کتابوں کی کتاب

حصول اور ترسیل علم ان کا پیشہ ہی نہیں مقصد زندگی بھی ہے۔


Rafiuzzaman Zuberi April 30, 2021

پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کتابوں سے محبت کرنے والوں میں سرفہرست ہیں اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انھیں لکھنے پڑھنے کا جنون ہے۔ حصول اور ترسیل علم ان کا پیشہ ہی نہیں مقصد زندگی بھی ہے۔

علم فن کے موضوعات پر ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں چھ کتابیں وہ ہیں جو حال میں شایع ہوئی ہیں۔ یہ کتابیں کتابوں کے بارے میں ہیں، ان کتابوں کے بارے میں جو معروف اہل قلم نے خود انھیں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید کے ذوق علم اور شوق مطالعہ کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے جو بہترین تحفہ ہوسکتا ہے وہ کتاب ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو جوکتابیں اہل قلم کی طرف سے تحفہ میں پچھلے دس سال میں ملیں، ان کے مطالعے میں آئیں اور جن پر انھوں نے اظہار خیال کیا ان کا ایک سیٹ مثال پبلشرز، فیصل آباد نے شایع کیا ہے۔ یہ چھ کتابیں ہیں آہنگِ کتب، تحفۂ قرطاس و قلم، عرفانِ کتب، مخزن کتب، طائر افکار اور لیاقتِ کتب۔ ان میں ڈیڑھ سو سے زیادہ اہل قلم کی کتابیں شامل ہیں جو ڈاکٹر پروفیسر ہارون الرشید کو 2000 سے 2020 کے درمیان موصول ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سو اہل قلم کی ایک کتاب پر تبصرہ کیا ہے، ان کی شخصیت اور علمی ادبی خدمات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان کتابوں میں شعری مجموعے ہیں، افسانے، خودنوشت داستان زندگی، ادبی مضامین، سیر و سیاحت شخصی خاکے ہیں۔

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ''عطیۂ کتب'' کے عنوان سے ایک پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔ ''ہماری عظمتِ رفتہ ہماری کتب میں مقید ہے۔ مطالعۂ کتب سے ہم اپنے ماضی کو آواز دے سکتے ہیں۔ عصر حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا حل اچھی کتابوں کے مطالعے میں مضمر ہے۔ اچھے اخلاق ، اچھے کردار اور نیک اعمال کا فروغ کتب بینی میں مخفی ہے۔ ہمارے ایمان کا ایک حصہ ایک ایسی کتاب قرآن مجید ہے جس کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ہمیں اپنی اس کتاب کے مطالعے کا حق ادا کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو زندگیوں کی تاریکیوں کا سینہ چاک کرکے راستہ منور بناتی ہے۔''

وہ لکھتے ہیں ''یوں تو چھوٹی سے چھوٹی چیز بطور محبت عطیہ کرنا سکونِ قلب کا باعث ہے، لیکن کتابیں عطیہ کرنا ادب دوستی ، علم پروری اور کتب شناسی کا ثبوت ہے۔ کتاب اچھے انسان کی شخصیت کا پیراہن ہے۔ وہ اپنی شخصیت کا نکھار مطالعۂ کتب سے حاصل کرتا ہے۔ معلومات میں اضافہ ، مصنف کا اسلوب، نئے لفظوں سے شناسائی، تہذیبوں کے عروج و زوال ، آزادی و غلامی کا تصادم، خیر و شر کا ٹکراؤ اور تحقیق و تنقید کی راہیں مطالعۂ کتب سے کھلتی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ انسان کو تنہائی سے آسمانوں پر اڑنا سکھاتا ہے۔ وہ لفظوں کے تار چھیڑکر زندگی کی رعنائی میں لطف محسوس کرتا ہے۔ لفظوں کی پٹری پر چلنے والے قاری کو منزل مقصود ضرور ملتی ہے۔

ڈاکٹر ہارون الرشید نے موصولہ کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے صاحب کتاب کی شخصیت اور ان کے ادبی مقام کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

محمد حمید شاہد کی کتاب ''غلام عباس۔ تنقیدی مطالعہ اور منتخب افسانے'' پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب پہلے صاحبِ کتاب کا تعارف کراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''پاکستانی ادب شاہد ہے کہ محمد حمید شاہد سچائی، خلوص اور شرافت کی وجہ سے افسانے کی شناخت ہیں۔ ان کے افسانے زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ انھوں نے حالات کی دیواروں کے گرد اپنے قلم سے استقلال اور حقائق کا ایسا دائرہ کھینچ رکھا ہے کہ قاری دائرہ در دائرہ خود کو حمید شاہد کا ہم سفر تصورکرتا ہے۔ یہ کیفیت بہت کم تخلیق کاروں کے نصیب میں آتی ہے۔ ان کا قاری اپنے مسائل ان کی تحریروں کے تناظر میں محسوس کرتا ہے۔''

حمید شاہد کی ادبی نگارشات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''ان کے افسانوں کے چار مجموعوں کے علاوہ ایک ناول ''مٹی آدم کھاتی ہے'' شایع ہوچکا ہے۔ انھوں نے اردو افسانے کی تنقید میں خوب کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور بڑی مقبول ہوئی ہیں۔ طنز و مزاح کے حوالے سے بھی ان کی کتاب ''الف سے اٹکھیلیاں'' بھی شایع ہو چکی ہے۔ حمید شاہد نے جو کام بھی کیا ہے اسے درجہ کمال کو پہنچایا ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو صدارتی ایوارڈ ''ستارۂ امتیاز'' سے سرفراز کیا گیا ہے۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں کہ حمید شاہد کی کتاب ''غلام عباس۔ تنقیدی مطالعہ اور منتخب افسانے'' غلام عباس شناسی میں ایک اہم کردار کی حامل ہے اور یہ غلام عباس کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوگی۔ حمید شاہد عصر حاضر کے ممتاز افسانہ نگار اور نقاد ہیں جن کی نظر افسانے پر بہت گہری ہے۔ انھوں نے غلام عباس کے افسانوں کا مطالعہ عمیق نظری سے کیا ہے۔

''تحفۂ قرطاس و قلم'' میں ایک کتاب کا عنوان ہے ''محبت آنکھ رکھتی ہے''۔ یہ ثمینہ گل کا شعری مجموعہ ہے جو 2013 میں شایع ہوا۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''ثمینہ گل نے آنکھوں کی زبان سماج کے تھپیڑوں سے سیکھی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسان آنکھوں ہی آنکھوں میں دوسرے کی آنکھ کا تارا بن سکتا ہے لیکن کسی کی بے رخی سے وہ آنکھوں سے یوں گرتا ہے جیسے آسمان سے گرا ہو۔ زندگی میں صحیح مقام آنکھوں میں گھرکرنا ہے اور یہ گھر محبت سے تخلیق ہوتا ہے۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید کو گزشتہ سال جو کتابیں پڑھنے کو ملیں ان میں ایک کتاب اکرم کنجاہی کی تحقیق و تنقید پر مبنی کتاب ''نسائی ادب اور تانیثیت'' ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی موصولہ کتابوں کی سیریز میں شامل کتاب ''لیاقت کتب'' کا حصہ ہے۔ اس کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''اکرم کنجاہی شعر اور نثر میں تنقیدی و تحقیقی اسلوب رکھتے ہیں۔

ان کا انداز فکر منفرد اور ادبی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ اپنی کتاب ''نسائی ادب اور تانیثیت'' میں انھوں نے ادب کے مختلف شعبوں میں خواتین کے ادبی کارناموں کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہے۔ عصر حاضر میں خواتین افسانوی اور شعری ادب میں مردوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ اکرم کنجاہی نے اپنی کتاب میں خواتین فکشن نگاروں اور شاعرات کی مکمل تاریخ کا احاطہ کرکے ایک ایسی دستاویز تیار کردی ہے جو محققین کے لیے جادۂ تحقیق ثابت ہوگی۔

''لیاقت کتب'' میں شامل 23 کتابوں پر بھی ڈاکٹر ہارون الرشید نے بھرپور تبصرہ کیا ہے اور ان کتابوں کے تخلیق کاروں کا بھی اسی طرح تعارف کرایا ہے۔ مطالعہ کتاب کو فروغ دینے کی یہ ایسی کوشش ہے جو قابل صد ستائش ہی نہیں شکریے کی بھی مستحق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں