لاہورکے تیرہ دروازے
سلطنت لاہور شروع سے کئی حملہ آوروں کا شکار رہا۔ مغلوں نے اس تاریخی خطہ زمین کی درودیوار تعمیر کیں۔
PESHAWAR:
صوبہ پنجاب میں واقعہ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے پاکستان کے قدیم شہر کے طور پر قابل دید ہے۔ سلطنت لاہور شروع سے کئی حملہ آوروں کا شکار رہا۔ مغلوں نے اس تاریخی خطہ زمین کی درودیوار تعمیر کیں۔ اس شہر میں داخل ہونے کے لیے تیرہ دروازے ہیں یہاں کے رہائشی اسے اندرون شہر بھی کہتے ہیں لاہور کے یہ تیرہ دروازے درج ذیل ہیں۔
دہلی دروازہ، اکبری دروازہ،موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ،لاہوری دروازہ، موری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازہ۔
ان میں سے چھ دروازے بھاٹی، دہلی، کشمیری، لاہوری اور شیرانوالہ دروازے موجود ہیں۔ بقیہ سات دروازے بالکل تباہ ہو چکے ہیں ان کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ ستر فیصد ذمے داری انسانی پیدا کردہ ہے۔ حقیقتاً ستر فیصد دروازوں کو نقصان عام لوگوں کی وجہ سے ہوا اور ہو رہا ہے۔
اکبری دروازہ: اس دروازے کو بادشاہ وقت جلال الدین اکبر نے بنوایا جو اس کے نام سے منسوب ہے۔ یہ دروازہ خستہ و بوسیدہ ہو چکا ہے اب یہ دروازہ موجود نہیں۔
موچی دروازہ: اکبری عہد کے ایک ہندو محافظ کے نام سے منسوب ہے۔ برطانوی عہد میں اس دروازے کو مسمارکردیا گیا لہٰذا اب موجود نہیں۔
شاہ عالمی دروازہ : یہ دروازہ اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے اور جاں نشین محمد معظم شاہ عالم بہادر کے نام سے منسوب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس دروازے کو خاکستر کردیا گیا اس دروازے کا اب صرف نام باقی ہے۔
موری دروازہ: یہ شہر کے دیگر دروازوں سے چھوٹا تھا ، اب یہ موجود نہیں۔
دہلی دروازہ: اس کو دہلی کی سمت بنایا گیا یہ آج بھی موجود ہے۔
ٹیکسالی دروازہ: جوتوں کے بازار اور شاہی محلے کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے یہ دروازہ بھی اب اپنی اصل حالت میں موجود نہیں۔
لوہاری دروازہ: اس کا اصل نام ''لاہور'' دروازہ ہے لیکن لوہاری کے نام سے مشہور ہے جو اب تک موجود ہے۔
یکی دروازہ: یہ دروازہ ایک محافظ یکی کے نام پر تھا جوکہ بعد میں یکی کے نام پر تبدیل ہو گیا جوکہ اب موجود نہیں۔
شیرانوالہ دروازہ: اس دروازے کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کروایا۔ تعمیر کے بعد دو شیروں کے پنجرے اس دروازے میں رکھے گئے۔ اسی وجہ سے اس کا نام شیرانوالہ مشہور ہوا۔ یہ دروازہ اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔
کشمیری دروازہ: اس دروازے کا رخ کشمیر کی جانب ہے، اسی وجہ سے اس کو کشمیری دروازہ کہا جاتا ہے جوکہ ابھی تک موجود ہے۔
مستی دروازہ: یہ دروازہ ایک شاہی ملازم مستی بلوچ کے نام سے منسوب ہے۔ ٹوٹ پھوٹ ہونے کی وجہ سے اب یہ دروازہ موجود نہیں۔
روشنائی دروازہ: شام کے وقت نمازیوں کی گزرگاہ کے طور پر اس دروازے کو روشنی سے منسوب کیا گیا۔ یہ واحد قدیم دروازہ جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اس کی وہی قدیم شکل جس میں تعمیر کیا گیا۔
دہلی دروازے کے بارے میں مزید عرض کروں یہ دروازہ مشرقی سمت دہلی کی طرف ہے اسی لیے اس کو دہلی دروازہ کہا گیا یہ لاہور کے نامی گرامی دروازوں میں ایک ہے۔ لوگ باکثرت اس کو دیکھنے آتے ہیں اس دروازے کے باہر ریلوے اسٹیشن بنایا گیا ہے اور اسی سمت امرتسر اور جالندھر بھی واقع ہیں۔
اس دروازے کی پرانی عمارت اکبری، برطانوی عہد تک موجود تھی لیکن نہایت بوسیدہ اور دروازہ زمین بوس ہو چکا تھا یہاں تک کہ ہاتھی کا گزر بھی محال تھا۔ لہٰذا اس تکلیف سے بچنے کے لیے دروازہ گرا کر پھر محمد سلطان ٹھیکیدار کی معاونت میں حالیہ عمارت تعمیرکردی گئی یہ دروازہ نہایت مضبوط بنایا گیا۔ دروازہ کے دونوں طرف دو منزلہ عالی شان عمارت ہے جس میں گرلز ہائی اسکول موجود ہے اور اس کے وسط میں یہ دروازہ ہے۔
بھاٹی دروازہ: یہ دروازہ لاہور کے مغرب کی جانب ہے۔ بھاٹی دروازے کی تاریخی اہمیت اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ اس کا نام پہلے بھٹی دروازہ ہوتا تھا۔ جب حالات بدلتے رہے تو یہ بھٹی سے بھاٹی ہو گیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کوئی اس دور میں یہاں راجپوت خاصی تعداد میں رہتے تھے۔
وہ صدہا سال آباد رہے یہ دروازہ تاریخی ورثے کا درجہ رکھتا ہے۔ مشہور مصنف حکیم شجاعت احمد نے بھاٹی دروازہ کو لاہور کا ''جیلسی'' قرار دیا۔ اس دروازے میں بہت سے نامور شخصیات نے سکونت اختیارکی اور علامہ اقبال بھی کافی عرصہ یہاں رہائش پذیر رہے۔ صدیاں بیت گئیں نت نئے رہائشی تعمیراتی منصوبوں کے باعث لاہور شہر طویل سے طویل تر ہوتا گیا مگر اس کے قدیمی ثقافتی ورثے کو مسلسل نظراندازکیا جاتا رہا۔
قدیمی و ثقافتی ورثے کو مسلسل نظرانداز کیے جانے کے باعث اس ثقافتی ورثے کو نہ صرف قدرتی آفات سے خطرہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عدم دلچسپی بھی قدیمی ثقافت کو بھلانے کا باعث رہی ہے۔ جو قومیں تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں، تاریخ بھی ان کو فراموش کردیتی ہے۔ جب تک عوام سرکار کا ساتھ نہیں دے گی تو اس وقت تک کسی تاریخی ورثے کو بچانا یا کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سرکار لاکھوں روپے لگا کر مرمت کرتی ہے اس پر مارکر سے آکر اپنا نام لکھ جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ زندہ دلان لاہور اتنی آسانی سے اس قیمتی تاریخی ورثے کو فراموش ہونے دیں گے؟ یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے ، میں نے دیکھا ، سنا اور لکھا۔