صوبہ سندھ میں بچوں پر جسمانی تشدد میں کمی نہ آ سکی

حال ہی میں وڈیو وائرل ہوئی جس میں استاد طالبعلموں پرتشدد کرتا دکھائی دیتا ہے۔

ایسے واقعات کو دیکھتے ہوئے 4سال قبل سندھ اسمبلی نے جسمانی سزا کا بل منظور کیا تھا۔ فوٹو: فائل

بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کیلیے سندھ طویل عرصے سے جدوجہد میں مصروف ہے جہاں قانونی ڈھانچے کے باوجود بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی جاری ہے۔

مختلف اضلاع سے موصولہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان اداروں میں اساتذہ کا معمول ہے کہ وہ کمسن طلبہ کو انتہائی غیرانسانی اور ہتک آمیز سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو سزا دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی وڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ضلع عمرکوٹ میں ایک مدرسے کے عالم دین نے7سے 8سال کی عمر کے تین طالب علموں کو زدوکوب اور تشدد کا نشانہ بنایا، آپ لوگ ہمیشہ دیر سے کیوں آتے ہیں ؟، اگر آپ نے غلطی کو دوبارہ دہرایا تو میں آپ کا قتل کردوں گا، ''وڈیو میں استاد کی حقارت آمیز گفتگو سنتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔


ایسے ہی واقعات کو دیکھتے ہوئے 4سال قبل سندھ اسمبلی نے جسمانی سزا کا بل 2016 منظور کیا تھا تاکہ بچوں کو ہر طرح کے تعلیمی اداروں اور دیکھ بھال کے مراکز میں تشدد سے بچایا جاسکے۔اس بل میں بچوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی گئی، بل میں بچے کے انسانی وقار اور جسمانی سالمیت کا احترام کرنے کے حق کے تحفظ پر بھی خصوصی زور دیا گیا ہے۔

بچوں کے حقوق برائے قومی کمیشن (این سی آر سی) سندھ چیپٹر کے ممبر اقبال احمد ڈیٹھو کے مطابق قواعد تیار کیے گئے ہیں لیکن حتمی منظوری کے منتظر ہیں تاہم قواعد کی ایک کاپی جو ایکسپریس ٹریبیون نے حاصل کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ جس شخص نے بھی بچے پر تشدد کیا ہو ،اسے مقامی سطح پر تشکیل دی گئی چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں (تحقیقات کے بعد) اس معاملے کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے پاس مزید تفتیش اور کارروائی کیلیے بھیجیں گی۔

دوسری طرف صوبائی وزیر صحت کے ترجمان نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ طویل التوا کا شکار انسداد جسمانی تشدد سے متعلق سزا کا بل اس وقت حتمی شکل میں ہے جو بھی شکایات کو رجسٹرڈ کرتا ہے یا جب بھی میڈیا میں اس طرح کے واقعات کی خبریں آتی ہیں ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

انھوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ وزیر تعلیم سندھ اس معاملے سے متحرک ہیں اور انھوں نے پہلے ہی حکام کو آگاہ کیا ہے کہ جسمانی یا دیگر قسم کی سزا کو اسکول کی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
Load Next Story