنوں پریشان ہیں کہ فنڈریزنگ کے لیے جس اجتماع کی ضرورت ہوتی ہے اس پر ساری دنیا میںBan لگا ہوا ہے جب کہ یتیم بچوں اور اسکولوں کے اخراجات اُسی طرح سے ہیں، خدا کرے کہ جلد یہ کورونا کی آفت ٹَل جائے تاکہ یہ لوگ اس کارِ خیر کوآسانی سے جاری رکھ سکیں اور ان کے ڈونرز بھی اس حال میں آجائیں کہ وہ اس نیک کام میں اُن کا ہاتھ پہلے کی طرح سے بٹا سکیں۔
غزالی ایجوکیشن سسٹم، الخدمت اور ہیلپنگ ہینڈز کے ساتھ کووڈ کے اس ہنگام میں بھی مجھے کچھ فنڈ ریزرز میں شمولیت کا موقع ملا ہے لیکن یومِ یتامیٰ کے حوالے سے میں خاص طور پر الخدمت فاؤنڈیشن کے ''آغوش'' پروگرام کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو اس وقت وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں میں قائم ہوچکے ہین اور جن کی عمارتیں، معیار، اساتذہ اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال سمیت ہر کام اعلیٰ درجے کا ہے یہ لوگ بے شمار یتیم بچوں کی اُن کے گھروں میں بھی مدد کرتے ہیں لیکن جس طرح ''آغوش'' میں ان کی دیکھ بھال ، تعلیم اور مستقبل کی پلاننگ کی جاتی ہے اس کا ایک اپنا مقام ہے۔
یوں تو ہر درد مند دل کے لیے ہر دن ہی یوم یتامیٰ جیسا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود 15 رمضان کو اسے خاص طور پر منانے کا آئیڈیا اچھا ہے کہ فی زمانہ یہ ایک معقول اور مقبول طریقہ ہے اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے OIC اور ترکی کے اس فیصلے کی عملی حمایت کرکے بہت اچھا کام کیا ہے۔
ان حالات میں چند برس قبل جب OIC اور ترکی نے 15رمضان المبارک کو یوم یتامیٰ قراردے کر ساری دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کی توجہ اس بہت اہم انسانی مسئلے کی طرف دلوائی تو اس کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پذیرائی پاکستان میں ہوئی کہ یہاں بہت پہلے سے یتیموں کی حفاظت اور کفالت کے لیے بہت سے رفاحی اور خدمتِ خلق سے متعلق ادارے کام کر رہے تھے لیکن عمومی طور پر ان کا ماحول، طریقِ کار، بچوں کے ساتھ سلوک اور اُن کی تعلیم سے چشم پوشی سمیت بہت سے مسائل تھے۔
جنھیں حل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور موثر کوشش بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی جس کی وجہ سے بہت سے نیک دل اور مخیر لوگ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ زیادہ تعاون نہیں کرتے تھے اور یہ صورتِ حال بیسویں صدی کے آخری سالوں تک اسی طرح سے رواں اور قائم رہی اور سوائے ایدھی صاحب مرحوم کے کسی شخص یا ادارے نے اسے بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
اُن کی تحریک پر انفرادی سطح پر کچھ نیک دل لوگوں نے یتیم بچوں کی روٹی پانی کے انتظام کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ دی مگر یہ سہولت چالیس لاکھ میں سے تقریباً پندرہ لاکھ اُن بے سہارا یتیم بچوں کے لیے بہت ہی کم اور محدود تھی اور اس کا دائرہ بھی زیادہ تر شہری بچوں کے اِرد گرد ہی تھا کہ ساٹھ فیصد دیہاتوں میں رہنے والی آبادی کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں بن پاتا تھا۔
اس تاریک صورتِ حال میں روشنی کی پہلی کرن اُن تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ آئی جو مختلف NGO's نے قائم کیے اور ان کا دائرہ قصبوں اور گاؤں تک پھیلا دیا، ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ وہ بہت ہی کم فیس کے ساتھ دور دراز اور دیہی علاقوں میں اچھے اور معیاری اسکول قائم کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں اور یوں غربت اور جہالت کے اندھیروں کو کم کیا جاسکے مگر بہت جلد انھیں اندازہ ہوگیا کہ بے شمار بچے اپنی یتیمی کے باعث اُن کی واجبی اور بعض صورتوں میں علامتی فیس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں کہ اُن بے چاروںکے گھروں میں فاقوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے برادرم وقاص اور عامر جعفری اور الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے بانی میاں عبدالشکور وہ پہلے لوگ تھے جن کی معرفت مجھے اس مسئلے کی سنگینی اورتفصیل سے آگاہی ہوئی کہ یہ تینوں دوست عملی طور پر اس مسئلے کے حل میں کوشاں تھے اور اپنے ہر اسکول میں بیس سے چالیس فیصد بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم دیتے تھے بلکہ یتیم بچوں کے لیے خاص طور پر یونیفارم اور کتابوں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے جب کہ الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے تحت میاں عبدالشکور میٹرک اور ایف اے میں نمایاں نمبر حاصل کرنے والے غریب، بے وسیلہ اور یتیم بچوں کو حسبِ استطاعت مزید اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ایسے وظیفے دیتے تھے کہ جن سے اُن کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے رہیں اور اس سلسلے میں یہ لوگ مختلف فنڈ ریزرز کا انتظام کیا کرتے تھے اور یہ احساس کہ معاشرے کی ذرا سی توجہ سے کتنے باصلاحیت بچے نہ صرف برباد ہونے سے بچ گئے بلکہ اُن میں سے کئی اب ڈاکٹر ، انجینئر ، آئی ٹی اور دیگر اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہوچکے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ میں نے اور انور مسعود نے ان دوستوں کے ساتھ بیرونِ وطن مقیم پاکستانیوں میں فنڈ ریزنگ کے لیے دنیا بھر میں جانا شروع کیا۔
میاں عبدالشکور چند برس قبل الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر منتخب ہوئے تو اُن کا دائرہ عمل اور زیادہ وسیع ہوگیا اور اس دوران میں بہت سی اور ایسی NGO's سے بھی تعارف کاموقع ملا جو خصوصی طور پر یتیم بچوں کی تعلیم اور کفالت کا کام کررہی تھیں۔
TCF،سائٹ فاؤنڈیشن، دارارقم اور پاکستانی امریکیوں کی قائم کردہ تنظیم Helping Handsکے کام کو قریب سے دیکھنے اور بعض صورتوں میں اُن کا ہاتھ بٹانے کا بھی موقع ملا ۔کووڈ 19 کی وجہ سے یہ سب دوست ان دنوں پریشان ہیں کہ فنڈریزنگ کے لیے جس اجتماع کی ضرورت ہوتی ہے اس پر ساری دنیا میںBan لگا ہوا ہے جب کہ یتیم بچوں اور اسکولوں کے اخراجات اُسی طرح سے ہیں، خدا کرے کہ جلد یہ کورونا کی آفت ٹَل جائے تاکہ یہ لوگ اس کارِ خیر کوآسانی سے جاری رکھ سکیں اور ان کے ڈونرز بھی اس حال میں آجائیں کہ وہ اس نیک کام میں اُن کا ہاتھ پہلے کی طرح سے بٹا سکیں۔
غزالی ایجوکیشن سسٹم، الخدمت اور ہیلپنگ ہینڈز کے ساتھ کووڈ کے اس ہنگام میں بھی مجھے کچھ فنڈ ریزرز میں شمولیت کا موقع ملا ہے لیکن یومِ یتامیٰ کے حوالے سے میں خاص طور پر الخدمت فاؤنڈیشن کے ''آغوش'' پروگرام کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو اس وقت وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں میں قائم ہوچکے ہین اور جن کی عمارتیں، معیار، اساتذہ اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال سمیت ہر کام اعلیٰ درجے کا ہے یہ لوگ بے شمار یتیم بچوں کی اُن کے گھروں میں بھی مدد کرتے ہیں لیکن جس طرح ''آغوش'' میں ان کی دیکھ بھال ، تعلیم اور مستقبل کی پلاننگ کی جاتی ہے اس کا ایک اپنا مقام ہے۔
یوں تو ہر درد مند دل کے لیے ہر دن ہی یوم یتامیٰ جیسا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود 15 رمضان کو اسے خاص طور پر منانے کا آئیڈیا اچھا ہے کہ فی زمانہ یہ ایک معقول اور مقبول طریقہ ہے اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے OIC اور ترکی کے اس فیصلے کی عملی حمایت کرکے بہت اچھا کام کیا ہے۔