مہنگائی کی وجہ سے کیک کے گتے تیار کرنیوالے کاریگر معاشی مشکلات کا شکار
گتہ سازی کے پیشے سے وابستہ افراد کی اکثریت دیگر پیشوں سے منسلک ہو گئی ہے۔
KARACHI:
مہنگائی میں اضافے اور سیزن کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانے والے گتے (جو خصوصی طور پر کیک کے نیچے لگائے جاتے ہیں)کے پیشے سے منسلک کاریگر معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس پیشے سے وابستہ ماہر کاریگر اس کام کو چھوڑ کر واپس اپنے آبائی شہروں میں چلے گئے ہیں اور وہاں دیگر پیشوں سے منسلک ہو گئے ہیں، کراچی میں کیک کے لیے گتہ تیار کرنے والے ماہر کاریگروں کی تعداد محدود ہو کر400تک رہ گئی ہے،کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانے والے گتے کے منفرد ڈیزائن بنانے کیلیے اب جدید کمپیوٹر گرافکس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے، ایکسپریس نے کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانیوالے گتوں کے پیشے کے حوالے سے ایک سروے کیا۔
سروے کے دوران اس پیشے سے وابستہ لیاقت آباد میں موجود ایک ماہر کاریگر محمد یعقوب نے بتایا کہ20 برس قبل جب کراچی میں امن وامان کی ورت حال بہتر تھی اور لوگوں کے معاشی حالات اچھے تھے تو اس پیشے سے وابستہ افراد کے کاروبار کا سیزن سال بھر چلتا تھا کیونکہ شہریوں کی معاشی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے وہ سیزن کے علاوہ ہر مہینے چھوٹی موٹی تقریبات کے لیے کیک خریدتے تھے لیکن اب بدامنی اور معاشی صورت حال نے جہاں تمام پیشوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہاں اس سے کیک کا گتہ تیار کرنے والے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں چند برس قبل ماہانہ5لاکھ سے زائد کیک کے گتے تیار کیے جاتے تھے جن کی تعداد اب کم ہو کر3 لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ پہلے اس پیشے سے 100سے زائد افراد منسلک تھے اور ماہر کاریگروں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی تاہم معاشی مسائل کی وجہ سے اب اس پیشے سے منسلک افراد کی تعداد کم ہو کر 50 اور ماہر کاریگروں کی تعداد400تک رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت800سے زائد بیکریاں ہیں جو آرڈر پر ہم سے کیک کے گتے تیار کراتے ہیں لیکن اب معاشی صورت حال خراب ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیکریاں ماہانہ 200سے300کیک کے گتے کی تیاری کے آرڈر دیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے60 فیصد اردو کمیونٹی کے لوگ اور40فیصد دیگر قوموں کے لوگ وابستہ ہیں۔
ماہر کاریگروں کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب کے اضلاع لاہور، ملتان، ساہیوال، فیصل آباد اور دیگر سے ہے جو اپنی روزی کمانے کیلیے کراچی آتے تھے تاہم اب اس پیشے کے حالات خراب ہونے کے باعث بیشتر کاریگر واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں اور وہاں دیگر پیشوں سے منسلک ہو گئے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہاتھ سے گتے تیار کرنے کے بجائے اب اس کام میں مشینوں کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا ہے، کیک کے گتے کی تیاری کے کارخانے لیاقت آباد، نیو کراچی، محمود آباد اور سرجانی ٹاؤن میں واقع ہیں اور ان کی تعداد 15 سے زائد ہے، انھوں نے بتایا کہ کیک کے گتے کا سیزن عیدالفطر، عیدالاضحی اور کرسمس پر ہوتا ہے، اس سیزن میں تقریباً 8 لاکھ سے زائد کیک گتے تیار کیے جاتے ہیں۔
مہنگائی میں اضافے اور سیزن کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانے والے گتے (جو خصوصی طور پر کیک کے نیچے لگائے جاتے ہیں)کے پیشے سے منسلک کاریگر معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس پیشے سے وابستہ ماہر کاریگر اس کام کو چھوڑ کر واپس اپنے آبائی شہروں میں چلے گئے ہیں اور وہاں دیگر پیشوں سے منسلک ہو گئے ہیں، کراچی میں کیک کے لیے گتہ تیار کرنے والے ماہر کاریگروں کی تعداد محدود ہو کر400تک رہ گئی ہے،کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانے والے گتے کے منفرد ڈیزائن بنانے کیلیے اب جدید کمپیوٹر گرافکس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے، ایکسپریس نے کیک رکھنے کیلیے تیار کیے جانیوالے گتوں کے پیشے کے حوالے سے ایک سروے کیا۔
سروے کے دوران اس پیشے سے وابستہ لیاقت آباد میں موجود ایک ماہر کاریگر محمد یعقوب نے بتایا کہ20 برس قبل جب کراچی میں امن وامان کی ورت حال بہتر تھی اور لوگوں کے معاشی حالات اچھے تھے تو اس پیشے سے وابستہ افراد کے کاروبار کا سیزن سال بھر چلتا تھا کیونکہ شہریوں کی معاشی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے وہ سیزن کے علاوہ ہر مہینے چھوٹی موٹی تقریبات کے لیے کیک خریدتے تھے لیکن اب بدامنی اور معاشی صورت حال نے جہاں تمام پیشوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہاں اس سے کیک کا گتہ تیار کرنے والے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں چند برس قبل ماہانہ5لاکھ سے زائد کیک کے گتے تیار کیے جاتے تھے جن کی تعداد اب کم ہو کر3 لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ پہلے اس پیشے سے 100سے زائد افراد منسلک تھے اور ماہر کاریگروں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی تاہم معاشی مسائل کی وجہ سے اب اس پیشے سے منسلک افراد کی تعداد کم ہو کر 50 اور ماہر کاریگروں کی تعداد400تک رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت800سے زائد بیکریاں ہیں جو آرڈر پر ہم سے کیک کے گتے تیار کراتے ہیں لیکن اب معاشی صورت حال خراب ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیکریاں ماہانہ 200سے300کیک کے گتے کی تیاری کے آرڈر دیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے60 فیصد اردو کمیونٹی کے لوگ اور40فیصد دیگر قوموں کے لوگ وابستہ ہیں۔
ماہر کاریگروں کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب کے اضلاع لاہور، ملتان، ساہیوال، فیصل آباد اور دیگر سے ہے جو اپنی روزی کمانے کیلیے کراچی آتے تھے تاہم اب اس پیشے کے حالات خراب ہونے کے باعث بیشتر کاریگر واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں اور وہاں دیگر پیشوں سے منسلک ہو گئے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہاتھ سے گتے تیار کرنے کے بجائے اب اس کام میں مشینوں کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا ہے، کیک کے گتے کی تیاری کے کارخانے لیاقت آباد، نیو کراچی، محمود آباد اور سرجانی ٹاؤن میں واقع ہیں اور ان کی تعداد 15 سے زائد ہے، انھوں نے بتایا کہ کیک کے گتے کا سیزن عیدالفطر، عیدالاضحی اور کرسمس پر ہوتا ہے، اس سیزن میں تقریباً 8 لاکھ سے زائد کیک گتے تیار کیے جاتے ہیں۔