صرف ایک سیکنڈ کا بلند درجہ حرارت کورونا وائرس کو ختم کرسکتا ہے

کورونا وائرس کے حامل مائع کو نصف سیکنڈ تک 72 سینٹی گریڈ پر گرمانے سے وائرس کی مقدار ایک لاکھ گنا کم رہ گئی


ویب ڈیسک April 30, 2021
تجرباتی طور پر کورونا وائرس والے محلول کو 72 درجے سینٹی گریڈ پر نصف سیکنڈ گرم کیا گیا تو وائرس کی شدت اور تعداد ایک لاکھ گنا تک کم ہوگئی۔ فوٹو: ٹیکساس، اے اینڈ ایم یونیورسٹی

ایک تجربے سے انکشاف ہوا ہے کہ سارس کوو ٹو (المعروف کورونا) وائرس کو بلند درجہ حرارت والے ماحول میں ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے کے لیے رکھا جائے تو اس سے وائرس تیزی سے تلف ہونے لگتا ہے۔

اگرچہ اس سے قبل کورونا وائرس کو مختلف درجہ حرارت پر رکھ کر اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ لیکن بلند درجہ حرارت ایک سے بیس منٹ تک نوٹ کیا گیا جو عملی طور پر ممکن نہیں ، کیونکہ یہ عمل مہنگا اور مشکل ہوسکتا ہے۔

اب ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے شعبہ برقیات وکمپیوٹر کے پروفیسر ایرم ہان نے ثابت کیا ہے کہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے کا بلند درجہ حرارت کورونا وائرس کو مکمل طور پر ناکارہ بناسکتا ہے۔ اس طرح ہوا میں پرواز کرنے والے کورونا وائرس کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر ایرم نے فولادی نلکی بنائی اور اس میں کورونا وائرس سے بھرپور مائع بھرا اور اسے فوری طور بہت گرم کیا اور پھر فوراً ہی ٹھنڈا کردیا۔ وائرس کو بہت تھوڑے وقفے کے لیے گرم کیا گیا تھا۔ اس طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم دورانیہ کا درجہ حرارت وائرس کو تباہ کرسکتا ہے۔ اب انہوں نے دو ماہ تک کئے گئے نتائج سائنسی برادری کے سامنے پیش کردیئے ہیں۔

اس طرح 161 فیرن ہائیٹ یا 72 درجے سینٹی گریڈ پر محلول کو نصف سیکنڈ تک گرم کیا جائے تو مائع میں وائرس کی تعداد ایک لاکھ گنا تک کم ہوجاتی ہے اور وائرس کا پھیلاؤ رک سکتا ہے۔ پروفیسر ایرم کے مطابق یہ ایک بہت اہم دریافت ہے کیونکہ مختصر دورانئے کی حرارت پیدا کرنا قدرے آسان ہوسکتا ہے۔

اس طرح نصف سیکنڈ کی دوبارہ حرارت مزید مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ طریقہ ایئرکنڈیشننگ نظاموں اور ہسپتالوں کے وینٹی لیٹر وغیرہ کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن عین اسی گرمی سے انفلوئنزا سمیت دیگر وائرسوں کو بھی برباد کرسکتا ہے۔ جو اگرچہ کم خطرناک ہے لیکن دنیا کےلیے ایک مشکل بنا ہوا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسی درجہ حرارت کو ملی سیکنڈ پر لاکر اس کی افادیت نوٹ کی جائے گی۔ تاہم ابتدائی نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں